جمعرات ، 17 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان
تعلیم و تربیت‘ دانش و حکمت‘ ہنر‘ سخن اور حسن اپنی اہمیت اور اثر رکھتے ہیں۔ تعلیم کا کچھ بھی متبادل نہیں ہے۔ اس کے بغیر انسان کامل وا کمل ہو ہی نہیں سکتا۔ دین فطرت میں بھی حصول علم پر زور دیا گیا ہے۔ آج ہماری قومی زندگی میں پسماندگی اور انحطاط کی بڑی وجوہات میں ”اعلیٰ درجے“ کی ناخواندگی بھی شامل ہے۔ یہ بدقسمتی پوری قوم کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس سے ہمارے حکمران بھی آلودہ ہیں جو محض الیکشن جیتنے اور لیلائے اقتدار تک رسائی کو اپنی عقلِ سقراط اور حکمتِ سقراط کا کارنامہ قرار دیتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں پر نظر دوڑائیں تو ان کے مکینوں کے کردار ’عمل‘ بیانات و اقدامات سے گماں گزرتا ہے کہ شہر میں سب سے پہلے داخل ہونے والے شخص کو ایوان صدر دوسرے کو وزیراعظم ہا ¶س میں بٹھا دیا گیا ہے۔ کیا بات کرنی ہے‘ کب کرنی ہے‘ کرنی بھی ہے یا نہیں۔ یہ سوچے بغیر بلاتکان بولے جا رہے ہیں۔ اس طرح بولنے سے سبکی اور شرمندگی ہو گی‘ اس کی کوئی پروا نہیں۔
صدر جناب آصف علی زرداری نے جس اجلاس میں کہا میاں صاحب نے میری زبان کٹوائی‘ اسی اجلاس میں یہ بھی فرمایا ”بعض لوگ کہتے ہیں مجھے سیاست نہیں کرنی چاہئے قائداعظم ملک کے گورنر جنرل تھے اور مسلم لیگ کے صدر بھی۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو بھی ملک کے صدر اور پیپلز پارٹی کے سربراہ تھے۔“ اپنے مذکورہ بیانات کے اگلے روز میاں نواز شریف سے فون پر بات کرتے ہوئے آصف زرداری نے باور کرایا کہ انہوں نے زبان کٹوانے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ صدر صاحب کی وضاحت کو تسلیم کر لینے میں کوئی قباحت نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ وہ بات میڈیا تک کیسے پہنچ گئی جس کا فسانے میں ذکر ہی نہیں تھا۔ کچھ اہل سیاست کہتے ہیں کہ سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ لیکن یہ سیاست میں نہیں ہونا چاہئے۔ اقبال اور قائد نے جس سیاست کو اپنایا اور جس کا درس دیا اس سیاست کو عبادت کا درجہ حاصل ہے اقبال کہتے ہیں‘ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘ جھوٹ فریب دھوکہ دہی سیاست نہیں سیاہ کاری و مکاری ہے۔ صدر کار عہدہ نہایت ذمہ داری کا متقاضی ہے۔ اپنی بلاجوازیوں کا جواز ثابت کرنے کیلئے نادانستگی میں بھی تاریخ کو گرد آلود نہ کیا جائے۔ صدر محترم نے فرمایا کہ قائداعظم گورنر جنرل کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کے صدر بھی رہے۔
صدر صاحب قائداعظم کا حوالہ دے کر بیک وقت صدر پاکستان اور پارٹی سربراہ‘ دو عہدے رکھنے کو جائز ثابت کر رہے ہیں۔ گویا باقی تمام کام بھی قائداعظم والے ہیں۔ اس لئے دو عہدے رکھنا بھی لازم ہے۔ اس سے پہلے صدر صاحب نے عابد شیر علی کے جعلی ڈگریوں کے اٹھائے ہوئے طوفان کے دوران یہ بھی فرمایا تھا کہ قائداعظم نان گریجوایٹ تھے۔ کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ ہم اکابرین امت اور قائدین ملت کی طرح کا بننے کی کوشش کریں۔ ہم اپنے مفاداتی جواز کو ثابت کرنے کیلئے مقدس ہستیوں کو کھینچ کر اپنے لیول تک لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاست میں قائدین کو اپنے جیسا ثابت کیا جا رہا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کی تعلیمی استعداد پر بدستور ایک غبار چھایا ہواہے لیکن ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر وہ گریجوایٹ بھی ہیں تو انہوں نے پیپر میز پر چاقو گَڈ کے یا پستول رکھ کے کتابیں کھول کر دئیے ہیں۔ میٹرک ایف اے تک قائداعظم کا تعلیمی کیرئیر بالکل واضح ہو جاتا ہے لنکزان سے حاصل کی گئی بیرسٹری کی ڈگری تو پوسٹ گریجوایشن کے برابر تھی۔ بیک وقت دو عہدے رکھنے جیسی قائداعظم سے بے اصولی کی توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے! قائداعظم نے 1948ءکو سربراہ مملکت ہونے کے باعث ساتھیوں کے بھرپور اصرار کے باوجود مسلم لیگ کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ تاریخ اوپر سے نازل ہو کر ازبر نہیں ہوتی اس کے مطالعہ کی ضرورت ہے۔ ہمارے ممدوح نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوتا یا نصابی سلیبس ہی غور سے پڑھا ہوتا تو قائد محترم پر دو عہدے رکھنے کا الزام نہ لگاتے۔
No comments:
Post a Comment