مارچ,5 ، 2011
فضل حسین اعوان
خدا بہتر جانتا ہے کہ شہباز بھٹی موت سے نہیں ڈرتے تھے یا گارڈوں سے ڈرتے تھے۔ موت کا یقیناً ایک دن مقرر ہے لیکن قدرت نے ہر انسان کو اپنی حفاظت کا اختیار اور شعور دے رکھا ہے۔ ٹرین کے سامنے کودنے اور دریا میں چھلانگ لگانے کا انجام کیا ہوتا ہے؟ بجلی کی تاروں کو چھو کر اور تندور میں ہاتھ ڈال کر اس کے سلامت رہنے کی توقع حماقت ہے.... سویڈن پرامن ملک ہے۔ اس کا وزیراعظم اولف پالمے اپنی اہلیہ لزبت کے ساتھ آدھی رات کو سینما سے پیدل گھر واپس آ رہے تھے کہ ان پر فائرنگ کر دی گئی۔ پالمے موقع پر ہلاک ہو گئے یہ 28 فروری 1986ءکا واقعہ ہے۔ اس قتل میں کے جی بی ملوث تھی سی آئی اے کوئی اور ایجنسی یا ہاتھ؟ یہ قتل بدستور معمہ ہے۔ شہباز بھٹی جس ملک میں بغیر سیکورٹی کے پھرتے تھے یہ سویڈن نہیں پاکستان ہے۔ یہاں کون محفوظ ہے۔ جی ایچ کیو کے اندر حملہ ہو چکا ہے چھاﺅنیاں نشانہ بنتی ہیں۔ کمانڈوز کو میس اور بیرک میں دہشتگردوں نے جا لیا۔ حساس اداروں کے دفاتر اور بسیں بھی دہشتگردی سے محفوظ نہیں۔ شہباز بھٹی نے خود کو کیسے محفوظ سمجھ لیا۔ سلمان تاثیر کی طرح اپنے بیانات سے وہ خود کو متنازعہ بنا چکے تھے۔ ان کے عزیزوں کے مطابق ان کو قتل کی دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔ ان کی سکیورٹی میں غفلت سے بہت سے لوگ آگاہ ہوں گے۔ کیا سب عقل سے پیدل تھے۔ کسی نے سمجھانے کی کوشش نہیں کی! کسی عہدیدار کے لئے موجودہ حالات میں بغیر مناسب سکیورٹی کے گھومنا پھرنا خودکشی کے مترادف ہے۔ متعلقہ اداروں نے ایک وزیر کو خودکشی کی راہ پر چلتے دیکھا اور اسے چلنے دیا۔ ہر پاکستانی کو شہباز بھٹی کے سوگوار خاندان سے ہمدردی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اپنے قتل کے سب سے بڑے ذمہ دار وہ خود ہیں۔
وزیراعظم اس قتل پر آبدیدہ، افسردہ اور رنجیدہ ہوئے۔ جذبات میں آ کر کابینہ کے اجلاس سے سٹاف کو نکال کر دروازہ بند کر لیا۔ بالکل اسی طرح جذباتی ہوئے جیسے شروع کے دنوں میں ہو کر پارلیمنٹ میں اعلان کیا تھا کہ کوئی ہم سے بہتر حکومت چلا سکتا ہے تو آئے، قاضی حسین احمد نے پیشکش قبول کی کہ ویسے تو جماعت کو اقتدار کبھی مل نہیں سکتا۔ ایسے ہی سہی بغیر اکثریت کے۔ لیکن وزیراعظم اُس گرو کے چیلے جن کا وعدوں اور معاہدوں کے حوالے سے موقف واضح ہے.... دروازے بند کر کے استعفٰی کا اعلان کر دیا۔ وزیروں نے کہا چھڈو جی تو پیر صاحب کا درجہ حرارت نارمل اور حواس بحال ہو گئے۔ ان کی وزارت عظمٰی میں جو کچھ ہو رہا ہے انہیں بند نہیں کھلے دروازے استعفٰی دے دینا چاہئے۔ بند دروازوں کے اندر کیا ہوا، اسے راز رہنا چاہئے تھا۔ کابینہ میں 96 نہیں صرف دو درجن وزیر ہیں وہ بھی راز کو ہضم نہ کر سکے۔ افسروں کو کمروں سے نکالنے کا فائدہ؟ اندر کی بات باہر آ گئی اور میڈیا میں چھا گئی۔ اس سے وزیراعظم کی سبکی ہوئی یا عزت افزائی؟ یہ بھی ہو سکتا ہے خود قبلہ کا ہی ہاضمہ درست نہ ہو۔ جن کے اپنے خاص لوگ جاسوسی کریں وہ امریکی جاسوسوں پر کیا قابو پائیں گے۔
شہباز بھٹی کے زخمی ہونے کی اطلاع ملی تو میڈیا رپورٹس کے مطابق سکیورٹی حکام کے منع کرنے کے باوجود وزیراعظم ہسپتال چلے گئے۔ اسے کیا کہا جائے۔ وزیراعظم اور وزرا جیسے بھی ہیں ملک کا وقار ہیں۔ ان کو اپنے لئے ایسے مسائل پیدا نہیں کرنے چاہئیں جس سے ملکی شہرت اور عزت پر آنچ آئے۔ شہباز بھٹی کے قتل کی تپش عالمی لیڈروں نے محسوس کی۔ ویٹیکن سٹی سے پوپ جی کے بھی دل جلا دینے والے بیانات آئے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں۔ اس کا جواب دیانت داری سے اقلیتوں کو وقتی جذباتیت سے باہر نکل کر دینا چاہئے۔ پرامن اقلیت اکثریت سے بھی زیادہ محفوظ ہے۔ قائداعظم نے اقلیتوں کے جس تحفظ کی بات کی تھی ان کو اس سے بڑھ کر تحفظ حاصل ہے۔ پاکستان کی اکثریت بم دھماکوں، خودکش حملوں، فرقہ واریت کا شکار اور آپس کے فسادات میں مبتلا ہے۔ اقلیتوں کو ایسی کسی بھی بلا، وباءاور ابتلا کا سامنا نہیں۔ بھٹی کا قاتل کون ہے کوئی مجاہد، سی آئی اے، را یا موساد کا کوئی ایجنٹ۔ ہمارے وزیر داخلہ کا بیان ہے کہ قاتلوں کا پتہ چل گیا ہے۔ خدا کرے دعویٰ درست ہو اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے۔
No comments:
Post a Comment