”جہاز میں بٹھا کر افسر نے جوان کوحکم دیا کہ وہ مجھے ہتھ کڑی لگائے تو میں نے دونوں ہاتھ آگے کردئیے ۔جوان ہتھ کڑی لگانے کے لئے جھکاتو میرے ہاتھ کی پشت پر پانی کا ایک قطرہ گرا۔اس کے ساتھ ہی وہ جوان سیدھا کھڑا ہوگیا۔اس کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں۔ میرے ہاتھ پر گرنے والا قطرہ اس کا ایک آنسو تھا۔جوان ہتھکڑی لگانے میں تذبذب کا شکار تھا ۔ میںنے اسے سختی سے اپنا فرض ادا کرنے کو کہالیکن وہ ہتھ کڑی اپنے ساتھی کے حوالے کر کے پیچھے ہٹ گیا۔اس کے بعد ہتھکڑی لگے میرے ہاتھ جہاز کی سیٹ کے ساتھ باندھ دیئے گئے اور جہازنے منزل کی طرف اُڑان بھر لی ۔منزل کراچی تھی۔ مجھے اٹک جیل سے بکتر بند گاڑی میںکامرہ فوجی اڈے پر لا کے فوکر میں بٹھایا گیا جو پانچ گھنٹے میں کراچی پہنچا ۔اس دوران واش روم جانے کی بھی اجازت نہ دی گئی“میاں نواز شریف بڑی معصومیت اور دکھ بھرے لہجے میں اپنی داستان ِ غم و ا لم بیان کرتے ہیں کہ سننے والے کادل پسیج اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
میاں محمد نواز شریف نوّے میں اقتدار میں لائے گئے اور 1997ءمیں زبردست عوامی حمایت سے اقتدار میں آئے۔ان کے دونوں ادوار تدبر سے زیادہ تکبر اور تحمل سے زیادہ انتقام و جذبات سے معمور تھے ۔مقابل محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں۔دونوں اپنے اپنے ادوار میں ایک دوسرے کو بدترین انتقام کا نشانہ بناتے رہے۔بجا طور پر یہ نفرتوں کے دس گیارہ سال تھے۔بے نظیر بھٹو کی سیاست اور شہرت کو ان کے شوہر نامدار کی کرپشن نے عوجِ ثریا سے زمیں پر دے مارا۔محترمہ، محترم کے ارادوں اور وارداتوں سے بے خبر نہیں تھیں۔جوڑے پر کرپشن کے الزامات لگا کر ان کے اپنے صدر فاروق خان لغاری نے حکومت ختم کردی۔3فروری 97 ءکے انتخابات میں میاں نواز شریف بھاری اکثریت سے جیتے۔ایسی اکثریت کسی کو بھی کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ میاں صاحب بھٹو صاحب سے بھی زیادہ مقبول ثابت ہوئے تاہم وہ جلد ہی اپنی مقبولیت کے بوجھ تلے دب گئے۔حریف کوئی دیانت دار تو نہیںتھے مگر ان کے خلاف کارروا ئی جس دیانت کی متقاضی تھی وہ بھی مفقود تھی۔سیاسی حریفوں کے ساتھ محاذ آرائی تو تھی ہی فوج اور عدلیہ کے سامنے بھی خم ٹھونک کر حکومت کھڑی ہوگئی۔سپریم کورٹ پر باقائدہ حملہ کیا گیا۔جرنیلوں کے ساتھ رویہ تضحیک آمیز تھا۔جنرل جہانگیر کرامت کی معمولی بیان پر چھٹی کرادی گئی۔نئی تعیناتی میرٹ سے ہٹ کر کی گئی۔مشرف کاپیشہ ورانہ کارکردگی کے باعث تو کورٹ مارشل ہوجانا چاہیے تھا ۔نواز شریف نے انہیں آرمی چیف لگا دیا۔یہی حال دوسری تعیناتیوں کا تھا۔بے نظیر کو سزا سنانے کے لئے ججوں کومشوروں کی ٹیپ سامنے آئی۔جس پر جسٹس ملک قیوم اور راشد عزیز کو استعفیٰ دینا پڑا۔اس دور کا سرکاری افسروں کو ہتھکڑیاں لگانے کو واقعہ بڑا مشہور ہوا۔
فیصل آباد میں میاں برادران کے عزیزوں کی چودھراہٹ ہے جو سیاست میں بھی ایک مقام رکھتے ہیں۔ فیصل آباد جیسے شہر میں ایک نہیں کئی چودھری ہیں۔ ہر ایک کو دوسرے کی چودھراہٹ چبھتی ہے۔ ایسے شہر کی بیوروکریسی کو تو گویا تنی ہوئی رسی پر چلنا پڑتا ہے۔ شریف زادوں کے عزیزوں کی افسران سے شکایات کیوں نہ ہوتیں۔ وزیراعظم کے رشتہ داروں کی جو نہ سنے وہ افسر بھی رہے، کہاں لکھا ہے۔
بڑے چوہدری کا فیصل آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کچھ افسروں کے ساتھ تنازعہ تھا۔انہوںنے افسروں کی وزیراعظم سے شکایت کر دی۔ میاں نواز شریف مارچ 1997ءکو فیصل آباد گئے۔ ایف ڈی اے کے افسروں کو کھلی کچہری میں بلوا لیا۔ اشفاق بھٹی ‘ عبدالحلیم اور طاہر رضا بخاری کو ان کو سنے بغیر ہتھکڑی لگانے کا حکم دے دیا۔یہ لوگ پانچ ماہ جیل میں رہے ۔
اپنی کارکردگی کے باعث دوتہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کرنے والی مسلم لیگ کی مقبولیت محض اڑھائی سال میں بے نظیر کی حکومت کی طرح عوجِ ثریا سے زمین کی پستی پر آگئی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مشرف نے جمہوری حکومت پر شب خون مارا تو پورے پاکستان میں نواز لیگ کی صفوں میں مکمل سکوت تھا ۔ کسی کی آنکھ سے آنسو تو کیا ٹپکتا کوئی احتجاج اور مظاہرہ بھی نہیں ہوا۔2002ءکے انتخابات میں مسلم لیگ ن ،ق لیگ کے پیرہن میں ملبوس پائی گئی اور یہی اکثریتی پارٹی ٹھہری۔2013ءکے انتخابات گو رفتہ رفتہ دھاندلی کا شاہکار ثابت ہورہے ہیں لیکن ان میں جھرلو نہیں چلا۔عوام نے مسلم ن کو مینڈیٹ دیا ۔یہ مقابلہ کرپشن اور کارکردگی کے درمیان تھا۔مرکز والوں کی واضح ،میگا اور اعلیٰ سطح کی کرپشن پر ن لیگ کی پنجاب میں معمولی کارکردگی بھاری پڑگئی۔
مسلم لیگ اب اقتدار کی دہلیز پر ہے۔اسے کسی پارٹی کی حمایت کی ضرورت ہے نہ وہ اقتدار میں آنے کے کسی کی احسان مند ہے سوائے ان لوگوں نے جنہوں نے ووٹ دیئے۔اقتدار کا سرچشمہ یقیناً عوام ہی ہیں اور یہ سرچشمہ ووٹ دینے کے بعد بے سرو چشم ہو جاتا ہے پھر موقع ملنے پر دھتکارنے والوں سے انتقام بھی لیتا ہے۔ زرداری صاحب اپنی اہلیہ مرحومہ کے قول کا درست حوالہ دیتے ہیں کہ ”جمہوریت بہترین انتقام ہے۔“ مئی 2013 کے انتخابات میں عوام نے ثابت کر دیا کہ جمہوریت واقعی بہترین انتقام ہے جس کا نشانہ پیپلزپارٹی بنی۔ میاں نوازشریف نے بہت گرم و سرد دیکھ لیا۔ جرنیلوں کے انتقام کا نشانہ بنے، جیل گئے، جلاوطنی بھگتی اور جان دا ¶ پر لگی نظر آئی۔ شاید اس سب سے سبق سیکھ لیا ہو۔ البتہ ان کے قریبی لوگ کہتے ہیں کہ لیگی قائدین کی گردن میں پہلے سریا تھا اب گاڈر آ گیا ہے۔ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں انہیں اپنے مسائل کے حل سے سروکار ہے وہ میرٹ کی کارفرمائی کے متمنی ہیں۔باری کا دور گزر گیا۔ 11 مئی کو ہر گھر سے بھٹو نکلا۔ بلے اور شیر پر ٹھپہ لگایا اور بھٹو کو دل سے بھی نکال کر گھر واپس آ گیا۔ اس عمل اور مکافاتِ عمل کا پی ٹی آئی کی اُٹھان کے بعد کوئی بھی شکار ہو سکتا ہے۔
نواز لیگ کی قیادت کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔ ہر اقدام سے پہلے کئی بار سوچنا ہوگا۔ من موہن سنگھ کو دعوت بلا سوچے سمجھے دے دی گئی۔ بھارت کے حوالے سے مسلم لیگی ورکر اور ووٹر میاں صاحب کی سوچ سے متفق نہیں ۔ اس حوالے سے ”سیفما“ سے نہ پوچھیں اپنے ایم این ایز، ایم پی ایز کی رائے لیں۔ کاروباری ذہن سے نہیں نظریاتی ذہن سے سوچیں۔ میرٹ کو اصول بنائے رکھا تو عوام انعام دیں گے، انتقام نہیں لیں گے۔ مشاورت کامیابیوں کا زینہ ہے جو پسندیدہ عمل نہیں رہا۔ چودھری نثار کے سوا بھی پارٹی میں زرخیز دماغ موجود ہیں۔ میرٹ سے ہٹ کر تعیناتی بھٹو کو پھانسی کے پھندے اور میاں صاحب کو موت کی دہلیز پر لے گئی۔ میرٹ کا خون کر کے چپڑاسی سے چیف سیکرٹری تک جس کا بھی حق مارا جاتا ہے اس کی آنکھ سے آنسو ہی نہیں گرتا بلکہ دل کٹتا، خون ٹپکتا اور آہ نکلتی ہے جو عرش تک جاتی ہے ۔ پھر مکافاتِ عمل، جاہ سے جیل اور جلاوطنی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ آرمی چیف، چیف جسٹس اور جوائنٹ چیفس کے سربراہ کی تقرری اسی سال میاں صاحب نے کرنی ہے ۔ کابینہ تشکیل دینی اور کئی اداروں کے سربراہوں کا تقرری ہونا ہے۔ میرٹ پروفیشنل ازم اور دیانت معیارر ہے تو کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا۔ سفیروں کو بدلنے کی ضرورت نہیں جو سرکشی نہیں کرتا وہ سفیر رہے۔ اگر سفیر بدلنے ہی ہیں تو متعلقہ اداروں اور شعبوں سے لیں۔ اگر ان سروسز میں موجود سارے لوگ مر جائیں تو بھی میرٹ کا تقاضا ہے کہ”میراثی کا پُتر“ اس عہدے پر نہ آئے۔ ضروری نہیں کہ وہی و زیر بنانے ہیں جو مالش کرتے اور جوتیاں اٹھاتے ہیں۔ منتخب ہونے والوں میں اہل ترین لوگوں کو تلاش کریں۔
No comments:
Post a Comment