About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, November 24, 2012

امریکہ ٹوٹنے سے بچ پائے گا ؟







امریکہ ٹوٹنے سے بچ پائے گا ؟
17-11-2012

کالے صدر کے انتخاب پر امریکی گورے غصے سے لال پیلے ہوئے۔ جمہوری اقدار کا احترام لازم ہے۔ ویسے اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ اگلے چار سال وہ اوباما کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔ اشتعال اور ا ±بال میں کچھ اور تو نہ کر سکے فوری طور پر 20 ریاستوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے وفاق سے الگ ہونے کی آئین میں گنجائش کے مطابق وائٹ ہا¶س کو درخواست دیدی۔ 6 نومبر کو صدارتی انتخابات ہوئے 9 نومبر کو علیحدگی کی سوچ سامنے آئی جو اب باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ معمولی معاملے کو ہوّا بنا کر پوری دنیا میں طوفان اٹھا دینے والا امریکی اور اس کے زیر اثر مغربی میڈیا اس معاملے میں خاموش ہے۔

ایک عمل ایک بار، بار بار یا ہزار بار بھی دہرایا جائے، اس کے ردّعمل میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ معیشت ڈوبے تو بہت کچھ ڈوب جاتا ہے۔ شعبے، ادارے، معاشرے، ریاستیں اور سلطنتیں بھی۔ پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ معیشت کی زبوں حالی کے باعث ٹوٹی تو یہی قہر سلطنتِ برطانیہ پر دوسری جنگِ عظیم میں ٹوٹا۔ ایک ہی ردعمل کا ایک جیسا ردعمل۔ برطانیہ بھی معیشت کے زوال پذیر ہونے پر سکڑا اور سمٹ کر محدود ہو گیا۔ روس کو اپنے سپر پاور ہونے کا زعم تھا اس کی معیشت افغانستان پر قبضے اور مجاہدین سے جنگ میں لڑکھڑائی اور زمین بوس ہو گئی۔ ایک ہی عمل کا یکساں ردعمل جہاں بھی دیکھنے کو ملا اور بالآخر وہ بھی ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ افغانستان سے پوری تار یخ میں کبھی کوئی جارح سرخرو ہو کر نہیں گیا۔ اس کا سب سے زیادہ تجربہ تاجِ برطانیہ کو ہے۔ امریکہ نے آزادی برطانیہ سے حاصل کی تھی۔ برطانیہ نے امریکیوں کو حقِ آزادی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا تھا۔ امریکہ کی آزادی سے انگریزوں کے بدن میں ایک تیر پیوست ہو گیا تھا جس کی ٹیس تو ختم ہو گئی ہو گی زخم بھی مندمل، لیکن نشان تو نہیں مٹ سکتا۔ امریکی شاید صدیوں تک دنیا کی واحد سپر پاور کا سٹیٹس انجوائے کرنے کے خواب دیکھ رہے ہوں لیکن اب یہ بے تعبیر ہوتے نظر آ رہے ہیں جس کے پیچھے تدبیر برطانیہ کی ہو سکتی ہے۔ برطانیہ نے امریکہ کو اس کے شانہ بشانہ ہو کر افغانستان کی دلدل میں لا پھینکا جہاں سے کبھی کوئی حملہ آور سرخرو ہو کر نہیں لوٹا۔ برطانیہ سمیت آج افغان جنگ کے سبب امریکہ کی معیشت ڈوب چکی ہے۔ ہر عمل کا یکساں ردعمل، سلطنت عثمانیہ و برطانیہ اور سوویت یونین معیشت ڈوبنے سے ڈوبے اور اب امریکہ بھی سپر پاور کے طور پر غروب ہوتا نظر آتا ہے۔

امریکی اعلان آزادی میں ریاستوں کو وفاق سے الگ ہونے کا آپشن دیا گیا ہے۔ ایک ریاست کے 25 ہزار افراد دستخط کر دیں تو وائٹ ہا¶س کو اس ریاست کی درخواست پر غور کرنا ہوتا ہے، نہ صرف آزادی کی محرک ریاستوں میں سے 7 ریاستوں کی مطلوبہ تعداد نے دستخط کر دئیے ہیں بلکہ مزید دس ریاستوں کی طرف سے بھی آزادی کا مطالبہ آ گیا ہے ان میں مزید اضافہ بھی عین ممکن ہے۔ امریکہ، سوویت یونین کے ٹوٹنے سے واحد سپر پاور بنا۔ وہ اپنی حیثیت صدیوں تک برقرار رکھ سکتا تھا مگر اس کو تکبر اور غرور لے ڈوبا۔ اس کی واحد سپر پاور ہونے کی عمر بلبلے کی زندگی سے زیادہ ثابت نہ ہوئی۔ اس نے اپنی طاقت کو انسانی فلاح، بہبود اور بھلائی کے بجائے دنیا پر تھانیداری، انسانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے اور انسانیت کا گلا دبانے کیلئے استعمال کیا۔ عراق کے پاس اول تو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے ہی نہیں اگر تھے بھی تو کیا باقی دنیا ایسے مطلقاً ہتھیاروں سے پاک ہے؟ ”ایران کو ایٹمی طاقت نہیں بننے دیں گے“ جیسے بیانات بھی ان کے تکبر اور کرہ¿ ارض کا نظام اپنی خواہش کے مطابق چلانے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کائنات کا نظام قدرت کاملہ کی مرضی سے چلتا ہے انسان ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انجام نمرود، شداد اور فرعون و قارون جیسا ہونا ہی مقدر ہے۔

امریکیوں کے دل و دماغ میں وفاق سے علیحدگی کی سوچ پیدا ہونے کی وجہ امریکہ کی ڈوبتی ہوئی معیشت ہی ہے۔ ہر امریکی جنگجو نہیں ہے اس کے باوجود اسے ایسی جنگ کیلئے ٹیکس دینا پڑتا ہے جس میں معصوم بچوں اور خواتین سمیت لاکھوں کی تعداد میں بے گناہ افراد مارے گئے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ امن کی خواہش رکھنے والے امریکی سینڈی طوفان کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے لگایا جانے والا ٹیکس تو خوشدلی سے ادا کر دیں گے۔ انسانیت کے قتل کیلئے ٹیکسدیتے ہوئے وہ ضرور سوچتے ہوں گے۔ یہ سوچ آج آزادی کی صورت میں سامنے آ گئی ہے۔ یقیناً امریکہ کے ٹوٹنے کی بنیاد پڑ گئی ہے اور اس کی وجہ بھی افغانستان کی دلدل ہے جس میں امریکہ کی معیشت ڈوبی۔ ایک عمل کا ایک جیسا ہی ردعمل ہوتا ہے یہ عمل ایک بار ہو یا ہزار بار ہو۔

امریکی ایف بی آئی نے اپنے میڈیا کو نکیل ڈال کر سی آئی اے سربراہ پیٹریاس کا سکینڈل صدارتی انتخابات سے قبل طشت ازبام ہونے سے بچا لیا جس سے اوباما شکست سے بچ گئے۔ اوباما ہار گئے ہوتے تو امریکیوں کے ذہن میں وفاق سے علیحدگی کا خیال تک نہ آتا، یہ اہتمام نادانستگی میں خود ایف بی آئی نے کر دیا۔ روس کو سازش کرنی پڑی نہ ایران یا کسی اور ملک کو کوئی کردار ادا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔

افغانستان میں نئے امریکی کمانڈر جنرل جوزف نے دعویٰ کیا ہے کہ 2014ئ کے بعد بھی امریکی افواج کا افغانستان میں قیام ضروری ہے۔ امریکہ میں علیحدگی کی لہر چل نکلی ہے اس پر امریکی میڈیا کی لاتعلقی کے باوجود امریکی انتظامیہ س ±کھ کا سانس نہیں لے سکتی۔ 2014ئ کے بعد امریکیوں کا افغانستان میں نام و نشان ملنا بھی محال ہو گا۔ امریکی ریاستوں نے بڑے مہذبانہ اور پ ±رامن طریقے سے سوا دو سو سال قبل دیا گیا حق مانگا ہے، اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں یا وہی رویہ اختیار کیا گیا جو برطانیہ نے امریکیوں کے ساتھ آزادی مانگنے پر اختیار کیا تھا تو انہی امریکیوں کی نسل بھی وہی کچھ کرے گی جو 18ویں صدی کے وسط کے بعد ان کے آبائ نے کیا تھا البتہ ان کے سامنے اب ہزاروں میل دور کے گورے نہیں اپنے ہی ملک کے گورے، کالے اور پیلے ہوں گے۔ نتیجہ کیا ہو گا؟ یکساں ردعمل۔ وہی جو 4 جولائی 1776ئ کو انگریزوں سے آزادی کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ تاریخ پر نظر رکھنے والے وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ اب امریکہ کو بکھرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ شاید ایک امریکہ سے پچاس امریکہ بن جائیں۔

اسلحہ سے پاک







 نومبر
22  ,2012

اسلحہ سے پاک!

عالمی میڈیا میں آنے والے اعداد و شمار کے مطابق‘ 88.8 فیصد امریکیوں کے پاس آتشیں اسلحہ ہے۔ یمن کے شہری 54.8 فیصد کے ساتھ دوسرے سوئٹزر لینڈ اور فن لینڈ کے 45.7 اور45.3 کے ساتھ بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔ امریکہ میں اسلحہ کلچر کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں۔بی بی سی اور دیگر ذرائع ابلاغ نے امریکیوں کی اسلحہ اندوزی کے حوالے سے دلچسپ رپورٹیں شائع کی ہیں امریکہ شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آئینی طور پر ہر بالغ شہری کو ہتھیار یا بندوق رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اگر آپ کی عمر اٹھارہ سال یا اس سے زائد ہے، آپ امریکی شہری ہیں اور آپ کا کوئی پہلے سے مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے تو آپ محض اپنا ڈرائیونگ لائسنس یا ریاستی شناختی دستاویز کسی بھی اسلحے کی دکان پر دکھا کر بندوق خرید سکتے ہیں۔امریکی ہتھیاروں سے عشق کرتے ہیں‘ اور یہی بات آپ کو کئی امریکی فخر سے بتائیں گے۔یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ امریکہ دنیا میں بندوق کا کلچر رکھنے والے ملکوں میں سب سے آگے ہے اور اس کی تاریخ اور قومی زندگی میں بندوق ایک جزو لاینفک رہا ہے۔ البتہ گولی کے زور پر ہی انہوں نے امریکہ پہنچ کر قبضہ کیا تھا۔

