تیسری آنکھ
امام غزالی کہتے ہیں کہ آنکھ دیوار کی دوسری طرف نہیں دیکھ سکتی۔ دنیا نے بڑی ترقی کر لی‘ رات کو اندھیرے میں دیکھنے والی عینک بھی ایجاد ہو گئی گھر بیٹھے پوری دنیا کو آلات کے ذریعے تو دیکھا جا سکتا ہے لیکن دیوار کے پار انسانی آنکھ دیکھنے سے قاصر ہے۔ ایسی آنکھ تراشنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہم یہ تو چاہیں گے کہ ہمارے پاس دیوار کے پار دیکھنے کی قوت تو ہو لیکن پڑوسی کے پاس نہ ہو۔ پڑوسی کی بھی یہی خواہش ہو گی۔ خالق کائنات نے البتہ کچھ لوگوں کو یہ قوت ضرور عطا کردی کہ دیوار کے پار تو کیا‘کائنات کی وسعتوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ گویا پوری کائنات ان کی ہتھیلی پر ہے۔ ہمارے ایک جاننے والے بازو اکڑا کر، سوالی کی طرح ہاتھ پھیلا کر دعویٰ کیا کرتے تھے کہ پوری کائنات ان کی ہتھیلی پر ہے لیکن دن میں کئی بار دوسروں سے پوچھتے میں نے قلم یہاں رکھا تھا، لائٹر کدھر گیا؟ موبائل نہیں مل رہا۔ تسبیح گم ہو گئی۔
زندگی کے تجربات‘ قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی حسیات‘ بصیرت‘ بصارت ادراک و انہماک اور مطالعہ و مشاہدہ کی بنا پر کچھ لوگ مستقبل بینی پر اتھارٹی بن جاتے ہیں۔ ان کی اس صلاحیت کو تیسری آنکھ کا نام دیا جاتا ہے۔ ویسے ہر آدمی کے پاس بھی تیسری آنکھ ہے جس سے وہ مستقبل میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہے۔
آج انتخابی مہم عروج پر ہے۔ اس دوران جو ہوتا رہا ہے اور جو ہونا چاہئے وہی ہو رہا ہے۔ انتخابی مہم تو انہی آنکھوں سے ملاحظہ کی جا رہی ہے۔ انتخابی نتائج کو لوگ اپنی اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ۔ کسی پر بھی تیسری آنکھ کے استعمال کی پابندی نہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی تیسری آنکھ انتخابات کے بعد دھاندلی دھاندلی کے شور کی کوکھ سے جنم لینے والا خون خرابہ دیکھ رہی ہے۔ کئی کی تیسری آنکھ کو الیکشن ہوتے ہی دکھائی نہیں دے رہے۔
کامیابی کے لئے ہر امیدوار‘ اس کے سپورٹر اور پارٹی قائدین نے دن رات ایک کردیا ہے۔ چند ایک ناخوشگوار واقعات کے علاوہ انتخابی مہم عروج پر ہے۔ ہر سو گہما گہمی اور ہنگامہ خیزی ہے۔ نواز لیگ‘ پی پی پی اور پی ٹی آئی اپنی اپنی جگہ صفایا کرنے کی دعویدار ہیں۔ ان کے سپورٹر زکی تیسری آنکھ اپنی اپنی پارٹی کی طرف سے کیا گیا صفایا اور دوسری پارٹیوں کی صفائی دیکھ رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) اپنی کارکردگی سے زیادہ پیپلز پارٹی کی کارکردگی کو اپنی کامیابی کی ضمانت سمجھ رہی تھی۔ اس کی تیسری آنکھ اسے دو تہائی اکثریت سے ہمکنار ہوتا دکھا رہی تھی کہ اس دوران عمران خان نے دونوں کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھ دی۔ عمران خان کبھی سٹیک ہولڈر نہیں رہے۔ ان کی کارکردگی تو زیر بحث نہیں آسکتی اس لئے حریف جو عمومی طور پر شریف ہیں ان کے کردار کی بات کرتے ہیں لیکن موجودہ انتخابی مہم کا خاصااورطرہ ¿امتیاز یہ رہا کہ کوئی بھی پارٹی کسی کی کردار کشی نہیں کر رہی۔ کردار کشی کا مطلب سمجھنا ہے تو 1988ءسے 1997ءکی انتخابی مہمات کا جائزہ لیں اور کچھ نظر 2002ءکے انتخابات پر بھی ڈال لیں۔ 2002ءکے انتخابات میں عمران خان کے خلاف بے ہودگی زوروں پر تھی۔ اس سے قبل کے انتخابات میں بھٹو خاندان پر غلاظت اور جوابی غلاظت ایک ناقابل بیان داستان ہے۔ ایسی ایسی تصاویر جاری کی جاتیں کہ مہذب اخبارات چھاپنے پر تیار نہ ہوتے۔ اپنا قبلہ بدل کر پیپلزپارٹی میں شامل ہونے والے میمو سکینڈل فیم حسین حقانی اس ” شاندار“ کلچر کے تخلیق کار تھے۔آج کے سب بڑے مظلوم سیاسی مسکین شیخ رشید کی اسمبلی کے اندر اور باہر ذو معنی فقرہ بازی اوباشوں کی دلربائی سے اور اکثریت کی دل آزاری کا باعث بنتی تھی،اب شائد وہ اور جن کو خوش کیا کرتے تھے سدھر گئے ہونگے۔ پیپلز پارٹی نے شاید اب حقانی صاحب کی خدمات سے استفادہ نہیں کیا‘ اس لئے پیپلز پارٹی کی مہم تہذیب اور اخلاقیات کے دائرے میں ہے۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی بھی حدود سے باہر نہیں نکلیں البتہ مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کو ووٹ دینے کو حرام قرار دینے کے فتوے کو مشتہر ضرور کیا ہے۔ دیکھئے اس سے ایکسپوز کون ہوتا ہے۔ عمران خان یا مسرت خان؟ نوائے وقت کے قاری صفدر اقبال اسلم گوندل انتخابی مہم سے بڑے پریشان نظر آتے ہیں‘ جو دراصل بہت سے پاکستانیوں کی پریشانی ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے مد مقابل انسانی سمگلروں، وسائل لوٹنے ہی ہیں۔کتنا اچھا ہو کہ ایسے لوگ منتخب ہوں جو جائیداد وںمیں اضافہ نہ کریں۔ کیا کیا جائے اگر ووٹر کی تیسری آنکھ کا تارا یہی لوگ ہوں۔
انتخابی مہم کے دوران ہلکی پھلکی موسیقی چل رہی ہے۔ عمران خان شریف زادوں پر برس رہے ہیں جواب میں اینٹ کا جواب پتھر سے ملتا ہے۔ پی پی اور ق لیگ کا نشانہ بھی ن لیگ ہے۔ دونوں بھائیوں کو ان کو بھی جواب دینا ہوتا ہے۔ انتخابی مہم کو پی ٹی آئی اور ن لیگ کے جلسوں نے گرمایا تو پیپلز پارٹی اشتہاری مہم میں سب سے آگے ہے۔ ن لیگ اس مہم سے زچ اور فائدہ تحریک انصاف کو پہنچ رہا ہے۔رحمٰن ملک کے اس مہم میں کودنے سے معاملات کے کردار کشی کی طرف جانے کا خدشہ ہے۔ عمومی اور عوامی رائے مسلم لیگ ن کی حکومت بنتی دیکھ رہی ہے وہ سادہ اکثریت سے ہو یا مخلوط ،کچھ جج، جرنیل، جرنلسٹ اور جنٹلمین اپنی تیسری آنکھ سے ن لیگ کی حکومت بنتی دیکھ کر اپنے کردار ،اعمال، قلم اور فیصلوں سے اپنی لائن سیدھی کررہے ہیں۔
کچھ لوگوں کو انتخابی مہم میں غیرشائستگی نظر آرہی ہے۔اگر اجتماعی طور پر ایسا کہا جائے تو اس کا کچھ نہ کچھ جواز بنتا ہے لیکن ہر پارٹی کے دانشورکو تیسری آنکھ سے اپنی پسند کی پارٹی کی قیادت پارسا اور دوسرے غیر مہذب نظر آتے ہیں۔ پارٹی قائدین حسب توفیق اپنے حریفوں پر برس رہے ہیں ۔ ان کی جملہ بازی”شیر کو بلے سے پھینٹا لگائیں گے۔۔۔ عمران کہتے ہیں اوپر اللہ نیچے بلا،عمران تو سن لے 11مئی کے بعد تو کلا ای کلا ہوگا۔۔۔مداری اناڑی شکاری کچھ نہیں کریں گے“ کو لوگ انجوئے کرتے ہیں۔دانشوروں کی تیسری آنکھ کا کیا جائے جس کے باعث معاشرے میں نفرت پھیل رہی ہے ۔ ملک میں بھائی چارے وہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے ،تعصب سے بالا تر ہونے اور غیرجانبداری کا دامن تھامے رکھنے کے لئے بہتر ہے کہ یہ دانشوران کرام کسی سرجن سے اپنی تیسری آنکھ کا علاج کرالیں۔
زندگی کے تجربات‘ قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی حسیات‘ بصیرت‘ بصارت ادراک و انہماک اور مطالعہ و مشاہدہ کی بنا پر کچھ لوگ مستقبل بینی پر اتھارٹی بن جاتے ہیں۔ ان کی اس صلاحیت کو تیسری آنکھ کا نام دیا جاتا ہے۔ ویسے ہر آدمی کے پاس بھی تیسری آنکھ ہے جس سے وہ مستقبل میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہے۔
آج انتخابی مہم عروج پر ہے۔ اس دوران جو ہوتا رہا ہے اور جو ہونا چاہئے وہی ہو رہا ہے۔ انتخابی مہم تو انہی آنکھوں سے ملاحظہ کی جا رہی ہے۔ انتخابی نتائج کو لوگ اپنی اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ۔ کسی پر بھی تیسری آنکھ کے استعمال کی پابندی نہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی تیسری آنکھ انتخابات کے بعد دھاندلی دھاندلی کے شور کی کوکھ سے جنم لینے والا خون خرابہ دیکھ رہی ہے۔ کئی کی تیسری آنکھ کو الیکشن ہوتے ہی دکھائی نہیں دے رہے۔
کامیابی کے لئے ہر امیدوار‘ اس کے سپورٹر اور پارٹی قائدین نے دن رات ایک کردیا ہے۔ چند ایک ناخوشگوار واقعات کے علاوہ انتخابی مہم عروج پر ہے۔ ہر سو گہما گہمی اور ہنگامہ خیزی ہے۔ نواز لیگ‘ پی پی پی اور پی ٹی آئی اپنی اپنی جگہ صفایا کرنے کی دعویدار ہیں۔ ان کے سپورٹر زکی تیسری آنکھ اپنی اپنی پارٹی کی طرف سے کیا گیا صفایا اور دوسری پارٹیوں کی صفائی دیکھ رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) اپنی کارکردگی سے زیادہ پیپلز پارٹی کی کارکردگی کو اپنی کامیابی کی ضمانت سمجھ رہی تھی۔ اس کی تیسری آنکھ اسے دو تہائی اکثریت سے ہمکنار ہوتا دکھا رہی تھی کہ اس دوران عمران خان نے دونوں کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھ دی۔ عمران خان کبھی سٹیک ہولڈر نہیں رہے۔ ان کی کارکردگی تو زیر بحث نہیں آسکتی اس لئے حریف جو عمومی طور پر شریف ہیں ان کے کردار کی بات کرتے ہیں لیکن موجودہ انتخابی مہم کا خاصااورطرہ ¿امتیاز یہ رہا کہ کوئی بھی پارٹی کسی کی کردار کشی نہیں کر رہی۔ کردار کشی کا مطلب سمجھنا ہے تو 1988ءسے 1997ءکی انتخابی مہمات کا جائزہ لیں اور کچھ نظر 2002ءکے انتخابات پر بھی ڈال لیں۔ 2002ءکے انتخابات میں عمران خان کے خلاف بے ہودگی زوروں پر تھی۔ اس سے قبل کے انتخابات میں بھٹو خاندان پر غلاظت اور جوابی غلاظت ایک ناقابل بیان داستان ہے۔ ایسی ایسی تصاویر جاری کی جاتیں کہ مہذب اخبارات چھاپنے پر تیار نہ ہوتے۔ اپنا قبلہ بدل کر پیپلزپارٹی میں شامل ہونے والے میمو سکینڈل فیم حسین حقانی اس ” شاندار“ کلچر کے تخلیق کار تھے۔آج کے سب بڑے مظلوم سیاسی مسکین شیخ رشید کی اسمبلی کے اندر اور باہر ذو معنی فقرہ بازی اوباشوں کی دلربائی سے اور اکثریت کی دل آزاری کا باعث بنتی تھی،اب شائد وہ اور جن کو خوش کیا کرتے تھے سدھر گئے ہونگے۔ پیپلز پارٹی نے شاید اب حقانی صاحب کی خدمات سے استفادہ نہیں کیا‘ اس لئے پیپلز پارٹی کی مہم تہذیب اور اخلاقیات کے دائرے میں ہے۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی بھی حدود سے باہر نہیں نکلیں البتہ مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کو ووٹ دینے کو حرام قرار دینے کے فتوے کو مشتہر ضرور کیا ہے۔ دیکھئے اس سے ایکسپوز کون ہوتا ہے۔ عمران خان یا مسرت خان؟ نوائے وقت کے قاری صفدر اقبال اسلم گوندل انتخابی مہم سے بڑے پریشان نظر آتے ہیں‘ جو دراصل بہت سے پاکستانیوں کی پریشانی ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے مد مقابل انسانی سمگلروں، وسائل لوٹنے ہی ہیں۔کتنا اچھا ہو کہ ایسے لوگ منتخب ہوں جو جائیداد وںمیں اضافہ نہ کریں۔ کیا کیا جائے اگر ووٹر کی تیسری آنکھ کا تارا یہی لوگ ہوں۔
انتخابی مہم کے دوران ہلکی پھلکی موسیقی چل رہی ہے۔ عمران خان شریف زادوں پر برس رہے ہیں جواب میں اینٹ کا جواب پتھر سے ملتا ہے۔ پی پی اور ق لیگ کا نشانہ بھی ن لیگ ہے۔ دونوں بھائیوں کو ان کو بھی جواب دینا ہوتا ہے۔ انتخابی مہم کو پی ٹی آئی اور ن لیگ کے جلسوں نے گرمایا تو پیپلز پارٹی اشتہاری مہم میں سب سے آگے ہے۔ ن لیگ اس مہم سے زچ اور فائدہ تحریک انصاف کو پہنچ رہا ہے۔رحمٰن ملک کے اس مہم میں کودنے سے معاملات کے کردار کشی کی طرف جانے کا خدشہ ہے۔ عمومی اور عوامی رائے مسلم لیگ ن کی حکومت بنتی دیکھ رہی ہے وہ سادہ اکثریت سے ہو یا مخلوط ،کچھ جج، جرنیل، جرنلسٹ اور جنٹلمین اپنی تیسری آنکھ سے ن لیگ کی حکومت بنتی دیکھ کر اپنے کردار ،اعمال، قلم اور فیصلوں سے اپنی لائن سیدھی کررہے ہیں۔
کچھ لوگوں کو انتخابی مہم میں غیرشائستگی نظر آرہی ہے۔اگر اجتماعی طور پر ایسا کہا جائے تو اس کا کچھ نہ کچھ جواز بنتا ہے لیکن ہر پارٹی کے دانشورکو تیسری آنکھ سے اپنی پسند کی پارٹی کی قیادت پارسا اور دوسرے غیر مہذب نظر آتے ہیں۔ پارٹی قائدین حسب توفیق اپنے حریفوں پر برس رہے ہیں ۔ ان کی جملہ بازی”شیر کو بلے سے پھینٹا لگائیں گے۔۔۔ عمران کہتے ہیں اوپر اللہ نیچے بلا،عمران تو سن لے 11مئی کے بعد تو کلا ای کلا ہوگا۔۔۔مداری اناڑی شکاری کچھ نہیں کریں گے“ کو لوگ انجوئے کرتے ہیں۔دانشوروں کی تیسری آنکھ کا کیا جائے جس کے باعث معاشرے میں نفرت پھیل رہی ہے ۔ ملک میں بھائی چارے وہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے ،تعصب سے بالا تر ہونے اور غیرجانبداری کا دامن تھامے رکھنے کے لئے بہتر ہے کہ یہ دانشوران کرام کسی سرجن سے اپنی تیسری آنکھ کا علاج کرالیں۔
No comments:
Post a Comment