جمعرات ، 03 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان
گزشتہ سال برطانیہ میں ہونیوالا مقابلہ جیت کر پاکستانی فوجی دستے نے ثابت کر دیا کہ پاک فوج دنیا کی بہترین فوج ہے۔ سرحدوں کی حفاظت چاک و چوبند اور سربکف فوجی انجام دیتے ہیں۔ را، موساد، خاد،کے جی بی، سی آئی اے اور ایسی دیگر کئی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی سازشوں کا مقابلہ آئی ایس آئی کرتی ہے۔ فوج اور آئی ایس آئی جاگتی ہے تو قوم بے فکر ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ کیا؟ جنرل شجاع پاشا نے سی آئی اے چیف لیون پینٹا سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے علم میں لائے بغیر سی آئی اے اپریشنز پر تحفظات کا اظہار اور پاکستان میں خفیہ کنٹریکٹرز کی فہرست فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ خبر امریکی میڈیا کے حوالے سے ہمارے ہاں شائع ہوئی۔ اس خبر پر یقین نہیں آتا۔ یہ ممکن نہیں کہ امریکی کنٹریکٹرز کی تعداد اور ان کی سرگرمیاں آئی ایس آئی کی اُڑتی چڑیا کے پَر گن لینے والی آنکھ سے اوجھل ہوں۔ امریکی کنٹریکٹرز ان کو سی آئی اے کا جاسوس کہہ لیں یا ایجنٹ ہَوا میں تحلیل ہو کر امریکہ سے نہیں آئے ان کو پاکستانی سفارتحانے نے باقاعدہ ویزے جاری کئے۔ امریکہ میں پاکستانی سفیر بھی ویسے تو ہمارے حکمرانوں کے نہلے پہ دہلا ہیں، جس سکروٹنی اور چھان بین کی ضرورت ہے شاید بوجوہ وہ تقاضے پورے نہ کئے گئے ہوں لیکن وہاں سے یہاں آنے والوں کی تعداد کا تو انہیں علم ہو گا آگے کا کام آئی ایس آئی کا ہے۔ اس کی نظر میں امریکی سفیر تک مشکوک ہونا چاہئے۔ پھر ریمنڈ ڈیوس اس کی عقابی نظروں سے کیسے اوجھل رہا؟ یہ جنرل پاشا اور جنرل کیانی کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ کیا یہ مس مینجمنٹ ہوئی؟ وسائل کی کمی آڑے آئی؟ سیاسی اور عسکری انتظامیہ کے مابین باہمی رابطوں کا فقدان یا کچھ اور ہے؟ ہمیں ایک نہیں کئی عیار مکار جدید اسلحہ و ٹیکنالوجی سے لیس دشمنوں کا سامنا ہے۔ دفاعی معاملات اور جاسوسی کے نٹ ورکس کو کا ¶نٹر کرنے کے لئے تو کوتاہی، لاپروائی اور غفلت کی سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے۔ اگر کہیں سیاسی معاملات حائل ہیں تو فوج کے لئے ان کو دور کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ قوم اسی لئے بے فکر ہے کہ دفاعی معاملات فوج کے مضبوط ہاتھوں میں ہیں۔ سرحدوں پر دشمن سے نمٹنے کی تیاریاں اپنی جگہ، ہمارے گھوڑے تیار ہیں لیکن آج اصل خطرہ سرحدوں کے اندر ہے۔ دشمن کو ہم نے خود بُلا کر اپنے آپ کو خطرے میں ڈال لیا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اپریشن کے خوف سے 400 سی آئی اے جاسوسوں نے امریکی سفارتخانے میں پناہ لے لی ہے۔ حکومتی اپریشن تو کہیں نظر آتا ہے نہ اس کا امکان ہے۔ ان کے پا ¶ں تلے ریمنڈ کی صورت میں بٹیرا آیا تو کپکپی طاری ہو گئی۔ البتہ خفیہ والوں کے اپریشن سے شاید امریکی جاسوس خوفزدہ ہوں۔ پشاور میں امریکیوں سمیت غیر ملکیوں نے جائیدادیں خرید کر اپنے سکیورٹی گارڈ رکھے ہوئے ہیں ان کی سکیورٹی کی ذمہ داری حکومت کی ہے لیکن مشرف ان کو ذاتی فوج رکھنے کی اجازت دے گئے تھے۔ غیر ملکیوں کے لئے جائیداد کی خریداری کے قوانین سخت ہیں لیکن اجازت تو ہے، جب اجازت ہے تو لالچی حکام کے ضمیر کے سودے میں دیر کتنی لگتی ہے؟ گوادر بھی ٹکڑوں میں بک رہا ہے جہاں غیر ملکی گاہک سودوں میں مصروف ہیں۔ سٹیل مل بھی غیر ملکیوں کو بیچی گئی تھی۔ لاہور کے گورنر ہا ¶س پر بھی امریکہ کی نظر ہے۔ گھر کے برتن بیچ کر روٹی پوری نہیں ہو سکتی۔ کچھ بھی برائے فروخت ہو تو خریدار مل جاتے ہیں ایسے بھی ہیں جن کا بس چلے تو پورا ملک بیچ دیں۔ جب تک جمہوریت مکمل طور پر جڑیں نہیں پکڑ لیتی پاکستان میں غیر ملکیوں پر ایک مرلہ کی خریداری پر بھی پابندی لگا دی جائے۔ یہ کام محب وطن سیاسی قیادت کے کرنے کا ہے لیکن ان کے بالغ ہونے میں مزید بیس پچیس برس درکار ہیں۔ یوں فوری طور پر یہ کام عسکری قیادت سیاسی قیادت کو مشورہ دے کرا سکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment