خواجہ ناظم الدین
اور محمد خان جونیجو کے ادوار وزارت عظمیٰ کے درمیان 33 سال کا فاصلہہے۔
اس دوران بہت کچھ بدلا۔ پاکستان کا جغرافیہ بدلا۔پاکستان کے حالات بدلے،
دارالحکومت بدلا وزیراعظم ہاﺅس کے چلن بدلے اور ہر نئے حکمران کے آنے سے
اقتدار کے ایوانوں کا کلچر بھی بدلتا رہا۔ توحید کا نعرہ اور تکبیر کی
صدائیں بلند ضرور ہوئیں تاہم طاقت کے ایوان زیادہ عرصہ مے خانے بنے رہے۔
خواجہ ناظم الدین اور محمد خان جونیجو کے ادوار میںسادگی قدر مشترک تھی۔
خواجہ ناظم الدین دوپہر کا کھانا اپنے گھر سے ٹفن میں دفتر لے جایا کرتے
تھے۔ محمد خان جونیجو کے 1986ءمیں وزیراعظم بنے تو انہوں نے وزیر اعظم ہاﺅس
میں پرتکلف کھانوں پر پابندی لگا دی۔ جونیجو صاحب نے دال روٹی کا رواج
ڈالا۔ عبدالقادر حسن کو وزیراعظم کی تقریر لکھنے کیلئے جب کبھی پرائم منسٹر
ہاﺅس جاناہوتا توملازمین کے چہر ے کھل اٹھتے کہ آج پر وزیر اعظم ہاﺅس میں
گوشت پکے گا۔ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اب بھی گھر سے ٹفن میں کھانا
اپنے ساتھ دفتر لے جاتے ہیں۔
وزیراعظم ہاﺅس میں اندھا دھند اخراجات کی
بدعت محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف میں سے ایک نے ڈالی دوسرے نے اس میں
شدت پیدا کی۔ انکے بعد آنے والے وزرائے اعظم جمالی، شوکت عزیز اور گیلانی و
راجہ نے اپنے ایمان کا حصہ بنا کر اسے برقرار رکھا۔ آسائشوں اور پکوانوںکے
حوالے سے وزیراعظم ہاﺅس فائیو سٹار ہوٹل کا روپ دھار چکا۔ آج وزیر اعظم
ہاﺅس کے روزانہ اخراجات 20لاکھ روپے ہیں۔ایوانِ صدر کے دولاکھ کم۔یوں تو
بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے اپنے اپنے ادوار میں سادگی مہم کا بڑے
جوش سے آغاز کیا لیکن یہ ڈر امہ کہ ایک آدھ قسط سے زیادہ جاری نہ رہ سکا۔
محمد خان جونیجو نے بڑی گاڑیوں کا استعما ل بشمول جنرل ضیاءالحق سب کیلئے
ممنوع قرار دیا۔
میاں محمد نواز شریف کو جن حالات میں اقتدار مل رہا ہے
وہ مثالی اور قابل رشک نہیں ہیں۔ جانے والوں نے گتھی ایسی الجھائی ہے کہ
سلجھانے کیلئے الجھانے والوں سے زیادہ دانش اور محنت کی متقاضی ہے۔
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بہت سوچ سے الجھائی ہے
میاں
نواز شریف کو مسائل زدہ پاکستان ضرور ملا ہے تاہم اس طرح کا اجڑا ہوا نہیں
جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کو ملا تھا۔ پاکستان کو اجاڑنے میں جتنا بھٹو
صاحب کا نام آتا ہے اتنا ہی میاں صاحب کا گزشتہ 5 سال میں اسے مسائل زدہ
کرنے میں بھی آتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ مرکز میں حکومت میں شامل ہونا،
پنجاب میں ساڑھے تین سال پیپلز پارٹی کو اپنے ساتھ رکھنا، فرینڈلی اپوزیشن
کا مبینہ کردار، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ پر ایسی بیان بازی جیسی سابق
حکومت ڈرون حملوں پر کرتی رہی۔ خواجہ آصف تقرریوں اور تبادلوں کے خلاف
سپریم کورٹ گئے۔ نگرانوں نے بجلی مہنگی کی۔ جی ایس ٹی میں اضافہ کیا۔ نگران
وزیر پانی و بجلی محمد مصدق کی لوڈشیڈنگ کم کرنے کی اچھل کود 21 مئی کو
رائے ونڈ یاترا کے بعد ختم ہو گئی۔وہ 24 مئی کو شہباز شریف سے بھی ملے
۔ایسی ملاقاتیں شکوک پیدا کرتی ہیں کہ لود شیڈنگ کا عذاب کسی اشارے پر مسلط
کیا جارہا ہے ۔
نگران حکمران اور بیوروکریٹس متوقع حکمرانوں کے ساتھ
اپنی لائن سیدھی کرنےکیلئے کوشاں ہیں۔ کوئی سرآئینہ اپنی وفاداری کا اظہار
کر رہا ہے توپسِ آئینہ۔ یہ رویے ہمارے سیاسی کلچر کااٹوٹ حصہ بن چکے ہیں۔
یہ وبا ہر طبقے اور حلقے میں پھیل چکی ہے۔ جن کے قلم کی نوک پہلے ہی قصیدے
اگلتی تھی جیت کے نتائج کے بعد انکے انگ انگ میں بجلیاں کوند رہی ہیں۔ قوال
اور رقاصہ نوٹ نچھاور ہونے پر جس طرح بے خودہوتے ہیں۔ یہی حال وفا کے پتلے
