”ایک اور شہادت سر پر آپہنچی ہے “ سیاست پر گفتگو کرتے ہوئے اچانک یہ کہہ کرمہمان نے میرے پاﺅں تلے سے جیسے زمین کھینچ لی۔ ” خدا نہ کرے ایسا کچھ ہو“ میں نے حیرانگی سے انکی طرف اپنی پوری توجہ مبذول کرتے ہوئے کہا.... ”اسے انہونی کہیں یا ہونی، اب ایسا ہوتا نظر آرہا ہے۔ 5 سے دس مئی کے درمیان پاکستان کی سیاست میں ایک قیامت ٹوٹنے والی ہے۔ میں نے اپنی تمام مصروفیات ان پانچ دن کیلئے ترک کردی ہے۔ مائنس ون فارمولے پر عمل ہونے جارہا ہے۔ یہ وہی فارمولا ہے جو 1998 میں تخلیق ہوا جس پر 2007ءمیں آدھا عمل ہوا، اسکی تکمیل اب ہوگی “میرے دوست جن سے تعلق گہرا تو نہیں دیرینہ اور بے لوث ضرور ہے بغیر فل سٹاپ کے بولے جارہے تھے جیسے ان کو سب کچھ ایک ہی سانس میں کہہ ڈالنے کی جلدی ہو اور میں حیرانی اور پریشانی کے سمندر میں ڈوبتا چلا جارہا تھا۔ میں جس مائنس ون فارمولے کو جانتا ہوں وہ ججوں کی نظر بندی کے دوران سامنے آیا تھا جس کے مطابق صدر مشرف اور انکے رفقاءجسٹس افتخار محمد چودھری کو مائنس کرکے باقی ججوں کی بحالی پر رضا مند تھے۔ یہ رفقا تو محض شو، شا ءہی تھے۔ بغیر مشورے کے فیصلے مشرف صاحب ہی صادر کیا کرتے تھے ‘جو اب نشانِ عبرت بنے ہوئے ہیں،انہیں جیل حکام بھی قبول کرنے پر تیار نہیں کہ قیدی ان کا سربجیت عرف سرفراز والا حال نہ کردیں،سربجیت نے اسلام قبول کر کے اپنا نام سرفراز رکھ لیا تھا،جناح ہسپتال میں علاج کیلئے اسے سرفراز کے نام سے ہی داخل کیاگیااور اسکی موت کے بعد اسی نام سے میت واپس کی گئی۔ اس کا مسلمان ہونااہل اسلام کیلئے باعثِ طمانیت سہی لیکن اس سے بھیانک جرائم معاف نہیں ہوسکتے،اب جزا و سزا کا معاملہ خدائی عدالت میں ہے جبکہ مشرف کے کیسز کو دنیاوی عدالتیں دیکھ رہی ہیں،وہ جس طرح دیکھ رہی ہیں پوری دنیا ان کو دیکھ رہی ہے۔ ہائی کورٹ نے انکے الیکشن لڑنے پر تاحیات پابندی لگا دی۔مشرف مجرم ثابت ہو جاتے تو اسکے پانچ سال بعد آئین کے مطابق الیکشن لڑ سکتے تھے ۔تا حیات پابندی عدالتی تاریخ میں نئی مثال ہے۔ دیکھئے یہ فیصلہ مقدمات میں ایک مثال بنتا یا بھٹو کیس کی طرح ”ضرب المثل“۔ اب مشرف صاحب نے اپنی نااہلی اور قید کے باعث اپنی پارٹی آ ل پاکستان مسلم لیگ کو اس انتخابی عمل سے باہر کرلیاہے جس کے ایک بھی نشست جیتنے کا امکان نہیں تھا۔انکی پارٹی کا الزام ہے کہ مشرف کو نااہل قرار دیدیا گیا اور انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔مشرف کے با ئیکاٹ کے عوامل کو بھی دنیا دیکھ رہی ہے۔ ہتھیلی پر سرسوں جمتی، بغیر آگ کے دھواں، پتھر کو پگھلتے ،برف پر پڑے پانی کو ابلتے،صحرا میںسمندر کی لہریں اور نصف شب کو دوپہریں دیکھنے کے جو خواہش مند ہوں وہ مشرف کو ملنے والا انصاف دیکھ لیں۔قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ کیس لٹکائے جائیں نہ کسی کو لٹکانے کی تیزی دکھائی جائے۔
میرے مہمان ایم ہاشمی کے بقول وہ شہادت کی بات انفارمیشن کی بنیاد پر نہیں اپنے سیاسی وژن اور بصیرت کے بل بوتے پر کررہے تھے۔ اس میں شاید مبالغہ ہو۔ انہوں نے اور بھی بہت کچھ کہاجو ان خدشات کی تائید تھی جو عوامی حلقوں، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی طرف سے انتخابات کے خونیں ہونے کے حوالے سے سامنے آتے رہتے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ” اقتدار کی خاطر کوئی بھی کچھ بھی کر سکتا ہے، اب تو ہمارے ہاں اورنگ زیب عالمگیر جیسے کردار بھی جنم لے چکے۔ اورنگ زیب عالم گیر نہایت متقی عبادت گزار اور پرہیز گار تھا لیکن بادشاہی کیلئے اپنے بھائیوں کا سر لے لیا اور والد محترم کو قید کردیا“۔البتہ ہاشمی صاحب نے میرے ساتھ اتفاق کیا کہ جسٹس افتخار چودھری کے چیف جسٹس ہوتے ہوئے انتخابات کا ایک دن کیلئے التوا بھی ممکن نہیں، خواہ آسمان ٹوٹے یا زمین پھٹے۔
(If Iftikhar is here election is there)
خدا کرے کہ ہمیں محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل جیسے کسی سانحہ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ہر پاکستانی کا خون مقدس اور محترم ہے ،آج سیاست میں خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں۔نگران حکومت کو خون کی ہولی روکنے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔یہ سلسلہ جاری رہا تو انتخابات کی شفافیت سوالیہ نشان بن کر ایک اور قیامت ڈھا دے گی۔
ہم جمہوریت کی کچی پکی راہگزر پر بہت سی شہادتیں دے چکے ہیں۔ اسکے باوجود ہماری سیاست اور سیاسی قیادت ابھی تک نابالغ ہے۔کیا ہم جمہوریت کے حوالے سے بھی قائل ہو گئے ہیںکہ ....ع
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے صحر پیدا
اگرہمار ے ہاں سیاسی اور جمہوری روایات مضبوط ہوتیں تو آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے اس بیان پر خوشی سے دھمالیں نہ ڈالی جارہی ہوتیںجس میں جنرل صاحب نے فرمایا کہ الیکشن 11مئی کو ضرور ہوں گے۔ اس بیان کے بعد سیاسی اکابرین،اینکر کالم نگاراور تجزیہ کار کہہ رہے کہ جنرل کیانی کے بیان کے بعد انتخابات کے التوا کے حوالے سے تمام شکوک و شہبات دور ہوگئے ہیں۔ جمہوری روایات پختہ ہوتیں تو آرمی چیف کے ایسا بیان دینے کی نوبت آتی‘ نہ اس بیان پر قوم سردُھن رہی ہوتی۔ کیانی صاحب کے اس بیان ”جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی کا اعصاب شکن کھیل جزا و سزا نہیں صرف عوام کی آگہی اور بھرپور شمولیت ہی سے ختم ہو سکتا ہے“پر کسی کی نظر نہیں ہمارے سیاستدانوں کا بلوغت کی دہلیز پر ہنوز کوہِ گراں بن کر قدم نہ رکھنے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جرنیلوں کی مہم جوئی کی ہی اطلاع پاتے ہی دن کے اُجالے میںیہ اپنی خدمات پیش کرنے کیلئے گلے میںبندھی رسی کا دوسرا سرا طالع آزما کو تھما نے کیلئے بے قرار ہوتے ہیں۔ بعض تو جرنیلوں کو قوم کی کشتی بھنور سے نکالنے کیلئے خود قائل کرتے ہیں۔ یہ لوگ پاﺅ گوشت خیرات پانے لئے جمہوریت کا بکرا ہی ذبح کروادیتے ہیں۔ اب بھی تلاشی لی جائے تو 90فیصد کاروں کے نیفوں میں اڑسے اور جیبوں چُھپے جرنیل کے نام کی جگہ خالی چھوڑ کر ”۔۔۔ہم تمہارے ساتھ ہیں “ کے بینر اور بیان برآمد ہونگے۔ تبدیلی یا انقلاب اگر آسکتا ہے تو ہمارے سیاستدانوں کے میچور ہونے سے ہی آئیگا اور اس کے ساتھ ہی مارشل لاءہمیشہ کیلئے دفن اور طالع آزما خاموش ہوجائیںگے۔
ہمارے رہنما اپنی انتخابی مہم بڑی بے جگری اور دلیری سے چلا رہے ہیں۔ بغیر فول پروف سکیورٹی کے جلسے کرنا خطرات سے خالی نہیں۔ حکومت تو اپنے پراسیکیوٹر چودھری ذوالفقار کی حفاظت نہ کرسکی جن کے سپرد بینظیر بھٹو اور شدت پسندوں کے حساس ترین کیس تھے۔ قائدین خود کو دہشت گردوں، اپنے اور پرائیوں کیلئے آسان نشانہ نہ بنیں۔ بہترہے کہ مہم کو میڈیا تک محدود کردیں۔ ہمارے قائدین جیسے بھی ہیں ہمارے اپنے ہیں۔ گو انکے پیٹوں میں قومی و ملکی اثاثے سما گئے ہیں لیکن بالآخریہ ہمارااثاثہ ہیں۔ان کا امتحان الیکشن کے بعد شروع ہوگا اسکی تیاری بھی کریں۔ملکی حالات بہت سے خطرات اور خدشات کی طرف اشارہ کرتے ہیںچند ماہ قبل تک لوگ فوج کو دبے دبے الفاظ میں پکارنے لگے تھے‘ اب انکی امیدیں سیاست دانوں سے وابستہ اور برملا کہہ رہے ہیں ”ہم تمہارے ساتھ ہیں“۔ سیاستدانوں کی کارکردگی سے ایک بار مایوس ہوئے تو فوج کو سر پر بانہہ رکھ کر نجات کیلئے صدائیںدینگے یہ نجات کی نہیںمزید آفات کی ”شُبھ“ گھڑی ہوگی۔
No comments:
Post a Comment