عوام کے پاس اسلحہ کی بہتات اور بھرمار‘ لاقانونیت‘ دہشت گردی و امن و امان کی خرابی کی وجہ ہوتی تو امریکہ سوئٹزر لینڈ اور فن لینڈ میں امن و امان اور استحکام کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔ ہمارے سیاستدان ”اسلحہ سے پاک“ کی بات کر رہے۔ آج کل اس نعرہ کو لے کر ہمارے پارلیمنٹیرین آگے آگے ہیں۔ 19 نومبر 2012ئ کو سینٹ میں کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قرارداد پیش اور پاس کی گئی۔ دوسرے روز قومی اسمبلی میں ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قرارداد لائی گئی وہ بھی منظور ہو گئی۔ سینٹ میں پیش ہونے والی قرارداد کی محرک اے این پی تھی جس کی مخالفت متحدہ قومی موومنٹ نے کی۔ اگلے روز قومی اسمبلی میں متحدہ کی پیش کردہ قرارداد مسلم لیگ ن‘ اے این پی اور جے یو آئی کے دل کو نہ لگی۔ گویا گریجوایٹ پارلیمنٹیرین کے مابین کراچی یا پورے ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے پر اتفاق نہیں ہے۔ البتہ قراردادیں اکثریت رائے سے منظور ہو چکی ہیں۔ کسی بھی قرارداد کی حیثیت تجویز کی سی ہوتی ہے اس کو قانون کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم پارلیمنٹ کے وقار کا تقاضا ہے کہ اس کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل کیا جائے۔ لیکن اس حوالے سے جتنی بے توقیری موجودہ پارلیمنٹ کی پارلیمنٹ کو سپریم قرار دینے والوں کے ہاتھوں ہوئی ہے اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے پارلیمان کی متفقہ قراردادوں کو حکومت نے کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ تیل کی قیمتوں میں کمی اور ہفتہ وار تعین کے خاتمے کی قراردادوں کو حکومت نے پذیرائی نہیں بخشی۔ تیل و گیس کی ہفتہ وار قیمتوں کے تعین کا خاتمہ سپریم کورٹ کے حکم پر ہوا۔ کراچی یا ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قراردادیں بھی گذشتہ کئی قراردادوں کی طرح بے توقیری کی مٹی میں مل جائیں گی۔ جہاں تو قانون کو کوئی نہیں پوچھتا قراردادوں کی کیا اہمیت ہو گی! کراچی و ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قراردادوں کی حیثیت ڈرامہ اور تماشا سے زیادہ نہیں ہے۔ ان سے پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرین کا وقت ضائع ہوا۔ سیاستدانوں کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا اور بعض کے مابین نئی تلخیوں نے جنم لیا۔ یہی ان قراردادوں کا حاصل ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ صرف کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کی مخالفت کر رہی ہے۔ متحدہ مرکز اور صوبہ سندھ میں حکومت کی اتحادی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے متحدہ کو ناراض کرکے کراچی میں بے رحم آپریشن کرنا ممکن نہیں۔ متحدہ کا موقف اصولی ہے کہ اسلحہ کے خلاف آپریشن صرف کراچی ہی میں کیوں۔ پورے ملک میں کیوں نہیں؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پورے ملک میں اسلحہ کے خلاف آپریشن ممکن ہی نہیں ہے۔ خیبر پختون خواہ‘ فاٹا اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں لوگ اسلحہ کو اپنا زیور سمجھتے ہیں۔ ہر شخص بلاضرورت بھی اپنے پاس اسلحہ رکھتا ہے۔ یہ ان کی روایات اور کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ آپ کسی سے اس کا کلچر نہیں چھین سکتے۔ امریکہ میں کئی بار گن کنٹرول لائ لانے کی کوشش کی گئی وہ کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ آپ قبائل جیسے روایات پر ایمان کی حد تک کاربند معاشرے سے اسلحہ کیسے واپس لیں گے؟ بالفرض ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کی مہم شروع ہوئی ہے تو اس کا آغاز کہاں سے ہو گا؟ کراچی سے خیبر پی کے‘ فاٹا یا بلوچستان سے؟ کیا اس پر تمام پارٹیوں کا اتفاق رائے ہو جائے گا؟ اگر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو کیا آج کے حکمران ہر مخالفت کو نظرانداز کرتے ہوئے بلاامتیاز آپریشن کی جرات رکھتے ہیں؟

سوال یہ ہے کہ کراچی یا ملک کو اسلحہ سے پاک کیوں کیا جائے؟ یہ ضرورت لاقانونیت بدامنی‘ بھتہ خوری‘ اغوا برائے تاوان اور قتل و غارت جیسے جرائم کے باعث محسوس کی گئی ہے کیا ملک کے دیگر علاقوں میں بھی کراچی جیسے بدترین حالات میں جہاں آپریشن کیا جائے؟ قبائل کے پاس تو اسلحہ صدیوں سے موجودہ ہے۔ ان علاقوں میں امن و امان بگڑا ہوا ضرور ہے لیکن اس کی وجہ ہر آدمی کے پاس من مرضی کا اسلحہ ہونا نہیں ہے۔ پھر وہاں اسلحہ کے خلاف آپریشن کا جواز نہیں رہتا۔ ضرورت کراچی سمیت ملک کے کسی بھی حصے میں امن کے قیام کی ہے۔ کیا امن صرف ہر شخص سے اسلحہ چھین لینے سے قائم ہو سکتا ہے؟ ملک کے بہت سے حصوں میں اسلحہ نہ ہونے کے برابر ہے‘ جرائم وہاں بھی ہوتے ہیں۔ قتل و غارت بھی ہوتی ہے۔ سیاسی بنیادوں پر ممنوعہ بور کے اسلحہ کے بے شمار لائسنس جاری کئے گئے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بھی جرائم پیشہ لوگ خطرناک اور غیر ممنوعہ اسلحہ خرید سکتے ہیں۔ پرامن شخص کے حوالے آپ ٹینک اور توپ بھی کردیں تو وہ اس کو تخریب دہشت اور وحشت کے لئے استعمال نہیں کرے گا۔ اگر ہمارے حکمران‘ سیاستدان اور دیگر بااثر رہبرو رہنما لاقانونیت‘ ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی کی وجوہات ختم کر دیں تو کسی کے پاس پڑ اسلحہ کسی کے لئے خطرناک ثابت ہو گا نہ اس سے واپس لینے کی ضرورت پڑے گی۔ قانون کی بالادستی ہو تو بھی ہر گھر میں اور ہر شخص کے پاس موجود اسلحہ سے کسی کو خطرہ نہیں ہے۔ کراچی میں کیا کبھی قانون کی عملداری کی کوشش کی گئی؟ پے رول پر رہائی کی سہولت قاتلوں اور دہشت گردوں کو نہیں دی جاتی اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے رہائی کی۔ قانون پر عملداری یقینی بنا دی جائے تو جائز اور ناجائز اسلحہ کا استعمال خود بخود رک جائے گا۔

کراچی اور ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کا عزم ظاہر کرنے والے اگر پرخلوص‘ نیک نیت‘ دیانتدار اور قوم و ملک کے خیرخواہ ہوں تو اسلحہ کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ملا عمر کی ایک آواز پر اسلحہ کو زیور سمجھنے والوں نے برضا رغبت اسلحہ جمع کرا دیا اور پوست جو ان کے روزگار کا وسیلہ تھا اس کی کاشت ترک کر دی۔ قرون اولیٰ کی بات کریں تو‘ حرمت کا حکم ہوا تو شراب کے رسیا¶ں نے سربازار شراب کے مٹکے توڑ ڈالے۔ ہمارے حکمران بھی ایسے کردار کا مظاہرہ کریں تو کسی آپریشن کی ضرورت نہیں رہے گی۔





























ا ±مہ کا اتحاد بھی.... اقبال کا خواب

9-11-12


 فیملی میگزین کے تازہ شمارے میں امتنان ظفر کی دلکش تحریر کے ساتھ حسن البلقیہ کی دیدہ زیب تصویر بھی شائع ہوئی ہے‘ ان کو پڑھنے اور دیکھنے والا سونے اور سنہرے خیالات میں گم ہو جاتا ہے۔ برونائی دارالسلام کے سلطان حسن البلقیہ کی شان و شوکت کی دھوم ساری دنیا میں ہے اس کی ایک وجہ ان کا بادشاہوں جیسا طرز رہائش اور شاہانہ لباس ہی نہیں‘ انکے زیر استعمال قیمتی اشیائ بھی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق انکی دولت میں ہر سیکنڈ نوے یوروز کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حساب سے انکی دولت میں ہر منٹ پانچ ہزار چار سو‘ ہر گھنٹے تین لاکھ چوبیس ہزار‘ روزانہ ستر لاکھ چھہتر ہزار یورو اور ہر ہفتے پانچ کروڑ چوالیس لاکھ بتیس ہزار یورو کا اضافہ ہوتا ہے۔ وہ ریشم و اطلس و کم خواب کے ایسے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں جن پر سونے اور چاندی کے تاروں سے ایمبرائیڈری کا کام کیا گیا ہوتا ہے ان کا محل دنیا کا سب سے بڑا اور آرام دہ رائل پیلس ہے جس میں ایک ہزار سات سو اٹھاسی کمرے ہیں۔ ہر کمرے کی اشیائ پر سونے اور ہیروں کی تہ چڑھائی گئی ہے۔ یہاں سونے اور چاندی سے مرصع دو سو ستاون باتھ روم ہیں۔
حسن البلقیہ کے گیراج میں مختلف ماڈلز کی ایک سو دس قیمتی کاریں ہیں‘ رولز رائس کمپنی نے انکی خصوصی کار ڈیزائن کی ہے جو یہ برطانیہ میں قیام کے دوران استعمال کرتے ہیں۔ یہ کار خالص سونے سے مرصع ہے۔ انکی ملکیت میں مجموعی طور پر ایک ہزار نو سو بتیس گاڑیاں ہیں۔ انکے جہازوں کے بیڑے میں ایک بوئنگ 747 بھی شامل ہے۔ جسے سلطان کی ہدایت پر ازسر نو سونے سے ڈیزائن اور سونے سے بنی اشیائ سے سجایا گیا ہے۔ اسکے علاوہ چھ چھوٹے ائیر کرافٹ اور دو ہیلی کاپٹر بھی شاہی بیڑے کا حصہ ہیں۔
اتنی دولت مندی اور سوائے سونے کے تناول ماحضر کے‘ سونے کے بجا اور بے جا استعمال کے سلطان حسن البلقیہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سرفہرست نہیں‘ بلومبرگ کی شائع کردہ تازہ ترین لسٹ کے مطابق 200 امیر ترین لوگوں میں سے چار کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔ ویسے دنیا کے امیر ترین لوگوں میں بالترتیب میکسیکو کا کارلوس سلم‘ امریکی بل گیٹس اور ہسپانوی امانسیواوریگا‘ 77.5 ارب ڈالر 64.34 اور 53.6 کے ساتھ پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ سعودی روزنامے الوطن نے اپنے چار ہموطنوں کے اثاثوں کی مالیت 2.7 ٹریلین ڈالر بتائی ہے جو دنیا کی پانچویں بڑی اقتصادی طاقت فرانس کی مجموعی پیداوار کے برابر ہے۔ سعودی عرب کے امیر ترین شخص ”کنڈم ہولڈنگ“ کے مالک شہزادہ ولید بن طلال ہیں جو اپنے 22.9 ارب ڈالر اثاثوں کے ساتھ دنیا کے 20ویں امیر ترین شخص ہیں۔
عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں کے حکمرانوں‘ بادشاہوں اور شہزادوں کے اثاثوں کی مالیت ہو سکتا ہے کارلوس سلم‘ بل گیٹس کی دولت سے زیادہ ہو امیر ترین عالمی شخصیات کا تعین کرتے وقت ان کو انکی دولت کے کسی حد و حساب سے باہر ہونے پر متعینہ پیمانے سے ہی نہ جانچا جاتا ہو۔ مسلم ممالک کے ہاں ایک طرف دولت کی یہ ریل پیل تو دوسری طرف اسلامی ممالک میں سسکتی ہوئی انسانیت بھی دیکھی جاتی ہے۔ پاکستان‘ صومالیہ‘ بنگلہ دیش‘ یوگنڈہ جیسے ممالک میں ایلیٹ کلاس تو ضرور موجود ہے لیکن مفلوک الحال افراد کی تعداد کا کوئی شمار قطار نہیں جن کو دو وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہو۔ وہ اپنے بچوں کو سکول بھجوانے اور جوانی سے بڑھاپے کی عمر میں داخل ہوتی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر سکیں۔
کیا امیر مسلم ممالک اپنی دولت غریب برادر اسلامی ممالک کے بے چاروں اور لاچاروں پر نچھاور کر دیں؟ تاکہ یہ ویلیاں کھانے کے عادی ہو جائیں؟ ہمارے ہاں کسمپرسی کا شکار لوگوں کی دو قسمیں ہیں‘ ایک ہڈحرام اور دوسرے زندگی کی بقائ کیلئے لڑتے لڑتے اپنی توانائیوں کا بھرپور استعمال کرکے بھی غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ یہ کچھ کر گزرنے کا عزم ضرور رکھتے ہیں لیکن مواقع اور وسائل ان سے کوسوں دور ہیں۔ اس دوسری قسم کے لوگوں کا ہاتھ تھامنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام امیر ممالک مل کر آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اس میں کسی قسم کے خسارے کا احتمال نہیں
آج عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں میں مجموعی طور پر کروڑوں غیرملکی انجینئرز‘ پروفیسرز‘ بزنس مین‘ ہنرمند‘ نیم ہنرمند اور مزدور کام کر رہے ہیں۔ بعض ممالک کی فوج اور پولیس بھی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ سوائے مکة المکرمہ اور مدینہ منورہ کے کسی شہر اور ملک میں غیرملکی بلاامتیاز مذہب موجود ہیں۔ مکہ اور مدینہ مقدس شہروں میں غیرمسلموں کو داخلے کی اجازت نہیں۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ کسی سے اس کا روزگار نہ چھینا جائے۔ اسلامی اخوت کے ناطے برادر اسلامی ممالک کے غریبوں کا بھی احساس ضروری ہے اس لئے امیر مسلمان ممالک اپنے ہاں موجود غیرمسلموں کو اپنا معینہ عرصہ مکمل کرنے دیں البتہ مزید نفری اور ہنرمند افرادی قوت مسلم ممالک سے حاصل کی جائے۔ یہ ایسا کارخیرہے جو امیر اسلامی ممالک اپنے برادر ممالک کے غریب اور ہنرمند افراد کی فلاح کیلئے اپنے پلے سے ایک بھی درہم و دینار خرچ کئے بغیر کر سکتے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے قطر کے دورے کے موقع پر کہا کہ قطر کو 20 لاکھ ورکرز کی ضرورت ہے‘ یہ پاکستان سے منگوائے جائیں‘ کتنا اچھا ہو کہ قطر میں مقیم 90 ہزار پاکستانیوں کی تعداد 20 لاکھ نوے ہزار ہو جائے اور وہ بھی بغیر کمیشن کے۔
 امیر ممالک کے خزانے درہم ریال اور دینار کی بہتات سے چھلک چھلک جاتے ہیں۔ ہمارے صدر مملکت آصف علی زرداری پاکستان کے تیسرے امیر ترین آدمی ہیں‘ انکے اثاثوں کی مالیت 8 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ بعض ممالک کے سربراہان دس ارب ڈالر جوئے میں ایک ہی رات میں ہار کو بار نہیں سمجھتے۔ ایسے حکمرانوں کو کون تقویٰ اختیار کرنے کا مشورہ دے سکتا ہے؟ البتہ ان سے بعض اسلامی ممالک کی پسماندگی دور کرنے اور پوری دنیا میں ستم زدہ مسلمانوں کی دادرسی کی درخواست تو کی جا سکتی ہے۔ جن کیلئے جوئے میں دس ارب تک بھی ہار دینا ایک مشغلہ ہے‘ جن کی دولت کی کوئی حد نہیں ہے‘ وہ ممالک اگر کچھ رقم مسلم ممالک کی دولت مشترکہ قائم کرکے اس میں جمع کرادیں‘ دولت مند لوگ بھی اس میں حصہ ڈالیں تو بلاشبہ یہ فنڈ کھربوں ڈالر میں ہو سکتا ہے جو پسماندہ اسلامی ممالک کو اپنے پا?ں پر کھڑا کرنے کیلئے استعمال ہو۔ فلسطین اور کشمیر کی آزادی کی تحریکوں میں تیزی لائی جا سکے اور بدھوں کی ستمگری کا نشانہ بننے والے روہنگیا مسلمانوں کیلئے آزادی کا سامان کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی ممالک کی دولت ِمشترکہ اس قابل ہو سکتی ہے جو دنیا میں بے وطن مسلمانوں کو وطن تک خرید کے وہاں انکو بسا سکتی ہے۔ پاکستان ہم نے دو قومی نظریے پر حاصل کیا‘ قائد اس عزم پر قائم رہے کہ مسلمان الگ قوم ہیں تو پاکستان حاصل کرلیا۔ اقبال نے تو پوری دنیا کو مسلمانوں کا وطن قرار دیا تھا۔
چین و عرب ہمارا‘ ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں وطن ہے سارا جہاں ہمارا
حضرت اقبال? نے مسلمانوں کیلئے الگ وطن کا تصور پیش کیا‘ اس کو حضرت قائداعظم? نے عملی شکل دیدی۔ علامہ اقبال مسلمانوں کے بھی اتحاد کے حامی تھے۔ عالم اسلام کا اتحاد بھی ان کا خواب تھا........
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
نبی کریم نے فرمایا تھا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں‘ جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا بدن بے چین ہو جاتا ہے۔ اس سوچ سے اسلامی ممالک کے سربراہان کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام کون کرے؟ یہ کام عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت پاکستان کے کرنے کا ہے۔ پاکستان یہ کام کرنے کی ٹھان لے تو اسلامی دولت مشترکہ کا قیام بڑی آسانی سے عمل میں آسکتا ہے۔ آپکے پاس او آئی سی کا پلیٹ فارم پہلے سے موجود ہے‘ ضرورت اس کو تھوڑا سا فعال کرنے کی ہے۔


Tuesday, November 13, 2012

 
 
 
13-11-12

پرامن انقلاب بھی ممکن
کسی کی بھی غلطی دور کرانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کو باور کرایا جائے کہ وہ واقعی کچھ غلط کر رہا ہے۔ جب تک وہ تسلیم نہ کرے آپ لاکھ کوشش کر لیں اس کی سوئی وہیں پر اٹکی رہے گی۔ مسلم لیگ (ن) نے آصف علی زرداری کے ”پارسائی“ کے دور میں ان کے ساتھ مفاہمت کی۔ یہ سلسلہ فروری 2008ءکے انتخابات کے بعد کئی ماہ بڑی کامیابی سے چلا۔ پھر حالات بدلتے‘ الجھتے اور گنجلک ہوتے ہوئے ایک دوسرے پر دشنام اور اتہام تک جا پہنچے۔ میاں شہباز شریف کا ٹارگٹ فریق مخالف کی دو شخصیات زرداری اور رحمن ملک بنی ہوئی ہیں۔ رحمن ملک کو وہ جھوٹوں کا آئی جی اور زرداری صاحب کو ڈاکو لٹیرا اور بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ میاں صاحب کے ہمنوا¶ں کے کیا کہنے۔ اسی سر اور تال میں کان پر ایک ہاتھ رکھ کر نمک خواری اور وفاداری کا حق کر دیتے ہیں۔ مرکزی حکمرانوں کو مجموعی طور پر علی بابا اور چالیس چور کہہ کر پکارتے رہے۔ ”علی بابا“ ان کے نزدیک ڈاکو¶ں کا سردار تھا۔ میاں صاحب کئی سال سے یہی کہتے چلے آرہے ہیں۔ میڈیا میں کئی بار یہ صورت حال واضح کی گئی کہ علی بابا نے تو ڈاکو¶ں کا خاتمہ کیا تھا لیکن میاں صاحب کی سوئی جہاں اٹکی تھی وہی لٹکی اور بھٹکی رہی۔ البتہ چند روز سے انہوں نے علی بابا کو معاف کر دیا ہے۔ اب وہ ”زر بابا اور چالیس چوروں“ کے پیچھے پڑے ہیں۔ انہوں نے ایک غلطی کو ماننے اور اپنا موقف سدھارنے میں کئی سال لے لئے۔ دیر آید درست آید۔ غور فکر کی ضرورت ہے۔ ہم جن لوگوں کو کرپٹ‘ ڈاکو لٹیرے حرام خور وغیرہ وغیرہ قرار دیتے ہیں کیا ان کو معلوم ہے کہ واقعی وہ ایسے ہیں جیسا ہم ان کو سمجھتے ہیں؟ ہم نے ان کو سمجھانے کا جو طریقہ اختیار کیا ہے کیا وہ اس سے بھڑکتے ہیں یا اپنی اصلاح پر مائل ہوتے ہیں؟ ان کی نظر میں محض اپنا سیاسی مستقبل ہی سب سے اہم ہے یا ان کو اپنی عاقبت کا بھی فکر ہے؟ بہرحال معاملہ جو بھی ہے حقیقت یہ ہے کہ مسائل‘ مصائب اور بحرانوں کی وجہ سے ہر روح پریشان ہی نہیں اذیت میں بھی مبتلا ہے۔ مشکلات شمار کرانے کی ضرورت نہیں ان سے ہر ذی شعور آگاہ بلکہ ان میں مبتلا بھی ہے۔ گڈگورننس دور کی بات گورننس کا بھی کوئی نشان نہیں ہے۔ افسوس تو یہ جن کے ذمے سب کچھ کرنا ہے ان کا اس طرف دھیان ہی نہیں ہے۔ وہ سمجھانے والوں کی بات ہی سنتے جس طرح میاں شہباز شریف نے علی بابا والی کئی سال نہیں سنی۔ وہ بھی شاید خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور دوسروں کو مورکھ۔ گو ان کی حکمرانی کے بظاہر چند ماہ رہ گئے ہیں۔ اپنی بساط اور اوقات کے مطابق سمجھانے والوں کو اپنا فرض ادا کرتے رہنا چاہئے۔ جو باتوں سے سمجھا سکتے ہیں وہ باتوں سے سمجھانے کی کوشش جو لاتوں سے سمجھانے کی طاقت رکھتے ہیں وہ....
”روم ایک رات میں تعمیر نہیں ہوا‘ گرانے میں صرف ایک رات لگتی ہے“ یہ مقولہ روم کی عملی تعمیر کے حوالے سے تو درست ہو سکتا ہے اس سے ہم انسانی کردار اور قوم و معاشرہ کی تعمیر و تشکیل کا استدلال نہیں لے سکتے۔ اس کے لئے ایک رات بھی زیادہ ہے عزم راسخ اور کٹمنٹ ہو تو یہ کام لمحوں میں ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے معاشرے کے ساتھ چلنے کی چاہئے اور نہ لمبی چوڑی ٹیم کی۔ صرف ایک مرد خدا‘ جسے مسیحا کہہ لیں یا قائد و رہنما کی ضرورت ہے۔ آپ کے پاس ریاست ہے‘ آئین اور قانون ہے سب سے بڑھ کر ضابطہ حیات موجود ہے۔ تمام ادارے اور وسائل ہیں۔ اگر نہیں ہے تو کوئی قائد نہیں ہے رہنما نہیں اور جو ہیں ان کے پاس وژن نہیں۔ جن سے قوم کو امیدیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ 6 ماہ میں بحرانوں پر قابو پانے کے دعوے باطل ہیں۔ جن لوگوں نے ایوب دور دیکھا وہ راتوں رات انقلاب برپا ہونے کے گواہ ہیں۔ غلام مصطفیٰ کھر کو 1971ءمیں ذوالفقار علی بھٹو نے پنجاب کا گورنر بنایا تو چند دن میں چوروں‘ ڈاکو¶ں‘ رسہ گیروں اور منافع خوروں کا برق رفتاری سے خاتمہ ہو گیا تھا۔ آج سیاسی و انتظامی اختیارات کا منبع آصف علی زرداری کی ذات میں ہے ان کے اوصاف اوپر سے نیچے تک ساتھی سیاستدانوں اور بیورو کریسی تک میں محسوس ہو رہے ہیں۔
 ایوب خان آیا تو انتظامیہ ان کے رنگ میں رنگ گئی۔ کھر کا رنگ بھی پولیس پر چڑھا۔ جنرل ضیاءالحق کا بہت سے حلقوں میں نمازی اور پرہیزگار کے طور پر امیج ابھرا۔ وہ تجربے کی بنیاد پر کہا کرتے تھے اشارہ کروں تو سیاستدان دم ہلاتے چلے آئیں۔ ضیاءدور میں ان کے ساتھی سیاست دان‘ جرنیل اور بڑے افسران جیب میں ٹوپی رکھا کرتے تھے۔ ضیاءصاحب کی معیت میں بوقت قیام وضو کی پروا کئے بغیر صف میں شامل ہو جایا کرتے تھے۔ آپ آج ہی جنرل کی خواہش کے مطابق اس بیوروکریسی‘ کابینہ اور انتظامیہ کی موجودگی میں زمام اقتدار الماس بوبی کے حوالے کر دیں تو یہی انتظامیہ ٹھمکے لگاتے اور لوری لگاتے نظر آئے گی۔ اوپر آپ صرف ایک بندہ بدل دیں۔ نواز شریف کو بٹھا دیں‘ عمران خان کو اقتدار کی لگام تھما دیں۔ پورے ملک میں ان کی طبیعت کے مطابق تبدیلی واضح طور پر دکھائے دے گی۔ آج ہمیں ضرورت ایسی لیڈر شپ کی ہے جو برسوں میں تبدیلی کی امید کا دیپ نہ جلائے بلکہ راتوں رات انقلاب برپا کرنے کا عزم رکھنے والوں کی ضرورت ہے۔ ایسا بالکل ممکن ہے اور اسی کو انقلاب کہتے ہیں۔ خونیں نہیں پُرامن انقلاب‘ جس کی آج اشد ضرورت ہے۔
 

Sunday, November 11, 2012

خرافات سے پاک سیاست

 
 
اتوار ,11 نومبر ,2012

خرافات سے پاک سیاست
پاک فوج میں جوان سے جرنیل تک ڈسپلن کی ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ یہی مسلح افواج کی قوت اور کامیابی ہے۔ افواج میں جب تک ڈسپلن ہے یہ اس وقت تک مضبوط اور متحد رہے گی اگر اسے قانون کی موشگافیوں میں الجھا دیا گیا تو ڈسپلن کے بندھن ٹوٹ جائیں گے۔ کچھ حلقوں کی یہی منشا ہے اور کچھ نادانستگی میں ان حلقوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں اور کچھ اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں سرگرم بھی ہیں۔ فوج میںاوپر سے حکم ملتے ہی تعمیل میں تاخیر سے بھی معاملات بگڑ جاتے ہیں، انکار سے تو شر پھیلے گا اور پھر اسکے شرر اور شرارہ بننے میں دیر نہیں لگے گی۔ ڈسپلن کا تقاضا ہے کہ سپاہی کمانڈر کی ہدایت پر اپنی عقل کو استعمال میں لائے اور قانونی باریکیوں میں پڑے بغیر عمل کرے خواہ وہ اسے کنویں میں چھلانگ کا کہہ دے، حکم دینے والا بیوقوف نہیں ہے جو ایسا کہہ دے وہ سوچ سمجھ کر پوری ذمہ داری سے ہی ایسا کرنے کا حکم دیتا ہے جس کا ماتحت کو علم ہوتا ہے اور نہ وہ جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ ہماری فوج میں ایسا ہی نظم و ضبط ہے۔ جرنیلوں نے مارشل لاءلگائے یہ ان کا انفرادی فیصلہ ہو سکتا ہے ہر فوجی مارشلا¶ں کا حامی نہیں تھا لیکن ڈسپلن کے دائرے میں رہتے ہوئے اسے مارشل لاءکا حصہ بننا پڑا۔ اگر قانون کا درس دینے والے ان کو قائل کر لیتے کہ مارشل لاءلگانے والوں نے آئین کی خلاف ورزی کی، ان کے اقدامات اور احکامات غیر قانونی ہیں، آپ ماننے سے انکار کر دیں تو کیا فوج میں نظم و ضبط نام کی کوئی چیز رہ جاتی؟ حالانکہ مارشل لاءیقیناً آئین شکن اقدام ہے جس کی سزا آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت موت ہے۔ فوج کو آئین اور قانون پڑھانے سے زیادہ، اسے نظم و ضبط کا پابند رہنے کا درس دیا جاتا ہے۔
صدر مملکت فوج کا سپریم کمانڈر ہے۔ آرمی چیف اسکے ماتحت ہے۔ باقی فوج آرمی چیف کے زیر کمان ہے۔ جو معاملات صدر اور آرمی چیف کے سامنے ہیں ضروری نہیں کہ دیگر لوگ بھی ان سے واقف ہوں۔ حکمت عملی ترتیب دینا کمانڈر کا کام اور اس کو کامیابی سے ہمکنار کرنا اس کی ٹیم کی ذمہ داری ہے۔ مارشل لاءچند جرنیل لگاتے ہیں بعد میں پوری فوج ان کا ساتھ دیتی ہے۔ پاکستان میں جب کبھی حقائق جاننے کا کمشن بنا تو کیا اس میں مارشل لاءلگانے والا جرنیل اور اسکے حکم پر گلیوں بازاروں میں ڈیوٹی دینے والے بندوق بردار جوان یکساں سزا کے مستوجب ہوں گے؟ کیونکہ یہ بھی مارشل لاءکا حصہ تھے۔ جنرل درانی کا م¶قف درست ہے کہ انہوں نے جو کیا اپنے کمانڈر جنرل اسلم بیگ کے احکامات پر کیا۔ جنرل بیگ، سپریم کمانڈر کے حکم کے پابند تھے۔ فوج کے سپریم کمانڈر صدر غلام اسحاق خان نے ایسا کیوں کیا، وہ جواب دینے کےلئے دنیا میں موجود نہیں تاہم ان کی طرف سے ہو سکتا ہے کہ جواب جنرل درانی کے اس بیان میں ہو جو سپریم کورٹ نے پڑھ کر واپس کر دیا اور بریگیڈئر حامد سعید اختر کے 9 نکات جن کو خفیہ رکھا گیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے سامنے آنے والے حقائق کے مطابق فیصلہ دیا جس پر تحسین کے ساتھ ساتھ تنقید بھی ہو رہی ہے۔ فیصلے کی زد میں آنے والوں نے اپنی دانست میں اس وقت جو کیا وہ شاید ان کے نزدیک ملک کو بچانے کا تقاضا تھا۔ اگرچہ وہ عدالت میں ایسا ثابت نہیں کر سکے البتہ ان کے ضمیر مطمئن ہیں۔ آئندہ بھی سقراط پیدا ہوتے رہیں گے۔ وطن کو خطرے میں دیکھ کر اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہیںگے بعد میں خواہ ان کو زہر کا پیالہ پینا پڑے۔ ملک و ملت کو خطرات میں گھرتا ہوا دیکھ کر ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ قانون کی موشگافیوں میں پڑے بغیر اپنا کردار بعینہ ادا کرے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
سپریم کورٹ کے اصغر خان کیس کے فیصلے کا وہ پہلو نہایت اہم ہے جس میں فوج سے پیسے وصول کرنے والوں سے سود سمیت وصولی کی ہدایت کی گئی۔ ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ کن سیاستدانوں نے وصولیاں کیں۔ صرف محترمہ سیدہ عابدہ حسین نے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے اعتراف کیا اور ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ وہ منافع سمیت رقم لوٹانے کو تیار ہیں۔ جن پر فوج یا یونس حبیب سے نومبر 1990ءکے الیکشن سے قبل رقوم وصول کرنے کا الزام ہے ان کے ناموں پر ایک نظر ڈال لینے میں حرج نہیں۔ ان کا ذکر سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود ہے۔ صوبہ سرحد سے امیر افضل نے ایک کروڑ روپے، پنجاب سے نواز شریف نے 35 لاکھ (آپ نے تردید کردی ہے)‘ جماعت اسلامی 50 لاکھ، عابدہ حسین 10 لاکھ، الطاف حسین قریشی اور مصطفی صادق,5 5 لاکھ۔ سندھ سے غلام مصطفی جتوئی 50 لاکھ، جام صادق 50 لاکھ، محمد خان جونیجو 25لاکھ، پیر پگاڑا 20 لاکھ، مولانا صلاح الدین 3 لاکھ ۔ بلوچستان سے ہمایوں مری 15 لاکھ، میر ظفر اللہ جمالی 40 لاکھ، کاکڑ 10 لاکھ، کے بلوچ 5 لاکھ، جام یوسف 750000، غوث بخش بزنجو 5 لاکھ، ندیم مینگل سے 10 لاکھ روپے وصول کئے۔ یونس حبیب کے بیان کے مطابق جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ کو 14 کروڑ روپے، جام صادق علی کو 7 کروڑ روپے، الطاف حسین کو 2 کروڑ روپے اور جاوید ہاشمی وغیرہ کےلئے یوسف میمن کو 5 کروڑ روپے دئیے۔
1990ءکے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں آئی جے آئی کو کھڑا کیا گیا، آج اُسی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ حکمرانوں میں بہت سے ایسے ہیں جن کی ”وصولیوں“ کے سامنے 90 میںکی گئیں ادائیگیوں کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔ بہتر نہیں ہے کہ مکمل تحقیقات کے بعد قومی خزانے سے ایک بھی پائی لوٹنے والوں سے سےاست کو پاک کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ ملک میں آمریت مسلط کرنے والوں کا حساب بے باک کر دینا چاہئے۔سیاست دان اگر واقعی قوم و ملک کے ساتھ مخلص ہیں تو نہ صرف اپنی صفوں سے کرپٹ افراد کو نکال باہر کریں بلکہ کرپشن کیخلاف انتہائی سطح پر جانے کو اپنے منشور کا حصہ بھی بنائیں۔
 

Friday, November 9, 2012

 
 
 
امریکی صدارتی اور پاکستانی پارلیمانی الیکشن
6-11-12

امریکہ میں صدارتی انتخابات آج بروز منگل 6 نومبر 2012ءکو ہو رہے ہیں‘ امریکی عوام اگلے چار سال کیلئے ری پبلکن مٹ رومنی اور ڈیموکریٹک باراک اوباما میں سے کسی ایک کے سر پر اقتدار کا ہما بٹھا دینگے۔ چار سال قبل 2008ءنومبر کے پہلے منگل کو ہونیوالے انتخابات میں اوباما نے اپنے مدمقابل جان مکین کو شکست دی‘ اگلے امریکی صدارتی الیکشن میں مدِمقابل کون ہونگے؟ اس بارے میں وثوق سے پیشگوئی نہیں کی جا سکتی البتہ دو باتیں کرسٹل کلیئر ہیں کہ اگلے امریکی صدارتی انتخابات نومبر 2016ءکے پہلے منگل کو ہونگے اور مدمقابل ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیاں ہی ہونگی۔ ہماری جمہوری حکومت جن انتخابات کے نتیجے میں اقتدار کے آسمان تک پہنچی‘ وہ آج سے پورے چار سال ساڑھے آٹھ ماہ قبل 18 فروری 2008ءکو ہوئے تھے۔ امریکہ میں صدارتی انتخابات ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے منگل کو ہوتے ہیں۔ منتخب ہونیوالا صدر اگلے ہی روز وائٹ ہاﺅس میں براجمان نہیں ہو جاتا‘ اقتدار کی منتقلی جنوری میں مکمل ہوتی ہے۔ چار سال کے اندر سارا عمل مکمل کرنا ہوتا ہے۔ اسکے مقابلے میں ہمارے ہاں حالت یہ ہے کہ 2008ءکے انتخابات پونے پانچ سال قبل ہوئے تھے۔ حکومت آئندہ انتخابات کا پروگرام دینے اور ایک تاریخ طے کرنے پر تیار نہیں۔ غصے سے بھرے ہر وقت سپریم کورٹ کے ساتھ آمادہ دنگل وزیر اطلاعات مسٹر کائرہ کبھی کہتے ہیں‘ عبوری حکومت 18 مارچ کو بنے گی‘ کبھی کہتے ہیں الیکشن مئی میں ہونگے۔ حکمرانوں کے رویے سے نظر آتا ہے کہ وہ مقررہ وقت پر الیکشن کرانے کیلئے سنجیدہ ہی نہیں۔ وہ آسمان سے ایسی آفت ٹوٹنے کے متمنی ہیں جس کو جواز بنا کر انتخابات ملتوی کر سکیں۔ پنجاب والوں کو بھی الیکشن سال چھ ماہ آگے لے جانے پر اعتراض نہیں کیونکہ انہوں نے بھی حکمرانی کے سینگوں پر ملک کا سب سے بڑا صوبہ اٹھایا ہوا ہے۔ امریکہ میں سینڈی طوفان نے تباہی مچا دی‘ 11 ریاستوں کے پانچ کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوئے‘ حکومتی پارٹی کیلئے صدارتی الیکشن ملتوی کرنے کا یہ سنہری موقع اوربہانہ تھا‘ امریکی آئین میں اسکی گنجائش بھی ہے لیکن ایسی سوچ کسی امریکی عہدیدار کے دماغ میں نہ آئی‘ انہوں نے پورا زور متاثرین کی بحالی پر لگا دیا۔ ادھر ہم لوگ سینڈی طوفان کو امریکہ پر اللہ کا عذاب قرار دے رہے ہیں اور اس کو ہم اپنی دعاﺅں کے اللہ کے حضور قبولیت کا شرف عطا ہونے کا نتیجہ سمجھ رہے ہیں‘ یہ کیا عذاب ہوا جس میں مرنیوالوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے بھی کم ہے؟ اتنے لوگ تو ہمارے ہاں روزانہ کی بنیاد پر ڈرون حملوں‘ کراچی بلوچستان کی ٹارگٹ کلنگ اور گلگت بلتستان جیسے علاقوں میں فرقہ واریت کی نذر ہو جاتے ہیں۔ عذاب تو وہ تھا جو قوم عاد اور ثمود پر آیا۔ علماءکرام بتائیں کہ ہم کسی ملک یا خاص طبقے کی تباہی و بربادی کی دعا کریں یا خدا سے ان کو راہِ راست پر لانے کی التجا کریں؟ ہم جن کی بربادی و ہلاکت کی دعا کرتے ہیں‘ ان کا تیار کردہ لباس پہنتے‘ ان کے چینلز دیکھتے‘ انکے کمپیوٹر‘ لیپ ٹاپ اور موبائل فون جیسے آلات استعمال کرتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے ان ممالک کے مشروبات و بوتلیں پینے اور فاسٹ فوڈ کھانے سے ہاتھ کھینچا ہے؟ دعائیں بھی اسی تناسب سے منظور ہونگی!
مٹ رومنی نے سینڈی طوفان کو ڈیموکریٹک کے کھاتے میں ڈال کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور نہ اوباما نے متاثرین کی برق رفتار بحالی کا کریڈٹ سمیٹنے کی ۔البتہ دونوں صدارتی امیدواروں نے وقتی طور پر اپنی اپنی انتخابی مہم روک کر متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی ضرور کیا اور پوری توجہ انکی بحالی کی طرف مبذول کر دی۔ ہمارے ہاں چھوٹی بڑی پارٹیاں جن کی تعداد ماشاءاللہ 160 ہے‘ سیلاب کو سروں پر اٹھائے پھرتی ہیں۔ خصوصی طور پر بڑی پارٹیاں سیلاب کی تباہ کاریوں کا الزام ایک دوسرے پر لگاتے ہوئے خود کو 2010ءاور 2011ءکے سیلاب متاثرین کا مسیحا ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ آئندہ الیکشن ہر پارٹی اپنے ایسے گن گنوا کر اور حریفوں کے لچھن سنا کر جیتنے کی کوشش کریگی۔
آج کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ الیکشن بروقت ہوئے تو جیتے گا کون؟ الیکشن کے بروقت انعقاد کا مطلب ہے کہ موجودہ حکومتوں کے آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد جو الیکشن ہونگے‘ ان میں جیتنے کے بارے میں حتمی طور پر کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ جس ملک میں سرکاری کھاتے میں آئی جے آئی بن جائے‘ الیکشن کے نتائج آنے کے بعد بھی بدل جائیں۔ مشرف صاحب اپنی جیبی کے لیڈروں کو بیس 25 سیٹیں دینے کی بات کریں اور پھر عدالتیں‘ ماشاءاللہ ہارے ہوئے امیدوار کی جیت کا اعلان کرنے میں پانچ سال لگا دیں‘ ایسے ملک میں دنیا کا بڑے سے بڑا تجزیہ کار بھی کوئی پیشگوئی نہیں کر سکتا۔ البتہ اندر کا بندہ کوئی راز افشا کر دے تو یہ پیشگوئی نہیں اطلاع ہو گی۔ فی الحال کسی طرف سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے۔ پھر بھی ہم تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی انہونی نہ ہوئی‘ کوئی آئی جے آئی نہ بنی‘ الیکشن شفاف ہوئے تو کس پارٹی کا پلڑا بھاری رہے گا‘ برادری ازم‘ گلیوں‘ سڑکوں اور تھانہ کچہری کے عوامل اپنی جگہ‘ لیکن باشعور لوگ جتنے بھی ہیں‘ وہ اب اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر استعمال کرینگے۔ خصوصی طور پر ان حالات میں جب ملک سنگین بحرانوں سے گزر رہا ہے جس کے ذمہ دار یقیناً حکمران ہی ہیں۔ ایسی حکمرانی سے آج ہر فرد متاثر ہے اور شدید متاثر ہے البتہ جن کے وارے نیارے ہیں‘ ظاہر ہے‘ وہ تو ان کو ہی سلام کرینگے جن کے دم قدم سے انکی گاڑی اڑان بھر رہی ہے۔
پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے اسکے سامنے تحریک انصاف کو لاکھڑا کیا۔ اس کا اعتراف نجی محفلوں میں پی ٹی آئی کے رہنما کرتے ہیں۔ آج تحریک انصاف ن لیگ کے بجائے پیپلز پارٹی کےلئے خطرہ بن چکی ہے۔ اس کو پذیرائی بھی خصوصی طور پر پیپلز پارٹی کی عوام میں ناپسندیدگی سے دیکھی جانیوالی پالیسیوں کے باعث ہی ملی ہے۔ جیالے کسی صورت اپنی پارٹی نہیں چھوڑتے لیکن پارٹی سے ناراضی کی صورت میں پولنگ سٹیشن پر نہیں جاتے۔ مہنگائی‘ بیروزگاری‘ لاقانونیت‘ بجلی و گیس کی قلت‘ پٹرول کی قیمت میں بے تحاشا اضافے جیسے اقدامات کے باعث ہر پاکستانی بلاامتیاز جیالوں‘ متوالوں اور عمران کے نرالوں کے تنگ اور پریشان ہے۔ ان عوامل کو دیکھتے ہوئے یہ نظر آتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں آج مرکزی حکمران اور اتحادی اسی طرح غروب ہو جائینگے جس طرح 1988ءاور 2008ءکے الیکشن میں آمریت کے پروردہ سیاست دان ڈوب گئے تھے۔ اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے مابین ہو سکتا ہے جس میں بہرحال مسلم لیگ ن کی نسبتاً برتری کے امکانات ہیں۔ یہ صرف آج کے حالات اور سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے تجزیہ ہے‘ اصل صورتحال انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد ایک ہفتے میں واضح ہو گی۔ جب ہماری روایتی سیاست میں ہمدردیاں اور وفاداریاں بدلنے کا طوفان اٹھے گا‘ اس طوفان سے اٹھنے والی دھول کے بیٹھنے پر پاکستان کے سیاسی مستقبل کا نقشہ واضح ہو جائیگا۔
 
 
 
 
 
 
 
 

 
یہ جمہوریت!
4-11-12
 اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے پر ہر مسلمان کا پختہ یقین ہے۔ خلافتِ راشدہ کی صورت میں دنیا نے اس کا عملی نفاذ بھی دیکھا جس دوران اسلامی حکومت کی سرحدیں ایران سے بھی آگے مکران تک پہنچ گئی تھیں۔ سعودی عرب سمیت بعض دیگر ممالک میں آج بھی کسی حد تک وہی نظام نافذ ہے جسے ضابطہ حیات قرار دیا گیا ہے۔آج کی پاکستان میں مروجہ جمہوریت ہم نے مغرب سے درآمد کی جہاں شرح خواندگی100فیصد نہیں تو اس کے قریب ضرور ہے۔ ہمارے ہاں میٹرک تک پہنچنے والوں کو بھی تعلیم یافتہ قرار دیاجائے تو پڑھے لکھوں کی تعداد دس پندرہ فیصد سے زائد نہیں جبکہ ملک و قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنیوالوں کیلئے کوئی تعلیمی معیار مقرر نہیں ہے۔گو سکول و کالج کی تعلیم کو شعور کا پیمانہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ایک دن بھی سکول نہیں گئے لیکن وہ عقل و دانش میں اپنی مثال آپ ہیں جن لوگوں کے ووٹ بن چکے ہیں ان میں پڑھے لکھے،با شعور لوگوں کی تعداد 25 تیس فیصد سے زائد نہیں۔ ان میں سے بھی کتنے ہیں جو اپنے ووٹ کا حق اسے قو می امانت سمجھ کر استعمال کرتے ہیں؟۔شہری حلقوں میں بالعموم اور دیہی علاقوں میں بالخصوص برادری ازم کو فوقیت دی جاتی ہے۔ امیدوار کے ذاتی کردار سے کوئی غرض نہیں ہوتی دیکھا جاتا ہے کہ اس نے گلیاں، نالیاں بنوا دیں، نوکریاں دلا دیں، تھانے کچہری میں ساتھ دیا۔ دوسرا امیدوار تعلیم یافتہ ہے اس کی قوم و ملک کےلئے کوئی کمٹمنٹ ہے وہ عالمی امور پر نظر رکھتا ہے قانون سازی میں کردارادا کرسکتا ہے اس سے ووٹر کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ امیدوار کی شہرت و کردار اور مقامی مسائل کے حل میں فعالیت کو بھی نظر انداز کرکے صرف اس کی پارٹی وابستگی کو دیکھتے ہوئے اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہیں ان کو جیالا اور متوالا قرار دیاجاتا ہے۔
پی پی پی کے جیالے ، ن لیگ کے متوالے اپنی اپنی پارٹی کے کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تحریک انصاف گزشتہ سال 30اکتوبر کے جلسے کے بعد ایک نئی اٹھان اور اڑان کے ساتھ سامنے آئی تو اس کے ورکرز نے نیا کلچر متعارف کرایا جسے نرالا کلچر کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیاجاسکتا۔ جلسوں سے سامانِ آرائش اور کرسیوں تک اٹھا لیجانے کھانے اور کیک پر لپکنے اور جھپٹنے کے مناظر لعن و طعن وتبراّ نرالا کلچر کی ایجاد ہے۔آئندہ الیکشن میں نرالے پولنگ سٹیشن مع عملہ،بیلٹ باکسز اور تمبو کناتوں کو لپیٹ کے نہ لے جائیں۔
 ہمارے ہاں امیدوار کے کردار کو پرکھ کر، اس کی اہلیت کو جانچ اور اس کی پارٹی وابستگی کو دیکھ کر ووٹ دینے والوں کی تعداد،2فیصد سے زائد نہیں۔ہم اپنے آپ کو دیکھیں ساتھیوں سے پوچھیں تو عیاں ہوجاتا ہے کہ ہم کس کو کس بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ مجید نظامی صاحب نے محض اس لئے 70 ءکے الیکشن میں مجیب الرحمن کے امیدوار.... کو ووٹ دیا تھا کہ اسے احساس ہو کہ مغربی پاکستان میں ہر بندہ متعصب نہیں ہے۔ لوگ بھٹو کی محبت کی لہر میں نہ بہہ چکے ہوتے تو عوامی لیگ کا ایک امیدوار کامیاب ہوجاتا جس سے مجیب اور اس کی پارٹی کیلئے مغربی پاکستان کے خلاف نفرتیں پھیلانے کا کوئی جواز نہ رہتا۔
 جمہوریت میں ہم برطانیہ اور امریکہ کی نقالی کرتے ہیں۔ ایک میں پارلیمانی، دوسرے میں صدارتی نظام ہے۔دونوں ملکوں میں الگ الگ نظام بڑی کامیابی سے چل رہے ہیں۔ ہم صدارتی نظام سے مستفیض ہوئے اب پارلیمانی نظام سے مستفید ہورہے ہیں۔ہر دو سسٹم نے ہماری سوچ کا کچھ نہیں بگاڑا۔ہم امیدوار کوجس بنیاد پر کامیاب کراتے ہیں۔ وہ یہ کام بڑی کامیابی سے کرتا ہے۔نالی گلی پختہ کرانے، کورٹ کچہری میں مدد کرنے،نوکری دلانے اور چوری چکاری معاف کرانے والے آگے جاکر اپنے جیسے ہی لوگوں کو صدر،وزیراعظم اور وزیراعلیٰ منتخب کرتے ہیں۔ پھر وہ وہی کچھ کریںگے جو آج ملک و قوم کے ساتھ ہورہا ہے۔
سسٹم کوئی بھی بُرا نہیں، وہ پارلیمانی ہے یا صدارتی، اگر سسٹم بُرا ہوتا تو یہ مغرب میں کامیابی سے نہ چل رہا ہوتا۔سسٹم چلانے والوں پر منحصر ہے کہ وہ کیسے ہیں؟ ہم نے جن ممالک سے جمہوریت سیکھنے کی کوشش کی کیا کبھی وہاں ایسا دیکھا یا سنا گیا ہے کہ فلاں سیاست میں جوڑ توڑ کا بڑا ماہر ہے۔ بڑے سیاسی داﺅ پیچ جانتا ہے۔ فلاں کی وفاداری خریدنے کو فلاں کو بکنے سے بچانے کیلئے جتھوں کی صور ت میں مری، سوات اور چھانگا مانگا کے ریسٹ ہاﺅسں میں قید کردو۔ یہ ایسی شیریں حراست ہے جس پر محصور ہونے والا اش اش کر اٹھتا ہے۔ آج ہم دیکھ رہے فلاں سابق وزیر، مشیر، وڈیرہ، جاگیردار ہزاروں ساتھیو ں سمیت فلاں پارٹی چھوڑ کر فلاں میں شامل ہوگیا۔ مہذب جمہوری ممالک میں ایسا کب ہوتا ہے!
ججوں کو قید کرنا، ان کی تذلیل، عدالتوں پر حملے اور عدالتی فیصلوں کی تضحیک کس جمہوریت میں روا ہے؟ لیکن یہ سب کچھ ہمارے ہاں ہوتا ہے اور بڑے دھڑلے اور ڈنکے کی چوٹ پر ہوتا ہے ۔سپریم کورٹ نے چینی کی قیمتیں کم کیں،اس پر عمل نہیں ہونے دیا گیا۔ این آر او فیصلہ تین سال سے عمل کا منتظر ہے،سپریم کورٹ لاپتہ افراد کے حوالے سے ایک ادارے کو ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ اس کو سنجیدگی سے نہیں لیاجاتا۔ کراچی کی قتل و غارت کے حوالے سے عدلیہ کی ہدایت کو پسِ پشت ڈال دیاجاتا ہے۔ بلوچستان میں امن کے قیام کیلئے صوبائی حکومت کو ناکام قرار دینے کے سپریم کورٹ کے حکم کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ نیب حکومت کے متعین کردہ لوگوں کو ملزم اور مجرم سمجھتا ہے ۔حکومت میں موجودہ سیاہ کاروں کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں ۔ عدلیہ نے سی این جی کی قیمتیں کم کرنے کا حکم دیا تو اکثر مالکان نے منافع کم ہونے کا بہانہ بنا کر سٹیشن ہی بند کردئیے۔ سی این جی پر حکومت 40 روپے فی کلو منافع لے رہی ہے سٹیشن مالکان کی جیب میں اس گیس کا فی کلو 31 روپے منافع جاتا تھا جس کی لاگت 17 روپے فی کلو ہے۔حکومت اپنا منافع چھوڑنے پر تیار نہیں۔سی این جی سٹیشن مالکان حکومت سے منافع کم کرکے اپنا منافع بڑھانے کا مطالبہ کرنے کے بجائے صارفین کی چمڑی ادھیڑنے پر بضد ہیں۔ جمہوری دور میں کوئی ادارہ سلامت نہیں بچا۔ پی آئی اے سٹیل مل ریلوے اور دیگر ادارے اجاڑ دئیے گئے۔ حکمرانوں کے سونے کے محل تعمیر ہورہے ہیں۔ عوام کی جھونپڑیاں بھی جل رہی ہیں۔ کیا یہی جمہوریت کے ثمرات ہوتے ہیں؟ نقل ہم امریکہ و برطانیہ کے جمہوری نظام کی کرتے ہیں۔ امریکہ میں صرف دو اور برطانیہ میںسوادو سیاسی پارٹیاں ہیں۔ہمارے ہاں تعداد 160ہے جو الیکشن کمشن کے پاس باقاعدہ رجسٹریشن کراچکی ہیں۔ باقی لولی لنگڑی پارٹیوں کا کوئی شمار قطار نہیں ہے۔ مروجہ جمہوریت میں یہ تو ہوسکتا ہے کہ اچھے کردار کے لوگ حکومت میں آجائیں تو عوام کو کچھ ریلیف بھی مل جائے۔ پھر بھی جمہوریت کے مکمل ثمرات عوام تک پہنچنا ممکن نہیں۔ آپ یہ جمہوریت صدیوں آزما لیں اس کے ثمر بار ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ جمہوریت کیلئے ماحول بھی ویسا بنانا ہوگا جیسا ان ممالک میں ہے جہاں سے ہم نے جمہو ریت اڑائی ہے۔ووٹر کو باشعور بنانا ہوگا جس کیلئے شرح خواندگی کا سو فیصد یا اس کے قریب تر ہونا لازم ہے۔

ریٹائرمنٹ کی ضرورت ہی کیا؟







جمعرات ,01 نومبر ,2012
ریٹائرمنٹ کی ضرورت ہی کیا؟
”سرکاری ملازمین کیلئے ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سال کردی گئی“۔ یہ خبر بڑے طوفانی انداز میں اڑی اور پانی کے بلبلے کی سی عمر پا کر موجود سے لاموجود بلکہ بے وجود ہوگئی۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کے نوٹیفکیشن کو جعلی قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے ۔جو سرکاری ملازمین دو سال کے اضافے سے مستفید اور مستفیض ہوسکتے تھے وہ اسلم رئیسانی کے طے کردہ ” رہنما اصول“ سے دل بہلا سکتے ہیں کہ ”نوٹیفکیشن تونوٹیفکیشن ہوتا ہے اصلی ہویا نقلی“۔گو کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کا نوٹیفکیشن جعلی تھا لیکن وہ سوچ، فکر اور مستقبل سازی کے کئی درکھول گیا۔
کارکردگی کے سامنے عمر کوئی قید یا بند اور رکاوٹ نہیں ہوسکتی۔ عمر مختار نے لیبیا کی آزادی کیلئے اپنی گوریلا کاروائیوں سے اٹلی کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ 11ستمبر 1931 کو عمر مختار کو گرفتار کیا گیا تو وہ پہلے روز کی طرح فعال تھے حالانکہ ان کی عمر اس وقت 72سال تھی۔ امریکی جنرل میکارتھر کا دوسری جنگ عظیم میں کردار ناقابلِ فراموش ہے۔جنرل میکارتھر نے جاپانیوں سے ہتھیار ڈلوائے ۔2ستمبر 1945 کو خلیج ٹوکیو میں لنگر انداز امریکی بحری بیڑے یو ایس میسوری پر منعقدہ تقریب میں سرنڈر کی دستاویز پر جاپانی وزیر خارجہ مامور روشیگے اور جاپانی سپہ سالار یوشی میرو نے شکست کی قبولیت اور جنرل ڈگلس میکارتھر نے فاتح جرنیل کے طورپر دستخط کیے۔ یہ کریڈٹ بھی جنرل میکارتھر کو جاتا ہے کہ جاپانی بادشاہت کا پہلے کی طرح احترام برقرار رکھا گیا۔1951ءمیں صدر ہیری ٹرومین نے جنرل میکارتھر کو برطرف کیا تو اس وقت ان کی عمر 71سال سے متجاوز تھی۔ہمارے جرنیل صدر محمد ضیاءالحق 64سال کی عمر میںحادثاتی موت سے دوچار ہوئے ۔ غلام اسحق خان 80 کو پہنچتی عمر کے ساتھ بڑی مستعدی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ نے منیٰ میں اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ ان کی عمر نوے سال کے قریب ہے۔ہمارے ہاں سرکاری ملازمین کیلئے ریٹائرمنٹ کی عمر 60سال قرار دی گئی ہے۔ یہ اصول ہم نے عالمی قوانین سے اخذ کیا۔ نئے لوگوں کو ملازمتیں دینے کیلئے یہ ضابطہ تخلیق کیایا 60سال کی عمر کو مت ماری عمر قرار دے کر ریٹائرمنٹ کا قانون تشکیل دے دیا؟قانون اور ضوابط موجود ہیں اس کے باوجود60سال کی عمر کو حتمی قرار نہیں دیا جاتا۔سپریم کورٹ کے ججوںکی مدت ملازمت 65سال کی عمر تک ہے۔حکومت اپنی مرضی سے کسی کی بھی مدت ملازمت میں جتنی چاہے توسیع دے لیتی ہے۔امریکہ بلا شبہ مادی ترقی کے حوالے سے ایک رول ماڈل ہے۔اس کے دنیا کی واحد سپر پاور ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے۔اس کے ہاں ججوں کی مدت ملازمت کی راہ میں عمر رکاوٹ نہیں ہے۔جو جج بن گیا اسے صحت کے مسائل درپیش نہ ہوںتو وہ تاحیات جج ہے۔قاضی شریع سو سال سے زائد عمر تک عدالتی امور سرانجام دیتے رہے۔ ہمارے ہاں جج ریٹائر ہوتے ہیں تو ان کو پنشن کے طورپر مکمل تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔رہائش بھی سرکار کے ذمے ہوتی ہے۔ہمارے ہاں وکیل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے۔فخر الدین جی ابراہیم کی مثال دی سکتی ہے وہ 84سال کی عمر میں بھی وکالت کرتے رہے اب چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ داری بڑی فعالیت سے نبھا رہے ہیں 65,60سال کی عمر میں ہم ججوں کو نہ جانے کیوں گھر بٹھا دیتے ہیں؟
50سال کی عمر کو عموماًپختگی کی عمر سمجھا جاتا ہے ہم صرف دس سال ملازمین کی پختہ کاری سے استفادہ کرتے ہیں۔ سکول ٹیچر اور کالجوں یونیورسٹیوں کے اساتذہ اسی عمر میں اپنی بہترین کارکردگی کا اظہار کررہے ہوتے ہیں کہ ان کو گھروں کو بھیج دیا جاتا ہے۔بیورو کریٹس پر بھی یہی صادق آتا ہے۔ فوج،سول محکموں، عدلیہ،نیم سرکاری اداروں اور شعبوں میں مدت ملازمت میں آخری عمر کی کوئی قید نہیں ہونی چاہئے۔عمر جو بھی ہو،مدِ نظر صرف اور صرف کارکردگی اورفعالیت ہو ۔ اس سے پوری قوم اور ملک ان کے تجربات اور پختہ خیالات سے مستفید ہوں گے۔ البتہ کوئی مرضی سے ریٹائرمنٹ لیناچاہے تو اس کی خواہش کا احترام کیاجائے۔جہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ نوجوانوں پر ملازمت کے دروازے بند ہوجائیں گے۔ ایسا محض ایک عارضی مدت کیلئے جزوی طورپر ہوگا۔ اس کے بعد ایک روٹین سیٹ ہوجائیگی۔حکومت جہاںریٹائرمنٹ کی عمر کا خاتمہ کرے وہیں اس کو ملازمت کیلئے عمر کے تعین کا بھی ”ورقہ پھاڑنا “ ہوگا۔ویکنسی خالی ہوتو آنیوالوں کیلئے عمر کی قید نہیں ہونی چاہئے۔ میرے ہائی سکول کے استاد مرزا اقبال محمد بیگ صاحب بتا رہے تھے کہ 70 کی دہائی میں ایک خبر شائع ہوئی کہ خواتین کی ملازمت کیلئے عمر کی حد پچاس سال مقرر کردی گئی۔ شاید اس دور کی حکومت کے کرتا دھرتاﺅں نے کوئی اپنی 50سالہ خاتون کو ملازمت دینی تھی۔ ایک دو سال کے بعد حکومت نے یہ سہولت واپس لے لی۔ اُس 50سالہ عمر کی حد کو آج بھی بروئے کار لایاجاسکتا ہے۔
عموماً ریٹائر ہونے والے استاداکیڈیمی کھول لیتے ہیں دیگر ملازمین جرنیلوں سمیت پرائیویٹ اداروں میں ملازمت اختیار کرتے ہیں۔ پرائیویٹ اداروں کو ریٹائرڈ ملازمین ہی دستیاب نہیں ہوں گے تو وہ اپنے کاروبار تو بند کرنے سے رہے ان کو لا محالہ دستیاب بہترین ٹیلنٹ ہی پر اعتماد کرنا ہوگا۔اس لئے ریٹائرمنٹ کی مدت ختم ہونے سے بے روزگاری میں اضافے کا کوئی اندیشہ باقی نہیں رہ جاتا۔ تاہم اس سے ترقی کے امکانات زیادہ روشن رہیں گے۔