قلمکاروں کا ہے جو دام کھرے کرتے رہے اب ہل من مزید کی بے پایاں تمناﺅں کے
محلات تعمیر کئے ہوئے ہیں ۔ان کیلئے ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی منزل کا رخ
متعین کرنےوالا روائتی طبقہ خطرہ بن رہا ہے۔یہ لوگ کل تک شریف زادوں کی
شخصیت ،پالیسیوںاور منشورپر تنقید کرتے نظر آتے تھے ‘انکی مقبولیت کو اوجِ
ثریا پر دیکھ کرہاتھوں میں پکڑی کنکریوں پر عظیم لیڈر،مدبر سیاستدان
،لاجواب قیادت اورقائدثانی کا ورد جاری ہوگیا۔ یہ فنکارخود کو غلامی کا
خوگر اورحکمرانوں کو سلطانی کا پیکر ثابت کرنے کےلئے قلم کے جوہر نثر ونظم
اور قصیدہ وہجو کی صورت میں دکھا رہے ہیں۔ گو میاں صاحب کو مسائل کے بھنور
میں پھنسا پاکستان ملا ہے لیکن آج بھی وسائل مسائل سے کہیں زیادہ ہیں۔ آپ
کے پاس متفقہ اور ترامیم سے ری فائن شدہ آئین اور تمام ادارے موجود ہیں۔
خلوص اور نیک نیتی شامل حال رہی تو میاں صاحب یقینا ملک کو بحرانوں کی دلدل
سے نکال لیں گے۔ ویسے ان کو اپنی مدت پوری کرنے کی عادت نہیں یا عرصہ پورا
کرنا قسمت میں نہیں تھا۔ بطور وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم وہ کوئی بھی آئینی
مدت پوری نہ کر سکے۔ نہ جانے دو سال بعد وہ حکمرانی کی یکسانیت کا شکار
ہوجاتے ہیںیا حریفوں کو وار کرنے کا موقع مل جاتا ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ
ان کوآئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملتا تو آخری دو، دو سال میں ایسے ہی کام
کرتے جیسے شہباز شریف نے کرکے ن لیگ کی کامیابی کی راہ ہموار کی ہے۔اب یہ
اہتمام خالصتاً انکی صوابدید پرہے۔ اب میاں صاحب اپنے پہلے دو سال کو آخری
سمجھ کر جانفشانی سے کام کریں تو اگلے تین سال انکی مزید پانچ سال کی
کامیابی کی راہ ہموار کر لیں گے۔سادگی کو شعار بنایا تو کامیابیوں کے در
کھلتے چلے جائینگے۔
وزیراعظم ہاﺅس میں سادگی تو ایک علامت ہے۔ یہ ہر
شعبہ زندگی میں نظر آئے تو سادگی کہلائے گی۔ قوم بے جااندرونی اور بیرونی
دوروں سے اجتناب کی امید رکھتی ہے جن پر سالانہ چھ ارب روپے لٹائے جاتے
ہیں۔ لازم نہیں کہ وہ ویک اینڈ جاتی عمرہ تشریف لے جائیں۔عمرہ پر جی
حضوریوں کی فوج کی کیا ضرورت ،کمرشل فلائٹ میں سرور پیلس کے ہم نشیں خاندان
کے افراد کو ساتھ لے جاکر پروردگار کا شکر ادا کریں۔
مسلم لیگ ن کے
تمام امیدواروں نے کھل کر انتخابی مہم چلائی۔ ان میں سے وزیر بننے والے
اپنی ٹرانسپورٹ استعمال کریں تو قوم پر احسان ہوگا۔ بلٹ پروف گاڑی کلچربھی
قومی دولت کا ضیاع ہے۔ کوئی بحران لاینحل نہیں۔ ٹیکس چوری، قرضہ خوری کے
راستے بند کر دئیے جائیں تو 5سو ارب روپے کے گردشی قرضے برسات میںگرد کی
طرح معدوم ہو جائیں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہر وزیر خواجہ ناظم الدین اور
احمدی نژاد کی طرح اپنا اور اپنے ساتھیوں کا کھانا گھرسے لے کر آئے۔
میاں
نواز شریف نے فرمایا تھا کہ وہ عوام میں سے ہیں عوام میں ہی رہیں گے۔ عوام
لوڈشیڈنگ کے عذاب اور گرمی کے عتاب سے نڈھال ہیں۔ ایسے حالات اور موسم میں
انہوں نے حلف برداری کی تقریب کیلئے شیروانی سلوائی ہے ۔قمیض بردوش بنیان
پوش لوگ میاں نواز شریف کو شیروانی میں دیکھ کر جھرجھری ضرور لیں گے
حالانکہ میاں صاحب کو شاید شیروانی میں بھی ٹھنڈ لگ رہی ہوگی۔وہ لوگ جو
میاں صاحب کے کان اور آنکھیں ہیں، انہیں گرمی کی حدت اور شدت یاد دلائیں۔
میاں صاحب حلف کے روز اگر عوامی لباس شلوار قمیض اور واسکٹ کے ساتھ زیب تن
فرما لیںتو عوام کو اچھا لگے گا اور انہیں احساس ہوگا کہ میاں صاحب ان
جیسےہیں۔شیروانی سردیوں میں قوم سے خطاب یا تقریبات میں پہنی جا سکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment