اتوار ,11 نومبر ,2012
خرافات سے پاک سیاست
پاک فوج میں جوان سے جرنیل تک ڈسپلن کی ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ یہی مسلح افواج کی قوت اور کامیابی ہے۔ افواج میں جب تک ڈسپلن ہے یہ اس وقت تک مضبوط اور متحد رہے گی اگر اسے قانون کی موشگافیوں میں الجھا دیا گیا تو ڈسپلن کے بندھن ٹوٹ جائیں گے۔ کچھ حلقوں کی یہی منشا ہے اور کچھ نادانستگی میں ان حلقوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں اور کچھ اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں سرگرم بھی ہیں۔ فوج میںاوپر سے حکم ملتے ہی تعمیل میں تاخیر سے بھی معاملات بگڑ جاتے ہیں، انکار سے تو شر پھیلے گا اور پھر اسکے شرر اور شرارہ بننے میں دیر نہیں لگے گی۔ ڈسپلن کا تقاضا ہے کہ سپاہی کمانڈر کی ہدایت پر اپنی عقل کو استعمال میں لائے اور قانونی باریکیوں میں پڑے بغیر عمل کرے خواہ وہ اسے کنویں میں چھلانگ کا کہہ دے، حکم دینے والا بیوقوف نہیں ہے جو ایسا کہہ دے وہ سوچ سمجھ کر پوری ذمہ داری سے ہی ایسا کرنے کا حکم دیتا ہے جس کا ماتحت کو علم ہوتا ہے اور نہ وہ جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ ہماری فوج میں ایسا ہی نظم و ضبط ہے۔ جرنیلوں نے مارشل لاءلگائے یہ ان کا انفرادی فیصلہ ہو سکتا ہے ہر فوجی مارشلا¶ں کا حامی نہیں تھا لیکن ڈسپلن کے دائرے میں رہتے ہوئے اسے مارشل لاءکا حصہ بننا پڑا۔ اگر قانون کا درس دینے والے ان کو قائل کر لیتے کہ مارشل لاءلگانے والوں نے آئین کی خلاف ورزی کی، ان کے اقدامات اور احکامات غیر قانونی ہیں، آپ ماننے سے انکار کر دیں تو کیا فوج میں نظم و ضبط نام کی کوئی چیز رہ جاتی؟ حالانکہ مارشل لاءیقیناً آئین شکن اقدام ہے جس کی سزا آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت موت ہے۔ فوج کو آئین اور قانون پڑھانے سے زیادہ، اسے نظم و ضبط کا پابند رہنے کا درس دیا جاتا ہے۔
صدر مملکت فوج کا سپریم کمانڈر ہے۔ آرمی چیف اسکے ماتحت ہے۔ باقی فوج آرمی چیف کے زیر کمان ہے۔ جو معاملات صدر اور آرمی چیف کے سامنے ہیں ضروری نہیں کہ دیگر لوگ بھی ان سے واقف ہوں۔ حکمت عملی ترتیب دینا کمانڈر کا کام اور اس کو کامیابی سے ہمکنار کرنا اس کی ٹیم کی ذمہ داری ہے۔ مارشل لاءچند جرنیل لگاتے ہیں بعد میں پوری فوج ان کا ساتھ دیتی ہے۔ پاکستان میں جب کبھی حقائق جاننے کا کمشن بنا تو کیا اس میں مارشل لاءلگانے والا جرنیل اور اسکے حکم پر گلیوں بازاروں میں ڈیوٹی دینے والے بندوق بردار جوان یکساں سزا کے مستوجب ہوں گے؟ کیونکہ یہ بھی مارشل لاءکا حصہ تھے۔ جنرل درانی کا م¶قف درست ہے کہ انہوں نے جو کیا اپنے کمانڈر جنرل اسلم بیگ کے احکامات پر کیا۔ جنرل بیگ، سپریم کمانڈر کے حکم کے پابند تھے۔ فوج کے سپریم کمانڈر صدر غلام اسحاق خان نے ایسا کیوں کیا، وہ جواب دینے کےلئے دنیا میں موجود نہیں تاہم ان کی طرف سے ہو سکتا ہے کہ جواب جنرل درانی کے اس بیان میں ہو جو سپریم کورٹ نے پڑھ کر واپس کر دیا اور بریگیڈئر حامد سعید اختر کے 9 نکات جن کو خفیہ رکھا گیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے سامنے آنے والے حقائق کے مطابق فیصلہ دیا جس پر تحسین کے ساتھ ساتھ تنقید بھی ہو رہی ہے۔ فیصلے کی زد میں آنے والوں نے اپنی دانست میں اس وقت جو کیا وہ شاید ان کے نزدیک ملک کو بچانے کا تقاضا تھا۔ اگرچہ وہ عدالت میں ایسا ثابت نہیں کر سکے البتہ ان کے ضمیر مطمئن ہیں۔ آئندہ بھی سقراط پیدا ہوتے رہیں گے۔ وطن کو خطرے میں دیکھ کر اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہیںگے بعد میں خواہ ان کو زہر کا پیالہ پینا پڑے۔ ملک و ملت کو خطرات میں گھرتا ہوا دیکھ کر ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ قانون کی موشگافیوں میں پڑے بغیر اپنا کردار بعینہ ادا کرے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
سپریم کورٹ کے اصغر خان کیس کے فیصلے کا وہ پہلو نہایت اہم ہے جس میں فوج سے پیسے وصول کرنے والوں سے سود سمیت وصولی کی ہدایت کی گئی۔ ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ کن سیاستدانوں نے وصولیاں کیں۔ صرف محترمہ سیدہ عابدہ حسین نے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے اعتراف کیا اور ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ وہ منافع سمیت رقم لوٹانے کو تیار ہیں۔ جن پر فوج یا یونس حبیب سے نومبر 1990ءکے الیکشن سے قبل رقوم وصول کرنے کا الزام ہے ان کے ناموں پر ایک نظر ڈال لینے میں حرج نہیں۔ ان کا ذکر سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود ہے۔ صوبہ سرحد سے امیر افضل نے ایک کروڑ روپے، پنجاب سے نواز شریف نے 35 لاکھ (آپ نے تردید کردی ہے)‘ جماعت اسلامی 50 لاکھ، عابدہ حسین 10 لاکھ، الطاف حسین قریشی اور مصطفی صادق,5 5 لاکھ۔ سندھ سے غلام مصطفی جتوئی 50 لاکھ، جام صادق 50 لاکھ، محمد خان جونیجو 25لاکھ، پیر پگاڑا 20 لاکھ، مولانا صلاح الدین 3 لاکھ ۔ بلوچستان سے ہمایوں مری 15 لاکھ، میر ظفر اللہ جمالی 40 لاکھ، کاکڑ 10 لاکھ، کے بلوچ 5 لاکھ، جام یوسف 750000، غوث بخش بزنجو 5 لاکھ، ندیم مینگل سے 10 لاکھ روپے وصول کئے۔ یونس حبیب کے بیان کے مطابق جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ کو 14 کروڑ روپے، جام صادق علی کو 7 کروڑ روپے، الطاف حسین کو 2 کروڑ روپے اور جاوید ہاشمی وغیرہ کےلئے یوسف میمن کو 5 کروڑ روپے دئیے۔
1990ءکے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں آئی جے آئی کو کھڑا کیا گیا، آج اُسی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ حکمرانوں میں بہت سے ایسے ہیں جن کی ”وصولیوں“ کے سامنے 90 میںکی گئیں ادائیگیوں کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔ بہتر نہیں ہے کہ مکمل تحقیقات کے بعد قومی خزانے سے ایک بھی پائی لوٹنے والوں سے سےاست کو پاک کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ ملک میں آمریت مسلط کرنے والوں کا حساب بے باک کر دینا چاہئے۔سیاست دان اگر واقعی قوم و ملک کے ساتھ مخلص ہیں تو نہ صرف اپنی صفوں سے کرپٹ افراد کو نکال باہر کریں بلکہ کرپشن کیخلاف انتہائی سطح پر جانے کو اپنے منشور کا حصہ بھی بنائیں۔
صدر مملکت فوج کا سپریم کمانڈر ہے۔ آرمی چیف اسکے ماتحت ہے۔ باقی فوج آرمی چیف کے زیر کمان ہے۔ جو معاملات صدر اور آرمی چیف کے سامنے ہیں ضروری نہیں کہ دیگر لوگ بھی ان سے واقف ہوں۔ حکمت عملی ترتیب دینا کمانڈر کا کام اور اس کو کامیابی سے ہمکنار کرنا اس کی ٹیم کی ذمہ داری ہے۔ مارشل لاءچند جرنیل لگاتے ہیں بعد میں پوری فوج ان کا ساتھ دیتی ہے۔ پاکستان میں جب کبھی حقائق جاننے کا کمشن بنا تو کیا اس میں مارشل لاءلگانے والا جرنیل اور اسکے حکم پر گلیوں بازاروں میں ڈیوٹی دینے والے بندوق بردار جوان یکساں سزا کے مستوجب ہوں گے؟ کیونکہ یہ بھی مارشل لاءکا حصہ تھے۔ جنرل درانی کا م¶قف درست ہے کہ انہوں نے جو کیا اپنے کمانڈر جنرل اسلم بیگ کے احکامات پر کیا۔ جنرل بیگ، سپریم کمانڈر کے حکم کے پابند تھے۔ فوج کے سپریم کمانڈر صدر غلام اسحاق خان نے ایسا کیوں کیا، وہ جواب دینے کےلئے دنیا میں موجود نہیں تاہم ان کی طرف سے ہو سکتا ہے کہ جواب جنرل درانی کے اس بیان میں ہو جو سپریم کورٹ نے پڑھ کر واپس کر دیا اور بریگیڈئر حامد سعید اختر کے 9 نکات جن کو خفیہ رکھا گیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے سامنے آنے والے حقائق کے مطابق فیصلہ دیا جس پر تحسین کے ساتھ ساتھ تنقید بھی ہو رہی ہے۔ فیصلے کی زد میں آنے والوں نے اپنی دانست میں اس وقت جو کیا وہ شاید ان کے نزدیک ملک کو بچانے کا تقاضا تھا۔ اگرچہ وہ عدالت میں ایسا ثابت نہیں کر سکے البتہ ان کے ضمیر مطمئن ہیں۔ آئندہ بھی سقراط پیدا ہوتے رہیں گے۔ وطن کو خطرے میں دیکھ کر اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہیںگے بعد میں خواہ ان کو زہر کا پیالہ پینا پڑے۔ ملک و ملت کو خطرات میں گھرتا ہوا دیکھ کر ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ قانون کی موشگافیوں میں پڑے بغیر اپنا کردار بعینہ ادا کرے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
سپریم کورٹ کے اصغر خان کیس کے فیصلے کا وہ پہلو نہایت اہم ہے جس میں فوج سے پیسے وصول کرنے والوں سے سود سمیت وصولی کی ہدایت کی گئی۔ ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ کن سیاستدانوں نے وصولیاں کیں۔ صرف محترمہ سیدہ عابدہ حسین نے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے اعتراف کیا اور ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ وہ منافع سمیت رقم لوٹانے کو تیار ہیں۔ جن پر فوج یا یونس حبیب سے نومبر 1990ءکے الیکشن سے قبل رقوم وصول کرنے کا الزام ہے ان کے ناموں پر ایک نظر ڈال لینے میں حرج نہیں۔ ان کا ذکر سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود ہے۔ صوبہ سرحد سے امیر افضل نے ایک کروڑ روپے، پنجاب سے نواز شریف نے 35 لاکھ (آپ نے تردید کردی ہے)‘ جماعت اسلامی 50 لاکھ، عابدہ حسین 10 لاکھ، الطاف حسین قریشی اور مصطفی صادق,5 5 لاکھ۔ سندھ سے غلام مصطفی جتوئی 50 لاکھ، جام صادق 50 لاکھ، محمد خان جونیجو 25لاکھ، پیر پگاڑا 20 لاکھ، مولانا صلاح الدین 3 لاکھ ۔ بلوچستان سے ہمایوں مری 15 لاکھ، میر ظفر اللہ جمالی 40 لاکھ، کاکڑ 10 لاکھ، کے بلوچ 5 لاکھ، جام یوسف 750000، غوث بخش بزنجو 5 لاکھ، ندیم مینگل سے 10 لاکھ روپے وصول کئے۔ یونس حبیب کے بیان کے مطابق جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ کو 14 کروڑ روپے، جام صادق علی کو 7 کروڑ روپے، الطاف حسین کو 2 کروڑ روپے اور جاوید ہاشمی وغیرہ کےلئے یوسف میمن کو 5 کروڑ روپے دئیے۔
1990ءکے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں آئی جے آئی کو کھڑا کیا گیا، آج اُسی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ حکمرانوں میں بہت سے ایسے ہیں جن کی ”وصولیوں“ کے سامنے 90 میںکی گئیں ادائیگیوں کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔ بہتر نہیں ہے کہ مکمل تحقیقات کے بعد قومی خزانے سے ایک بھی پائی لوٹنے والوں سے سےاست کو پاک کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ ملک میں آمریت مسلط کرنے والوں کا حساب بے باک کر دینا چاہئے۔سیاست دان اگر واقعی قوم و ملک کے ساتھ مخلص ہیں تو نہ صرف اپنی صفوں سے کرپٹ افراد کو نکال باہر کریں بلکہ کرپشن کیخلاف انتہائی سطح پر جانے کو اپنے منشور کا حصہ بھی بنائیں۔
No comments:
Post a Comment