سلام آباد میں 18 ممالک کے 250 جید علما نے 3 روزہ سیرت کانفرنس میں شرک کی۔ کانفرنس کا افتتاح وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کیا۔ اختتامی مشترکہ اعلامیہ میں جہاں اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لئے بھرپور سفارشات پیش کی گئیں وہیں خودکش حملوں کو حرام قرار دیتے ہوئے اسے ریاستی ڈھانچہ کو تباہ کرنے کی سازش باور کرایا گیا۔ علمائے کرام کے ”فتوے“ میں کہا گیا کہ انتہا پسندی مسلم معاشرے کے لئے زہر قاتل ہے۔ اسلام آباد میں جمع ہونے والے علما کرام نے ایک اہم سیمینار اور کاز کے لئے اپنا وقت دیا یہ ان کا امت پر احسان ہے۔ علما نے اپنا وقت دیا بدلے میں حکومت نے اپنی مرضی کے اعلامیہ پر دستخط کرانے یا ہاتھ اٹھوانے کے لئے کرائے، قیام و طعام سمیت ان کو ہر سہولت فراہم کی۔ 1857 میں دہلی میں بھی علما کرام جمع ہوئے تھے انہوں نے بھی فتویٰ دیا تھا۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے نہ صرف اپنا وقت دیا بلکہ وقت آنے پر جان بھی دیدی۔
علامہ فضلِ حق خیرآبادی نے جنگ آزادی میں انگریزوں کے عزائم بھانپ لئے تھے۔ جامع مسجد دہلی میں نماز جمعہ کے بعد علما کے سامنے تقریر کی اور اِستِفتاءپیش کیا۔ جس میں انگریز کے خلاف جہاد کے لئے کہا گیا تھا۔ جہاد کے اس فتوے پر مفتی صدرالدین خان، مولوی عبدالقادر، قاضی فیض اللہ، مولانا فیض احمد بدایونی، وزیر خان اکبر آبادی، سید مبارک حسین رامپوری نے دستخط کئے۔ اس فتوے کے جاری ہوتے ہی ہندوستان بھر میں قتال و جدال شروع ہو گیا۔ اُن علما کو اس فتوے کے نتائج و عواقب کا ادراک تھا لیکن
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِِ بام ابھی
کچھ علمائے کرام کا استدلال ہے کہ جب تک حکومت جہاد کی اجازت نہ دے جہاد نہیں ہو گا۔ جنگ آزادی میں مسلمان جہاد کی کس حکومت سے اجازت طلب کرتے۔ کشمیر میں مجاہدین بھارت کی جارحیت کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ افغانستان میں طالبان امریکی یلغار کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں عسکریت پسند اپنی دانست میں امریکہ کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ کیا ان کو کرزئی اور زرداری حکومت سے امریکہ کے خلاف جہاد کی اجازت لینا ہو گی؟ اور وہ بخوشی اپنے آقا کے خلاف جہاد کی اجازت دے بھی دیں گے؟
گزشتہ ماہ کوئٹہ میں اتحاد علما افغانستان کا اجلاس شیخ عبداللہ ذاکری کی صدارت میں ہوا جس میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے علما نے شرکت کی۔ ان علما نے فتویٰ جاری کیا کہ افغانستان میں اسلام کے مقدس قانون کے مطابق امریکہ کے خلاف اس وقت تک جہاد جاری رہے گا جب تک امریکہ روس کی طرح نیست و نابود نہیں جاتا۔
اسلام آباد میں جمع ہونیوالے علما نے بہت کچھ کہا، اتنا کچھ کہ تین دن تک کہتے ہی چلے گئے۔ لیکن وہ بات کہ جس کا پورے فسانے میں ذکر نہ تھا۔ یعنی امریکہ اسرائیل اور بھارت کی دہشتگردی پر کچھ نہ کہا۔ علمائے حق کو اس پر بھی بات کرنا چاہئے تھی۔مسلمانوں کی جان لینے والے حملوں کے حرام ہونے پر کس کو شک ہے؟ خودکشی جس بھی اعلیٰ و اولیٰ مقصد کے لئے کی جائے صریحاً حرام ہے۔ دشمن کو نقصان پہنچانے اور حق کی فتح کے لئے جو بھی مسلمان جان دیتا ہے وہ فدائی ہے فلسطین افغانستان اور کشمیر میں فدائین کی تعداد لامتناہی ہے۔ پاکستان میں دہشتگردی کرنیوالوں کو مسلمان تو کیا انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے۔
لیکن جو دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر صلیبی جنگ لڑ رہے ہیں ان کی دہشتگردی کے خلاف اسلام آباد میں آئے علماءخاموش کیوں رہے؟ دہشتگردی کی وجوہات ختم کر دی جائیں تو دہشتگردی اپنی موت آپ مر جائے۔ ان کو حق کی آواز بلند کرنا چاہئے تھی۔ اپنی جان اور واپسی کے کرائے کی پروا کئے بغیر۔
ایک مرتبہ پھر علامہ فضلِ حق خیرآبادی کی طرف آئیے۔ انگریزوں نے غداروں کو ساتھ ملا کر تحریک آزادی کو بے رحمی سے کچل دیا اس کے بعد ملکہ وکٹوریہ نے باغیوں کے لئے عام معافی کا اعلان کر دیا۔ مولانا زیر زمین تھے کہ اس اعلان پر منظرعام پر آ گئے۔ عام معافی کا اعلان ایک چال تھی۔ مولانا کو گرفتار کر کے خیرآباد سے لکھنﺅ کی عدالت میں بغاوت کے مقدمے میں پیش کر دیا گیا۔ گواہ نے علامہ خیرآبادی کی شناخت سے انکار کیا۔ جج ان کا شاگرد رہ چکا تھا۔ اپنی سیٹ پر جاتے ہوئے علامہ کے کان میں کہا ”علامہ صاحب صرف اتنا کہنا ہے کہ فتویٰ میں نے نہیں دیا تھا“۔ اپنی کرسی پر بیٹھ کر جج نے پوچھا کیا آپ نے انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا ہے؟ علامہ خیرآبادی کا جواب جج کے لئے غیر متوقع ”ہاں بالکل دیا ہے۔ گواہ نے محض مروت میں مجھے پہچاننے سے انکار کیا ہے“ اس پر علامہ فضلِ حق خیرآبادی کو عمرقید کی سزا دے کر کالاپانی بھیج دیا گیا اور ان کا وہیں 19 اگست 1861 کو انتقال ہوا۔ آپ کا مزار بھی وہیں پہ ہے۔ ان کے ساتھی مولانا کفایت علی کافی کو پھانسی لگا دیا گیا (تذکرہ علماءہند) اس دور میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا عبدالحق مہاجر مکی، شاہ احمد سعید مجددی، مولانا ڈاکٹر وزیر خان اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی جیسے اکابرین امت اپنا وطن چھوڑ کر حجاز مقدس میں جا بسے.... بادی النظر میں خودکش حملوں کا منبع پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہے۔ اسلام آباد آنے والے رہنمایانِ امت تھوڑا آگے چلے جاتے۔ کرنل امام اور خالد خواجہ کی طرح۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے۔ یہ بھی جہاد ہے یقیناً اس جہاد کے لئے سربراہِ مملکت سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
No comments:
Post a Comment