جمعرات ,01 نومبر ,2012
ریٹائرمنٹ کی ضرورت ہی کیا؟
”سرکاری ملازمین کیلئے ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سال کردی گئی“۔ یہ خبر بڑے طوفانی انداز میں اڑی اور پانی کے بلبلے کی سی عمر پا کر موجود سے لاموجود بلکہ بے وجود ہوگئی۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کے نوٹیفکیشن کو جعلی قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے ۔جو سرکاری ملازمین دو سال کے اضافے سے مستفید اور مستفیض ہوسکتے تھے وہ اسلم رئیسانی کے طے کردہ ” رہنما اصول“ سے دل بہلا سکتے ہیں کہ ”نوٹیفکیشن تونوٹیفکیشن ہوتا ہے اصلی ہویا نقلی“۔گو کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کا نوٹیفکیشن جعلی تھا لیکن وہ سوچ، فکر اور مستقبل سازی کے کئی درکھول گیا۔
کارکردگی کے سامنے عمر کوئی قید یا بند اور رکاوٹ نہیں ہوسکتی۔ عمر مختار نے لیبیا کی آزادی کیلئے اپنی گوریلا کاروائیوں سے اٹلی کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ 11ستمبر 1931 کو عمر مختار کو گرفتار کیا گیا تو وہ پہلے روز کی طرح فعال تھے حالانکہ ان کی عمر اس وقت 72سال تھی۔ امریکی جنرل میکارتھر کا دوسری جنگ عظیم میں کردار ناقابلِ فراموش ہے۔جنرل میکارتھر نے جاپانیوں سے ہتھیار ڈلوائے ۔2ستمبر 1945 کو خلیج ٹوکیو میں لنگر انداز امریکی بحری بیڑے یو ایس میسوری پر منعقدہ تقریب میں سرنڈر کی دستاویز پر جاپانی وزیر خارجہ مامور روشیگے اور جاپانی سپہ سالار یوشی میرو نے شکست کی قبولیت اور جنرل ڈگلس میکارتھر نے فاتح جرنیل کے طورپر دستخط کیے۔ یہ کریڈٹ بھی جنرل میکارتھر کو جاتا ہے کہ جاپانی بادشاہت کا پہلے کی طرح احترام برقرار رکھا گیا۔1951ءمیں صدر ہیری ٹرومین نے جنرل میکارتھر کو برطرف کیا تو اس وقت ان کی عمر 71سال سے متجاوز تھی۔ہمارے جرنیل صدر محمد ضیاءالحق 64سال کی عمر میںحادثاتی موت سے دوچار ہوئے ۔ غلام اسحق خان 80 کو پہنچتی عمر کے ساتھ بڑی مستعدی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ نے منیٰ میں اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ ان کی عمر نوے سال کے قریب ہے۔ہمارے ہاں سرکاری ملازمین کیلئے ریٹائرمنٹ کی عمر 60سال قرار دی گئی ہے۔ یہ اصول ہم نے عالمی قوانین سے اخذ کیا۔ نئے لوگوں کو ملازمتیں دینے کیلئے یہ ضابطہ تخلیق کیایا 60سال کی عمر کو مت ماری عمر قرار دے کر ریٹائرمنٹ کا قانون تشکیل دے دیا؟قانون اور ضوابط موجود ہیں اس کے باوجود60سال کی عمر کو حتمی قرار نہیں دیا جاتا۔سپریم کورٹ کے ججوںکی مدت ملازمت 65سال کی عمر تک ہے۔حکومت اپنی مرضی سے کسی کی بھی مدت ملازمت میں جتنی چاہے توسیع دے لیتی ہے۔امریکہ بلا شبہ مادی ترقی کے حوالے سے ایک رول ماڈل ہے۔اس کے دنیا کی واحد سپر پاور ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے۔اس کے ہاں ججوں کی مدت ملازمت کی راہ میں عمر رکاوٹ نہیں ہے۔جو جج بن گیا اسے صحت کے مسائل درپیش نہ ہوںتو وہ تاحیات جج ہے۔قاضی شریع سو سال سے زائد عمر تک عدالتی امور سرانجام دیتے رہے۔ ہمارے ہاں جج ریٹائر ہوتے ہیں تو ان کو پنشن کے طورپر مکمل تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔رہائش بھی سرکار کے ذمے ہوتی ہے۔ہمارے ہاں وکیل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے۔فخر الدین جی ابراہیم کی مثال دی سکتی ہے وہ 84سال کی عمر میں بھی وکالت کرتے رہے اب چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ داری بڑی فعالیت سے نبھا رہے ہیں 65,60سال کی عمر میں ہم ججوں کو نہ جانے کیوں گھر بٹھا دیتے ہیں؟
50سال کی عمر کو عموماًپختگی کی عمر سمجھا جاتا ہے ہم صرف دس سال ملازمین کی پختہ کاری سے استفادہ کرتے ہیں۔ سکول ٹیچر اور کالجوں یونیورسٹیوں کے اساتذہ اسی عمر میں اپنی بہترین کارکردگی کا اظہار کررہے ہوتے ہیں کہ ان کو گھروں کو بھیج دیا جاتا ہے۔بیورو کریٹس پر بھی یہی صادق آتا ہے۔ فوج،سول محکموں، عدلیہ،نیم سرکاری اداروں اور شعبوں میں مدت ملازمت میں آخری عمر کی کوئی قید نہیں ہونی چاہئے۔عمر جو بھی ہو،مدِ نظر صرف اور صرف کارکردگی اورفعالیت ہو ۔ اس سے پوری قوم اور ملک ان کے تجربات اور پختہ خیالات سے مستفید ہوں گے۔ البتہ کوئی مرضی سے ریٹائرمنٹ لیناچاہے تو اس کی خواہش کا احترام کیاجائے۔جہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ نوجوانوں پر ملازمت کے دروازے بند ہوجائیں گے۔ ایسا محض ایک عارضی مدت کیلئے جزوی طورپر ہوگا۔ اس کے بعد ایک روٹین سیٹ ہوجائیگی۔حکومت جہاںریٹائرمنٹ کی عمر کا خاتمہ کرے وہیں اس کو ملازمت کیلئے عمر کے تعین کا بھی ”ورقہ پھاڑنا “ ہوگا۔ویکنسی خالی ہوتو آنیوالوں کیلئے عمر کی قید نہیں ہونی چاہئے۔ میرے ہائی سکول کے استاد مرزا اقبال محمد بیگ صاحب بتا رہے تھے کہ 70 کی دہائی میں ایک خبر شائع ہوئی کہ خواتین کی ملازمت کیلئے عمر کی حد پچاس سال مقرر کردی گئی۔ شاید اس دور کی حکومت کے کرتا دھرتاﺅں نے کوئی اپنی 50سالہ خاتون کو ملازمت دینی تھی۔ ایک دو سال کے بعد حکومت نے یہ سہولت واپس لے لی۔ اُس 50سالہ عمر کی حد کو آج بھی بروئے کار لایاجاسکتا ہے۔
عموماً ریٹائر ہونے والے استاداکیڈیمی کھول لیتے ہیں دیگر ملازمین جرنیلوں سمیت پرائیویٹ اداروں میں ملازمت اختیار کرتے ہیں۔ پرائیویٹ اداروں کو ریٹائرڈ ملازمین ہی دستیاب نہیں ہوں گے تو وہ اپنے کاروبار تو بند کرنے سے رہے ان کو لا محالہ دستیاب بہترین ٹیلنٹ ہی پر اعتماد کرنا ہوگا۔اس لئے ریٹائرمنٹ کی مدت ختم ہونے سے بے روزگاری میں اضافے کا کوئی اندیشہ باقی نہیں رہ جاتا۔ تاہم اس سے ترقی کے امکانات زیادہ روشن رہیں گے۔
No comments:
Post a Comment