About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, March 15, 2011

غدارانِ ملت

 منگل ، 15 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان 
ملتِ بَیضا کو اتنا نقصان دشمن نے نہیں پہنچایا جتنا غداروں اور سیاہ کاروں نے۔ امہ کے غداروں کی لسٹ بنے گی تو جدید دور کے غداروں میں جنرل (ر) پرویز مشرف اور افغان صدر حامد کرزئی کے نام فہرست میں پہلے دوسرے نمبر پر ہونگے۔ پرویز مشرف نے اپنی بزدلی، اپنے اقتدار میں طوالت کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر پڑوسی برادر اسلامی ملک کی تباہی و بربادی کی خاطر پاکستان کی سرزمین امریکہ کے حوالے کر دی۔ امریکہ نے اپنے اتحادیوں سے مل کر لاکھوں افغانوں کو ان کی بستیوں سمیت صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ ہنوز ملکِ افغاناں کی تباہی و بربادی جاری ہے۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے امریکہ کو افغانوں میں سے ایک نسل کش کی ضرورت تھی جو ان کو حامد کرزئی کی صورت میں میسر آ گیا۔ کہاں سے؟ پاکستان سے! حامد کرزئی نے طالبان اسلامی تحریک کی شروع میں امن کی بحالی اور افراتفری کے خاتمے کے باعث حمایت کی تھی لیکن بظاہر ان کے سخت گیر موقف کی وجہ سے ان سے الگ ہو گئے۔ پھر ان کی مخالفت اور پاکستان چلے آئے۔ 1982ءمیں لاکھوں افغان پاکستان آئے تو کرزئی کا پورا خاندان بھی ان میں شامل تھا۔ کرزئی نے اعلیٰ تعلیم بھارتی شمالی ریاست ہماچل پردیش سے حاصل کی اور سیاسی تربیت کےلئے امریکہ چلے گئے اور بوسٹن میں ایک افغانستان ریستوران چلانے کی بھی تربیت حاصل کی یا یہ محض ایک بہانہ تھا کار دیگر سیکھنے اور کرنے کا! امریکہ کو طالبان دھڑوں کو متحد کرنے کی ضرورت پڑی تو کرزئی نے یہ کام پاکستان میں رہتے ہوئے کیا۔ انہی خدمات کے صلے میں افغانستان پر قبضے کے بعد امریکہ نے دسمبر 2001ءمیں کرزئی کو پاکستان سے اٹھا کر تختِ افغانستان پر لا بٹھایا۔ وہ تین سال تک چور دروازے سے آ کر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان رہے۔ 2004ءکے رسمی اور 2010ءکے جعلی انتخابات کے باعث وہ متواتر افغانستان کے صدر چلے آ رہے ہیں بھارت کے افغانستان میں موجود 14 قونصل خانے بلوچستان میں بدامنی، انارکی اور فساد برپا کئے ہوئے ہیں۔ یہ کرزئی کی بھارت میں تعلیم اور افغانوں پر اتحادیوں کے جبر ظلم میں معاونت امریکہ میں تربیت کا شاخسانہ ہے۔ ان کے والد عبدالاحد کرزئی ظاہر شاہ کے دور میں اہم سیاسی عہدے پر تعینات تھے۔ قیام پاکستان کے وقت ظاہر شاہ کی بادشاہت تھی۔ وہ جولائی 1973ءتک داﺅد خان کی بغاوت تک بادشاہ رہے۔ ظاہر شاہ کے بعد داﺅد خان اور اس کے بھی بعد ببرک کارمل حفیظ اللہ امین اور نجیب اللہ تک کسی حکمران اور حکومت نے پاکستان کے لئے کلمہ خیر نہیں کہا۔ حامد کرزئی بھی چونکہ اس باپ کا بیٹا تھا جو پاکستان مخالف ظاہر شاہ کا درباری تھا۔ اس لئے اس کی سرشت اور فطرت میں اس کے باوجود پاکستان دشمنی شامل رہی کہ خود اور اس کا خاندان کئی سال تک پاکستان کے ٹکڑوں پر پلتا رہا۔ 
امریکہ افغانستان میں بچوں اور خواتین سمیت بے گناہوں کا بے دردی سے خون بہا رہا ہے۔ حامد کرزئی کا قصر اقتدار انہی معصوم مارے جانے والے اپنے ہم وطنوں کی قبروں پر تعمیر ہوا ہے۔ لاکھوں ہم وطنوں کے ملیا میٹ ہونے پر کرزئی کو کوئی غم نہیں۔ گزشتہ دنوں ان کی اہلیہ محبوبہ زینت کرزئی کا ایک عزیز بھی امریکی بربریت کا شکار ہو کر مارا گیا تو زینت کو غمزدہ دیکھ کر کرزئی کے دل کے تار بھی ٹوٹ گئے۔ ان کے دل کا غم آہوں سسکیوں اور اشکوں کی صورت میں ابل کر باہر آ گیا، وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے اور آگ بگولہ ہو کر امریکی اور نیٹو فورسز سے کہا کہ افغانستان میں آپریشن بند کر کے جنگ پاکستان لے جائیں۔ احسان فراموش کرزئی کو دیکھئے، انہیں امریکہ کی جنگ سے نفرت اور اپنے لوگوں سے پیار ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو آپریشن بند کرنے کا ضرور کہنا چاہئے، یہ جنگ پاکستان لے جانے کے مشورہ کا کیا جواز ہے۔ پاکستان اتنا ہی لاوارث ہے کہ امریکہ بھارت اسرائیل اور اب کرزئی سمیت جس کے منہ میں جو آتا ہے بکتا چلا جاتا ہے۔ پیٹریاس کا موقف ملاحظہ فرمائیے اس امریکی جرنیل نے بیگم زینت کرزئی کے عزیز کے مارے جانے پر کرزئی سے معافی کی درخواست کی ہے۔ امریکہ کو لاکھوں افغانوں کے قتل، زخمی اور بے گھر ہونے پر کبھی معافی مانگنے کا خیال آیا نہ کرزئی کی آنکھ پر نم ہوئی۔ اب ایک شخص کے قتل پر امریکیوں کو زمیں ہلتی اور کرزئی کو آسمان جلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ 
کرزئی کے امریکہ کو جنگ پاکستان لے جانے کے مشورے پر پاکستان شدید احتجاج کرے۔ امریکہ کی جنگ کے شعلے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ جنگ مکمل طور پر پاکستان میں منتقل ہو جائے۔ پاکستانی حکمران ڈالروں کا حساب کتاب کئے بغیر پاکستان کے بہترین مفاد میں یہ جنگ امریکہ کو لوٹا دیں۔ امریکہ کو باور کرایا جائے کہ بہتر ہے کہ وہ یہ جنگ پاکستان سے سمیٹ لے۔ لڑنا ناگزیر ہے تو پاکستان سے باہر کوئی میدان منتخب کرے۔ وہ یہ جنگ اپنے ڈرون طیاروں سمیت افغانستان میں لڑے یا کرزئی کی چٹیل ٹنڈ پر‘ پاکستان کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔


No comments:

Post a Comment