About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, November 24, 2012

اسلحہ سے پاک







 نومبر
22  ,2012

اسلحہ سے پاک!

عالمی میڈیا میں آنے والے اعداد و شمار کے مطابق‘ 88.8 فیصد امریکیوں کے پاس آتشیں اسلحہ ہے۔ یمن کے شہری 54.8 فیصد کے ساتھ دوسرے سوئٹزر لینڈ اور فن لینڈ کے 45.7 اور45.3 کے ساتھ بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔ امریکہ میں اسلحہ کلچر کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں۔بی بی سی اور دیگر ذرائع ابلاغ نے امریکیوں کی اسلحہ اندوزی کے حوالے سے دلچسپ رپورٹیں شائع کی ہیں امریکہ شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آئینی طور پر ہر بالغ شہری کو ہتھیار یا بندوق رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اگر آپ کی عمر اٹھارہ سال یا اس سے زائد ہے، آپ امریکی شہری ہیں اور آپ کا کوئی پہلے سے مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے تو آپ محض اپنا ڈرائیونگ لائسنس یا ریاستی شناختی دستاویز کسی بھی اسلحے کی دکان پر دکھا کر بندوق خرید سکتے ہیں۔امریکی ہتھیاروں سے عشق کرتے ہیں‘ اور یہی بات آپ کو کئی امریکی فخر سے بتائیں گے۔یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ امریکہ دنیا میں بندوق کا کلچر رکھنے والے ملکوں میں سب سے آگے ہے اور اس کی تاریخ اور قومی زندگی میں بندوق ایک جزو لاینفک رہا ہے۔ البتہ گولی کے زور پر ہی انہوں نے امریکہ پہنچ کر قبضہ کیا تھا۔

عوام کے پاس اسلحہ کی بہتات اور بھرمار‘ لاقانونیت‘ دہشت گردی و امن و امان کی خرابی کی وجہ ہوتی تو امریکہ سوئٹزر لینڈ اور فن لینڈ میں امن و امان اور استحکام کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔ ہمارے سیاستدان ”اسلحہ سے پاک“ کی بات کر رہے۔ آج کل اس نعرہ کو لے کر ہمارے پارلیمنٹیرین آگے آگے ہیں۔ 19 نومبر 2012ئ کو سینٹ میں کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قرارداد پیش اور پاس کی گئی۔ دوسرے روز قومی اسمبلی میں ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قرارداد لائی گئی وہ بھی منظور ہو گئی۔ سینٹ میں پیش ہونے والی قرارداد کی محرک اے این پی تھی جس کی مخالفت متحدہ قومی موومنٹ نے کی۔ اگلے روز قومی اسمبلی میں متحدہ کی پیش کردہ قرارداد مسلم لیگ ن‘ اے این پی اور جے یو آئی کے دل کو نہ لگی۔ گویا گریجوایٹ پارلیمنٹیرین کے مابین کراچی یا پورے ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے پر اتفاق نہیں ہے۔ البتہ قراردادیں اکثریت رائے سے منظور ہو چکی ہیں۔ کسی بھی قرارداد کی حیثیت تجویز کی سی ہوتی ہے اس کو قانون کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم پارلیمنٹ کے وقار کا تقاضا ہے کہ اس کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل کیا جائے۔ لیکن اس حوالے سے جتنی بے توقیری موجودہ پارلیمنٹ کی پارلیمنٹ کو سپریم قرار دینے والوں کے ہاتھوں ہوئی ہے اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے پارلیمان کی متفقہ قراردادوں کو حکومت نے کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ تیل کی قیمتوں میں کمی اور ہفتہ وار تعین کے خاتمے کی قراردادوں کو حکومت نے پذیرائی نہیں بخشی۔ تیل و گیس کی ہفتہ وار قیمتوں کے تعین کا خاتمہ سپریم کورٹ کے حکم پر ہوا۔ کراچی یا ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قراردادیں بھی گذشتہ کئی قراردادوں کی طرح بے توقیری کی مٹی میں مل جائیں گی۔ جہاں تو قانون کو کوئی نہیں پوچھتا قراردادوں کی کیا اہمیت ہو گی! کراچی و ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قراردادوں کی حیثیت ڈرامہ اور تماشا سے زیادہ نہیں ہے۔ ان سے پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرین کا وقت ضائع ہوا۔ سیاستدانوں کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا اور بعض کے مابین نئی تلخیوں نے جنم لیا۔ یہی ان قراردادوں کا حاصل ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ صرف کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کی مخالفت کر رہی ہے۔ متحدہ مرکز اور صوبہ سندھ میں حکومت کی اتحادی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے متحدہ کو ناراض کرکے کراچی میں بے رحم آپریشن کرنا ممکن نہیں۔ متحدہ کا موقف اصولی ہے کہ اسلحہ کے خلاف آپریشن صرف کراچی ہی میں کیوں۔ پورے ملک میں کیوں نہیں؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پورے ملک میں اسلحہ کے خلاف آپریشن ممکن ہی نہیں ہے۔ خیبر پختون خواہ‘ فاٹا اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں لوگ اسلحہ کو اپنا زیور سمجھتے ہیں۔ ہر شخص بلاضرورت بھی اپنے پاس اسلحہ رکھتا ہے۔ یہ ان کی روایات اور کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ آپ کسی سے اس کا کلچر نہیں چھین سکتے۔ امریکہ میں کئی بار گن کنٹرول لائ لانے کی کوشش کی گئی وہ کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ آپ قبائل جیسے روایات پر ایمان کی حد تک کاربند معاشرے سے اسلحہ کیسے واپس لیں گے؟ بالفرض ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کی مہم شروع ہوئی ہے تو اس کا آغاز کہاں سے ہو گا؟ کراچی سے خیبر پی کے‘ فاٹا یا بلوچستان سے؟ کیا اس پر تمام پارٹیوں کا اتفاق رائے ہو جائے گا؟ اگر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو کیا آج کے حکمران ہر مخالفت کو نظرانداز کرتے ہوئے بلاامتیاز آپریشن کی جرات رکھتے ہیں؟

سوال یہ ہے کہ کراچی یا ملک کو اسلحہ سے پاک کیوں کیا جائے؟ یہ ضرورت لاقانونیت بدامنی‘ بھتہ خوری‘ اغوا برائے تاوان اور قتل و غارت جیسے جرائم کے باعث محسوس کی گئی ہے کیا ملک کے دیگر علاقوں میں بھی کراچی جیسے بدترین حالات میں جہاں آپریشن کیا جائے؟ قبائل کے پاس تو اسلحہ صدیوں سے موجودہ ہے۔ ان علاقوں میں امن و امان بگڑا ہوا ضرور ہے لیکن اس کی وجہ ہر آدمی کے پاس من مرضی کا اسلحہ ہونا نہیں ہے۔ پھر وہاں اسلحہ کے خلاف آپریشن کا جواز نہیں رہتا۔ ضرورت کراچی سمیت ملک کے کسی بھی حصے میں امن کے قیام کی ہے۔ کیا امن صرف ہر شخص سے اسلحہ چھین لینے سے قائم ہو سکتا ہے؟ ملک کے بہت سے حصوں میں اسلحہ نہ ہونے کے برابر ہے‘ جرائم وہاں بھی ہوتے ہیں۔ قتل و غارت بھی ہوتی ہے۔ سیاسی بنیادوں پر ممنوعہ بور کے اسلحہ کے بے شمار لائسنس جاری کئے گئے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بھی جرائم پیشہ لوگ خطرناک اور غیر ممنوعہ اسلحہ خرید سکتے ہیں۔ پرامن شخص کے حوالے آپ ٹینک اور توپ بھی کردیں تو وہ اس کو تخریب دہشت اور وحشت کے لئے استعمال نہیں کرے گا۔ اگر ہمارے حکمران‘ سیاستدان اور دیگر بااثر رہبرو رہنما لاقانونیت‘ ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی کی وجوہات ختم کر دیں تو کسی کے پاس پڑ اسلحہ کسی کے لئے خطرناک ثابت ہو گا نہ اس سے واپس لینے کی ضرورت پڑے گی۔ قانون کی بالادستی ہو تو بھی ہر گھر میں اور ہر شخص کے پاس موجود اسلحہ سے کسی کو خطرہ نہیں ہے۔ کراچی میں کیا کبھی قانون کی عملداری کی کوشش کی گئی؟ پے رول پر رہائی کی سہولت قاتلوں اور دہشت گردوں کو نہیں دی جاتی اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے رہائی کی۔ قانون پر عملداری یقینی بنا دی جائے تو جائز اور ناجائز اسلحہ کا استعمال خود بخود رک جائے گا۔

کراچی اور ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کا عزم ظاہر کرنے والے اگر پرخلوص‘ نیک نیت‘ دیانتدار اور قوم و ملک کے خیرخواہ ہوں تو اسلحہ کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ملا عمر کی ایک آواز پر اسلحہ کو زیور سمجھنے والوں نے برضا رغبت اسلحہ جمع کرا دیا اور پوست جو ان کے روزگار کا وسیلہ تھا اس کی کاشت ترک کر دی۔ قرون اولیٰ کی بات کریں تو‘ حرمت کا حکم ہوا تو شراب کے رسیا¶ں نے سربازار شراب کے مٹکے توڑ ڈالے۔ ہمارے حکمران بھی ایسے کردار کا مظاہرہ کریں تو کسی آپریشن کی ضرورت نہیں رہے گی۔





























ا ±مہ کا اتحاد بھی.... اقبال کا خواب

9-11-12


 فیملی میگزین کے تازہ شمارے میں امتنان ظفر کی دلکش تحریر کے ساتھ حسن البلقیہ کی دیدہ زیب تصویر بھی شائع ہوئی ہے‘ ان کو پڑھنے اور دیکھنے والا سونے اور سنہرے خیالات میں گم ہو جاتا ہے۔ برونائی دارالسلام کے سلطان حسن البلقیہ کی شان و شوکت کی دھوم ساری دنیا میں ہے اس کی ایک وجہ ان کا بادشاہوں جیسا طرز رہائش اور شاہانہ لباس ہی نہیں‘ انکے زیر استعمال قیمتی اشیائ بھی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق انکی دولت میں ہر سیکنڈ نوے یوروز کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حساب سے انکی دولت میں ہر منٹ پانچ ہزار چار سو‘ ہر گھنٹے تین لاکھ چوبیس ہزار‘ روزانہ ستر لاکھ چھہتر ہزار یورو اور ہر ہفتے پانچ کروڑ چوالیس لاکھ بتیس ہزار یورو کا اضافہ ہوتا ہے۔ وہ ریشم و اطلس و کم خواب کے ایسے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں جن پر سونے اور چاندی کے تاروں سے ایمبرائیڈری کا کام کیا گیا ہوتا ہے ان کا محل دنیا کا سب سے بڑا اور آرام دہ رائل پیلس ہے جس میں ایک ہزار سات سو اٹھاسی کمرے ہیں۔ ہر کمرے کی اشیائ پر سونے اور ہیروں کی تہ چڑھائی گئی ہے۔ یہاں سونے اور چاندی سے مرصع دو سو ستاون باتھ روم ہیں۔
حسن البلقیہ کے گیراج میں مختلف ماڈلز کی ایک سو دس قیمتی کاریں ہیں‘ رولز رائس کمپنی نے انکی خصوصی کار ڈیزائن کی ہے جو یہ برطانیہ میں قیام کے دوران استعمال کرتے ہیں۔ یہ کار خالص سونے سے مرصع ہے۔ انکی ملکیت میں مجموعی طور پر ایک ہزار نو سو بتیس گاڑیاں ہیں۔ انکے جہازوں کے بیڑے میں ایک بوئنگ 747 بھی شامل ہے۔ جسے سلطان کی ہدایت پر ازسر نو سونے سے ڈیزائن اور سونے سے بنی اشیائ سے سجایا گیا ہے۔ اسکے علاوہ چھ چھوٹے ائیر کرافٹ اور دو ہیلی کاپٹر بھی شاہی بیڑے کا حصہ ہیں۔
اتنی دولت مندی اور سوائے سونے کے تناول ماحضر کے‘ سونے کے بجا اور بے جا استعمال کے سلطان حسن البلقیہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سرفہرست نہیں‘ بلومبرگ کی شائع کردہ تازہ ترین لسٹ کے مطابق 200 امیر ترین لوگوں میں سے چار کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔ ویسے دنیا کے امیر ترین لوگوں میں بالترتیب میکسیکو کا کارلوس سلم‘ امریکی بل گیٹس اور ہسپانوی امانسیواوریگا‘ 77.5 ارب ڈالر 64.34 اور 53.6 کے ساتھ پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ سعودی روزنامے الوطن نے اپنے چار ہموطنوں کے اثاثوں کی مالیت 2.7 ٹریلین ڈالر بتائی ہے جو دنیا کی پانچویں بڑی اقتصادی طاقت فرانس کی مجموعی پیداوار کے برابر ہے۔ سعودی عرب کے امیر ترین شخص ”کنڈم ہولڈنگ“ کے مالک شہزادہ ولید بن طلال ہیں جو اپنے 22.9 ارب ڈالر اثاثوں کے ساتھ دنیا کے 20ویں امیر ترین شخص ہیں۔
عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں کے حکمرانوں‘ بادشاہوں اور شہزادوں کے اثاثوں کی مالیت ہو سکتا ہے کارلوس سلم‘ بل گیٹس کی دولت سے زیادہ ہو امیر ترین عالمی شخصیات کا تعین کرتے وقت ان کو انکی دولت کے کسی حد و حساب سے باہر ہونے پر متعینہ پیمانے سے ہی نہ جانچا جاتا ہو۔ مسلم ممالک کے ہاں ایک طرف دولت کی یہ ریل پیل تو دوسری طرف اسلامی ممالک میں سسکتی ہوئی انسانیت بھی دیکھی جاتی ہے۔ پاکستان‘ صومالیہ‘ بنگلہ دیش‘ یوگنڈہ جیسے ممالک میں ایلیٹ کلاس تو ضرور موجود ہے لیکن مفلوک الحال افراد کی تعداد کا کوئی شمار قطار نہیں جن کو دو وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہو۔ وہ اپنے بچوں کو سکول بھجوانے اور جوانی سے بڑھاپے کی عمر میں داخل ہوتی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر سکیں۔
کیا امیر مسلم ممالک اپنی دولت غریب برادر اسلامی ممالک کے بے چاروں اور لاچاروں پر نچھاور کر دیں؟ تاکہ یہ ویلیاں کھانے کے عادی ہو جائیں؟ ہمارے ہاں کسمپرسی کا شکار لوگوں کی دو قسمیں ہیں‘ ایک ہڈحرام اور دوسرے زندگی کی بقائ کیلئے لڑتے لڑتے اپنی توانائیوں کا بھرپور استعمال کرکے بھی غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ یہ کچھ کر گزرنے کا عزم ضرور رکھتے ہیں لیکن مواقع اور وسائل ان سے کوسوں دور ہیں۔ اس دوسری قسم کے لوگوں کا ہاتھ تھامنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام امیر ممالک مل کر آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اس میں کسی قسم کے خسارے کا احتمال نہیں
آج عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں میں مجموعی طور پر کروڑوں غیرملکی انجینئرز‘ پروفیسرز‘ بزنس مین‘ ہنرمند‘ نیم ہنرمند اور مزدور کام کر رہے ہیں۔ بعض ممالک کی فوج اور پولیس بھی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ سوائے مکة المکرمہ اور مدینہ منورہ کے کسی شہر اور ملک میں غیرملکی بلاامتیاز مذہب موجود ہیں۔ مکہ اور مدینہ مقدس شہروں میں غیرمسلموں کو داخلے کی اجازت نہیں۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ کسی سے اس کا روزگار نہ چھینا جائے۔ اسلامی اخوت کے ناطے برادر اسلامی ممالک کے غریبوں کا بھی احساس ضروری ہے اس لئے امیر مسلمان ممالک اپنے ہاں موجود غیرمسلموں کو اپنا معینہ عرصہ مکمل کرنے دیں البتہ مزید نفری اور ہنرمند افرادی قوت مسلم ممالک سے حاصل کی جائے۔ یہ ایسا کارخیرہے جو امیر اسلامی ممالک اپنے برادر ممالک کے غریب اور ہنرمند افراد کی فلاح کیلئے اپنے پلے سے ایک بھی درہم و دینار خرچ کئے بغیر کر سکتے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے قطر کے دورے کے موقع پر کہا کہ قطر کو 20 لاکھ ورکرز کی ضرورت ہے‘ یہ پاکستان سے منگوائے جائیں‘ کتنا اچھا ہو کہ قطر میں مقیم 90 ہزار پاکستانیوں کی تعداد 20 لاکھ نوے ہزار ہو جائے اور وہ بھی بغیر کمیشن کے۔
 امیر ممالک کے خزانے درہم ریال اور دینار کی بہتات سے چھلک چھلک جاتے ہیں۔ ہمارے صدر مملکت آصف علی زرداری پاکستان کے تیسرے امیر ترین آدمی ہیں‘ انکے اثاثوں کی مالیت 8 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ بعض ممالک کے سربراہان دس ارب ڈالر جوئے میں ایک ہی رات میں ہار کو بار نہیں سمجھتے۔ ایسے حکمرانوں کو کون تقویٰ اختیار کرنے کا مشورہ دے سکتا ہے؟ البتہ ان سے بعض اسلامی ممالک کی پسماندگی دور کرنے اور پوری دنیا میں ستم زدہ مسلمانوں کی دادرسی کی درخواست تو کی جا سکتی ہے۔ جن کیلئے جوئے میں دس ارب تک بھی ہار دینا ایک مشغلہ ہے‘ جن کی دولت کی کوئی حد نہیں ہے‘ وہ ممالک اگر کچھ رقم مسلم ممالک کی دولت مشترکہ قائم کرکے اس میں جمع کرادیں‘ دولت مند لوگ بھی اس میں حصہ ڈالیں تو بلاشبہ یہ فنڈ کھربوں ڈالر میں ہو سکتا ہے جو پسماندہ اسلامی ممالک کو اپنے پا?ں پر کھڑا کرنے کیلئے استعمال ہو۔ فلسطین اور کشمیر کی آزادی کی تحریکوں میں تیزی لائی جا سکے اور بدھوں کی ستمگری کا نشانہ بننے والے روہنگیا مسلمانوں کیلئے آزادی کا سامان کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی ممالک کی دولت ِمشترکہ اس قابل ہو سکتی ہے جو دنیا میں بے وطن مسلمانوں کو وطن تک خرید کے وہاں انکو بسا سکتی ہے۔ پاکستان ہم نے دو قومی نظریے پر حاصل کیا‘ قائد اس عزم پر قائم رہے کہ مسلمان الگ قوم ہیں تو پاکستان حاصل کرلیا۔ اقبال نے تو پوری دنیا کو مسلمانوں کا وطن قرار دیا تھا۔
چین و عرب ہمارا‘ ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں وطن ہے سارا جہاں ہمارا
حضرت اقبال? نے مسلمانوں کیلئے الگ وطن کا تصور پیش کیا‘ اس کو حضرت قائداعظم? نے عملی شکل دیدی۔ علامہ اقبال مسلمانوں کے بھی اتحاد کے حامی تھے۔ عالم اسلام کا اتحاد بھی ان کا خواب تھا........
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
نبی کریم نے فرمایا تھا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں‘ جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا بدن بے چین ہو جاتا ہے۔ اس سوچ سے اسلامی ممالک کے سربراہان کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام کون کرے؟ یہ کام عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت پاکستان کے کرنے کا ہے۔ پاکستان یہ کام کرنے کی ٹھان لے تو اسلامی دولت مشترکہ کا قیام بڑی آسانی سے عمل میں آسکتا ہے۔ آپکے پاس او آئی سی کا پلیٹ فارم پہلے سے موجود ہے‘ ضرورت اس کو تھوڑا سا فعال کرنے کی ہے۔


No comments:

Post a Comment