اُمہ کا اتحاد بھی.... اقبال کا خواب


 
اُمہ کا اتحاد بھی.... اقبال کا خواب  
9-11-12

 فیملی میگزین کے تازہ شمارے میں امتنان ظفر کی دلکش تحریر کے ساتھ حسن البلقیہ کی دیدہ زیب تصویر بھی شائع ہوئی ہے‘ ان کو پڑھنے اور دیکھنے والا سونے اور سنہرے خیالات میں گم ہو جاتا ہے۔ برونائی دارالسلام کے سلطان حسن البلقیہ کی شان و شوکت کی دھوم ساری دنیا میں ہے اس کی ایک وجہ ان کا بادشاہوں جیسا طرز رہائش اور شاہانہ لباس ہی نہیں‘ انکے زیر استعمال قیمتی اشیاءبھی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق انکی دولت میں ہر سیکنڈ نوے یوروز کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حساب سے انکی دولت میں ہر منٹ پانچ ہزار چار سو‘ ہر گھنٹے تین لاکھ چوبیس ہزار‘ روزانہ ستر لاکھ چھہتر ہزار یورو اور ہر ہفتے پانچ کروڑ چوالیس لاکھ بتیس ہزار یورو کا اضافہ ہوتا ہے۔ وہ ریشم و اطلس و کم خواب کے ایسے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں جن پر سونے اور چاندی کے تاروں سے ایمبرائیڈری کا کام کیا گیا ہوتا ہے ان کا محل دنیا کا سب سے بڑا اور آرام دہ رائل پیلس ہے جس میں ایک ہزار سات سو اٹھاسی کمرے ہیں۔ ہر کمرے کی اشیاءپر سونے اور ہیروں کی تہ چڑھائی گئی ہے۔ یہاں سونے اور چاندی سے مرصع دو سو ستاون باتھ روم ہیں۔
حسن البلقیہ کے گیراج میں مختلف ماڈلز کی ایک سو دس قیمتی کاریں ہیں‘ رولز رائس کمپنی نے انکی خصوصی کار ڈیزائن کی ہے جو یہ برطانیہ میں قیام کے دوران استعمال کرتے ہیں۔ یہ کار خالص سونے سے مرصع ہے۔ انکی ملکیت میں مجموعی طور پر ایک ہزار نو سو بتیس گاڑیاں ہیں۔ انکے جہازوں کے بیڑے میں ایک بوئنگ 747 بھی شامل ہے۔ جسے سلطان کی ہدایت پر ازسر نو سونے سے ڈیزائن اور سونے سے بنی اشیاءسے سجایا گیا ہے۔ اسکے علاوہ چھ چھوٹے ائیر کرافٹ اور دو ہیلی کاپٹر بھی شاہی بیڑے کا حصہ ہیں۔
اتنی دولت مندی اور سوائے سونے کے تناول ماحضر کے‘ سونے کے بجا اور بے جا استعمال کے سلطان حسن البلقیہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سرفہرست نہیں‘ بلومبرگ کی شائع کردہ تازہ ترین لسٹ کے مطابق 200 امیر ترین لوگوں میں سے چار کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔ ویسے دنیا کے امیر ترین لوگوں میں بالترتیب میکسیکو کا کارلوس سلم‘ امریکی بل گیٹس اور ہسپانوی امانسیواوریگا‘ 77.5 ارب ڈالر 64.34 اور 53.6 کے ساتھ پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ سعودی روزنامے الوطن نے اپنے چار ہموطنوں کے اثاثوں کی مالیت 2.7 ٹریلین ڈالر بتائی ہے جو دنیا کی پانچویں بڑی اقتصادی طاقت فرانس کی مجموعی پیداوار کے برابر ہے۔ سعودی عرب کے امیر ترین شخص ”کنڈم ہولڈنگ“ کے مالک شہزادہ ولید بن طلال ہیں جو اپنے 22.9 ارب ڈالر اثاثوں کے ساتھ دنیا کے 20ویں امیر ترین شخص ہیں۔
عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں کے حکمرانوں‘ بادشاہوں اور شہزادوں کے اثاثوں کی مالیت ہو سکتا ہے کارلوس سلم‘ بل گیٹس کی دولت سے زیادہ ہو امیر ترین عالمی شخصیات کا تعین کرتے وقت ان کو انکی دولت کے کسی حد و حساب سے باہر ہونے پر متعینہ پیمانے سے ہی نہ جانچا جاتا ہو۔ مسلم ممالک کے ہاں ایک طرف دولت کی یہ ریل پیل تو دوسری طرف اسلامی ممالک میں سسکتی ہوئی انسانیت بھی دیکھی جاتی ہے۔ پاکستان‘ صومالیہ‘ بنگلہ دیش‘ یوگنڈہ جیسے ممالک میں ایلیٹ کلاس تو ضرور موجود ہے لیکن مفلوک الحال افراد کی تعداد کا کوئی شمار قطار نہیں جن کو دو وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہو۔ وہ اپنے بچوں کو سکول بھجوانے اور جوانی سے بڑھاپے کی عمر میں داخل ہوتی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر سکیں۔
کیا امیر مسلم ممالک اپنی دولت غریب برادر اسلامی ممالک کے بے چاروں اور لاچاروں پر نچھاور کر دیں؟ تاکہ یہ ویلیاں کھانے کے عادی ہو جائیں؟ ہمارے ہاں کسمپرسی کا شکار لوگوں کی دو قسمیں ہیں‘ ایک ہڈحرام اور دوسرے زندگی کی بقاءکیلئے لڑتے لڑتے اپنی توانائیوں کا بھرپور استعمال کرکے بھی غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ یہ کچھ کر گزرنے کا عزم ضرور رکھتے ہیں لیکن مواقع اور وسائل ان سے کوسوں دور ہیں۔ اس دوسری قسم کے لوگوں کا ہاتھ تھامنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام امیر ممالک مل کر آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اس میں کسی قسم کے خسارے کا احتمال نہیں
آج عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں میں مجموعی طور پر کروڑوں غیرملکی انجینئرز‘ پروفیسرز‘ بزنس مین‘ ہنرمند‘ نیم ہنرمند اور مزدور کام کر رہے ہیں۔ بعض ممالک کی فوج اور پولیس بھی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ سوائے مکة المکرمہ اور مدینہ منورہ کے کسی شہر اور ملک میں غیرملکی بلاامتیاز مذہب موجود ہیں۔ مکہ اور مدینہ مقدس شہروں میں غیرمسلموں کو داخلے کی اجازت نہیں۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ کسی سے اس کا روزگار نہ چھینا جائے۔ اسلامی اخوت کے ناطے برادر اسلامی ممالک کے غریبوں کا بھی احساس ضروری ہے اس لئے امیر مسلمان ممالک اپنے ہاں موجود غیرمسلموں کو اپنا معینہ عرصہ مکمل کرنے دیں البتہ مزید نفری اور ہنرمند افرادی قوت مسلم ممالک سے حاصل کی جائے۔ یہ ایسا کارخیرہے جو امیر اسلامی ممالک اپنے برادر ممالک کے غریب اور ہنرمند افراد کی فلاح کیلئے اپنے پلے سے ایک بھی درہم و دینار خرچ کئے بغیر کر سکتے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے قطر کے دورے کے موقع پر کہا کہ قطر کو 20 لاکھ ورکرز کی ضرورت ہے‘ یہ پاکستان سے منگوائے جائیں‘ کتنا اچھا ہو کہ قطر میں مقیم 90 ہزار پاکستانیوں کی تعداد 20 لاکھ نوے ہزار ہو جائے اور وہ بھی بغیر کمیشن کے۔
 امیر ممالک کے خزانے درہم ریال اور دینار کی بہتات سے چھلک چھلک جاتے ہیں۔ ہمارے صدر مملکت آصف علی زرداری پاکستان کے تیسرے امیر ترین آدمی ہیں‘ انکے اثاثوں کی مالیت 8 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ بعض ممالک کے سربراہان دس ارب ڈالر جوئے میں ایک ہی رات میں ہار کو بار نہیں سمجھتے۔ ایسے حکمرانوں کو کون تقویٰ اختیار کرنے کا مشورہ دے سکتا ہے؟ البتہ ان سے بعض اسلامی ممالک کی پسماندگی دور کرنے اور پوری دنیا میں ستم زدہ مسلمانوں کی دادرسی کی درخواست تو کی جا سکتی ہے۔ جن کیلئے جوئے میں دس ارب تک بھی ہار دینا ایک مشغلہ ہے‘ جن کی دولت کی کوئی حد نہیں ہے‘ وہ ممالک اگر کچھ رقم مسلم ممالک کی دولت مشترکہ قائم کرکے اس میں جمع کرادیں‘ دولت مند لوگ بھی اس میں حصہ ڈالیں تو بلاشبہ یہ فنڈ کھربوں ڈالر میں ہو سکتا ہے جو پسماندہ اسلامی ممالک کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کیلئے استعمال ہو۔ فلسطین اور کشمیر کی آزادی کی تحریکوں میں تیزی لائی جا سکے اور بدھوں کی ستمگری کا نشانہ بننے والے روہنگیا مسلمانوں کیلئے آزادی کا سامان کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی ممالک کی دولت ِمشترکہ اس قابل ہو سکتی ہے جو دنیا میں بے وطن مسلمانوں کو وطن تک خرید کے وہاں انکو بسا سکتی ہے۔ پاکستان ہم نے دو قومی نظریے پر حاصل کیا‘ قائد اس عزم پر قائم رہے کہ مسلمان الگ قوم ہیں تو پاکستان حاصل کرلیا۔ اقبال نے تو پوری دنیا کو مسلمانوں کا وطن قرار دیا تھا۔
چین و عرب ہمارا‘ ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں وطن ہے سارا جہاں ہمارا
حضرت اقبالؒ نے مسلمانوں کیلئے الگ وطن کا تصور پیش کیا‘ اس کو حضرت قائداعظمؒ نے عملی شکل دیدی۔ علامہ اقبال مسلمانوں کے بھی اتحاد کے حامی تھے۔ عالم اسلام کا اتحاد بھی ان کا خواب تھا........
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
نبی کریم نے فرمایا تھا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں‘ جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا بدن بے چین ہو جاتا ہے۔ اس سوچ سے اسلامی ممالک کے سربراہان کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام کون کرے؟ یہ کام عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت پاکستان کے کرنے کا ہے۔ پاکستان یہ کام کرنے کی ٹھان لے تو اسلامی دولت مشترکہ کا قیام بڑی آسانی سے عمل میں آسکتا ہے۔ آپکے پاس او آئی سی کا پلیٹ فارم پہلے سے موجود ہے‘ ضرورت اس کو تھوڑا سا فعال کرنے کی ہے۔