منگل ، 29 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان
منموہن سنگھ نے کشمیریوں کے خون کے قلزم میں کھڑے ہو کر پاکستانی قیادت کو موہالی میں کرکٹ میچ دیکھنے کی دعوت دی۔ اس پر صدر اور وزیراعظم نے سر جوڑے۔ سوچا ہو گا کہ پڑوسی ملک کے وزیراعظم کو میچ دیکھنے کی دعوت کیوں دینا پڑی۔ اتنا اہم میچ اس میں تو پاکستانی قیادت کو خود ہی چلے جانا چاہئے۔ ان کے ذہن میں پاکستان بھارت کی جنگوں کی تصویر لہرائی ہو گی۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی داستانیں تازہ ہوئی ہوں گی۔ پاکستان بھارت تعلقات میں کشیدگی زیر بحث آئی ہو گی تو سمجھ گئے ہوں گے کہ منموہن کی دعوت عمومی نہیں خصوصی ہے۔ صدر اور وزیراعظم دونوں دانائی، شعور، عقل، فہم اور دانش میں اپنی مثال ہیں۔ منجھے ہوئے سیاستدان بھی۔ سیاسی معاملات کی طرح غیر ملکی دوروں پر بھی عقابی نظر رکھتے ہیں۔
بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے۔ (بہت سفر کرنے سے تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ تجربے سے آدمی ہوشیار ہوتا ہے)۔ زیادہ دورے اسی لئے کرتے ہیں۔ ادراک اور فراست کی عمدہ مثال ممبئی دھماکوں میں بھارت نے آئی ایس آئی کے ڈی جی کو طلب کیا تو منموہن کے دورے کی دعوت پر سر جوڑنے والے اُس وقت بھی ہم مشورہ ہوئے۔ اور ڈی جی کو بھارت بھجوانے کا فیصلہ مرحمت فرما دیا تھا۔ بھارت جانے کی خواہش تو شاید پہلے ہی مچل رہی تھی۔ فیصلہ کرنا تھا، دونوں جائیں یا ایک۔ ایک جائے تو کون۔ شاید ٹاس کی ہو یا صدر نے کہا ہو تم ابھی وسط ایشیائی ریاستوں کے دورے سے لوٹے ہو۔ رواں ہو، موشن میں ہو، جاﺅ منموہن سے بھی لوریاں لے آﺅ....
قائداعظم ثانی ہونے کا زعم ہے۔ کبھی کہتے ہیں قائداعظم انڈر گریجوایٹ تھے کبھی کہتے ہیں وہ بھی گورنر جنرل اور مسلم لیگ کے بیک وقت صدر تھے۔ گویا باقی کام بھی قائداعظم جیسے ہیں اور دو عہدے بھی قائداعظم کی پیروی میں پاس رکھے ہوئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے ایک گریجوایٹ ایم پی اے شیخ علاﺅالدین نے کہا کہ ”ہم لوٹے نہیں ہیں، قائداعظم نے بھی پارٹی بدلی تھی۔ اپنے گھٹیا مکروہ اور بدبودار سیاسی عمل کو درست ثابت کرنے کے لئے قائداعظم کا نام لینا کردار کی پستی کا آخری درجہ ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قائداعظم لنکنز ان کے گریجوایٹ تھے۔ انہوں نے گورنر جنرل بننے کے بعد مسلم لیگ کی صدارت چھوڑ دی تھی۔ قائداعظم کئی سال تک کانگریس اور مسلم لیگ کے رکن رہے بالآخر بغیر کسی عہدے کی خواہش اور دولت کے لالچ کے کانگریس کو خیرآباد کہہ دیا۔
قائداعظم قیامِ پاکستان کے بعد کبھی بھارت نہیں گئے۔ ڈھاکہ جانا تھا۔ بتایا گیا کسی انڈین ایئرپورٹ سے تیل لینا پڑے گا۔ قائد نے کہا ہرگز نہیں۔ ڈکوٹا میں ہی بڑا ٹینک لگا دو۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ قائداعظم مسئلہ کشمیر کا حل بزور بھی چاہتے تھے لیکن قائم مقام انگریز آرمی چیف جنرل گریسی آڑے آئے۔ آج فوج مضبوط، ایٹمی قوت کی بھی حامل، لیکن لڑانے والا قائد جیسا لیڈر نہیں ہے۔ معاملات مذاکرات کی ٹیبل پر حل کرنے کے چکر میں آ رہے ہیں اور چکر چلا رہے ہیں۔ منموہن نے کشمیریوں کی تڑپتی لاشوں پر کھڑے ہوئے میچ دیکھنے کی دعوت دے دی۔ قائداعظم کی کرسی پر بیٹھنے والوں کو لاکھوں لاشوں اور ہزاروں کشمیری دوشیزاﺅں کے سروں سے اچکی ہوئی چادروں پر سے گزر کر تو بھارت نہیں جانا چاہئے۔ جرنیل ٹینک پر بیٹھ کر دشمن ملک تو جائے کرکٹ دیکھنے کیوں۔ ضیاءالحق اور مشرف نے کرکٹ ڈپلومیسی کے نام پر بھارت یاترا کی۔ یہ دو جرنیلوں کی بزدلی تھی۔ جمہوری حکمران لاکھوں کشمیریوں کے خون سے بے وفائی ہزاروں عزت مآب خواتین کی تار تار آبروﺅں کو نظرانداز کر کے دشمن سے گلے ملیں تو اسے کیا کہا جائے؟ کشمیری اول و آخر پاکستانی ہیں وہ خودمختاری کےلئے نہیں پاکستان سے الحاق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ منموہن پوری دنیا کو تماشا دکھائیں گے کہ ہم ایک ہیں۔ غیرت کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم بھارت جانے کا فیصلہ واپس لے لیں۔
No comments:
Post a Comment