مارچ,6 ، 2011
فضل حسین اعوان
فضل حسین اعوان
ریمنڈ ڈیوس کے ذکر پر امریکی گوروں کے چہروں کی سرخی زردی میں بدل جاتی اور کالوں کا رنگ مزید سیاہ ہو جاتا ہے۔ امریکی انتظامیہ کے حواس پر ریمنڈ کی فوری رہائی کا بھوت سوار ہے۔ اوباما اور ہلیری سمیت امریکی انتظامیہ کا جیسے کوئلوں پر پاﺅں آیا ہوا ہے۔ کبھی پاکستان کو دھمکایا، کبھی امداد کی بندش کا ہوّا دکھایا اور کبھی ”خیرات“ میں اضافے کا مژدہ سنایا جا رہا ہے۔ لیکن دال کسی صورت نہیں گل رہی۔ کاغذی ہی سہی ہماری قیادت کم از کم ریمنڈ کے معاملے میں شیر بن چکی ہے۔ دیکھئے کب تک!
پارلیمنٹ کے سُپر ہونے کے دعویداروں نے اب سارا بوجھ عدالت پر ڈال دیا ہے۔ امریکہ ایک طرف حکومت پر مسلسل دباﺅ ڈال رہا ہے تو دوسری طرف مقتولین کے ورثا کو منانے کا بھی کام کر رہا ہے۔ اگر ورثا معاف کر دیتے ہیں۔ یا عدالت میں ثابت ہو جاتا ہے کہ ریمنڈ نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی تو اس پر ناجائز اسلحہ کے معمولی مقدمات باقی رہ جائیں گے جن میں لمبی سزا کا امکان نہیں۔ لیکن اب بات دو یا چار قتلوں کی نہیں بلکہ اس کے خطرناک جاسوسی کردار کی ہے۔ ریمنڈ ہر گزرتے لمحے بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی اور برطانوی اخبارات اسے سی آئی اے کا جاسوس قرار دے چکے ہیں۔ اس سے برآمد ہونیوالی دستاویزات، لاہور میں سرگرمیوں اور فائرنگ کے بعد جان کنی کے عالم میں تڑپتے پاکستانیوں کی ویڈیو بنانے کے عمل نے لاﺅس میں امریکی کارندوں کی بربریت کی یاد دلا دی۔ ان میں ایک رابرٹ اینڈرسن بھی تھا۔ اینڈرسن نے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ویتنام جنگ میں لاﺅس کی وہی سٹرٹیجک اہمیت تھی جو آج افغان وار میں پاکستان کی ہے۔ ویتنام جنگ میں اس کا کردار وہی تھا جو ریمنڈ ڈیوس کا پاکستان میں رہا ہے۔ رابرٹ اینڈرسن نے ریمنڈ کو سفارتی کور میں امریکی جاسوس قرار دیا ہے جو سفارتخانے کے باہر کام کر رہا تھا۔ رابرٹ نے دل دہلا اور رونگٹے کھڑے کر دینے والے انکشافات کئے ہیں۔ لاﺅس میں وہ اس پروگرام سے منسلک تھا جس کے تحت امریکی مفادات کی مخالفت کرنیوالوں کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ ”فونیکس پروگرام“ کے تحت اس علاقے میں کرائے کے قاتلوں کے ذریعے 60 ہزار افراد کو قتل کیا گیا.... پاکستان میں امریکی جنگ کا ایندھن بننے والوں کی تعداد 33 ہزار ہو چکی ہے۔ رابرٹ کے بقول انہوں نے سویلین انفراسٹرکچر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ پاکستان کو اب تک 45 ارب ڈالر ایسا ہی نقصان ہو چکا ہے۔ رابرٹ کہتا ہے کہ کرائے کے قاتل انہیں انسانی کانوں سے بھرے بیگ دکھاتے جن کو قتل کر دیا گیا ہوتا تھا۔ ایک دن ان کو بتایا گیا کہ اب مُردوں کے کان کاٹنے کی ضرورت نہیں معاوضے کے لئے صرف قتل ہونے والوں کی محض تصویر بنا لیا کریں۔ ریمنڈ ڈیوس کا گرفتاری سے قبل آخری عمل جان کنی کے عالم میں تڑپتے پاکستانیوں کی تصویر کشی تھی۔
ریمنڈ کو حساس اداروں کے حوالے کریں تو رابرٹ اینڈرسن سے بھی زیادہ سنسنی خیز انکشافات سامنے آسکتے ہیں۔ ایک امریکی جاسوس پاکستان کے ہاتھ لگا۔ ابھی اس نے کچھ نہیں اگلا۔ خود اس کے ہم وطن اس کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ اس کے اندر بہت کچھ چھپا ہے۔ جو ہمارے حساس اداروں کے لئے کارآمد ہے اور وہی اگلوا سکتے ہیں۔ آج امریکہ کی پاکستان سے دوستی کی آڑ میں دشمنی بالکل عیاں ہو گئی ہے۔ رابرٹ اینڈرسن نے کیا خوب کہا ہے ”آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ دوسرے ممالک ہم پر اعتماد کیوں نہیں کرتے اور پورے مشرقِ وسطیٰ میں لوگ شیطانِ اعظم (Great Satan) کے خلاف کیوں کھڑے ہو رہے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس اس وقت بڑی ابتر صورتحال سے دوچار ہے اس لئے کہ دنیا کے بیشتر لوگ، جن کا نظارہ مشرق وسطیٰ میں بخوبی کیا جا سکتا ہے، ہمارے جھوٹوں کے بارے میں جان گئے ہیں اور اب وہ ہماری بات ہرگز نہیں مانیں گے۔“ اینڈرسن نے جو کچھ اپنے ملک کے بارے میں کہا کاش ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں بھی آ جائے اور وہ ریمنڈ کو صرف سفارتکار اور محض چار پاکستانیوں کا قاتل ہی نہ سمجھیں، پاکستان کی بنیادوں کو ہلا دینے کی کوشش کرنے والا جاسوس سمجھیں اور اسی کے مطابق اس کے خلاف کارروائی بھی کریں اور شیطان اعظم سے گلوخلوصی کرا لیں۔
No comments:
Post a Comment