About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, April 30, 2013

کمانڈو کے بعد۔۔۔؟


30.4.2013
فضل حسین اعوان

کمانڈو کے بعد۔۔۔؟
اجلی ،دھندلی ملی جلی انتخابی مہم پورے پاکستان میں جاری ہے۔ پنجاب میں ذراتیز ہے۔دہشتگردی کے سائے میں ایسے ہی چل سکتی ہے ۔ دہشت گردی آج کا نہیں، اس وقت سے مسئلہ ہے جب جنرل مشرف نے پاک سرزمین، افغانستان پر حملوں کے لئے امریکہ کے حوالے کر دی۔ اس کے بعد پاکستان میں دہشت اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہی ہوا ہے کمی نہیں ہوئی۔ آج ہمیں انتخابی مہم خون افشاں و خوں چکاں نظر آتی ہے۔ جس میں کہا جاتا ہے کہ کچھ پارٹیاں محفوظ اور کچھ زیر عتاب ہیں۔ زیردست پارٹیوں کا گلہ ہے کہ دہشت گرد انہی پر آسمان کیوں توڑ رہے ہیں؟ تین صوبوں میں انتخابی مہم مدہوش، پنجاب میں پرجوش کیوں؟ خود کو لبرل کہلانے والی پارٹیاں پہلے کی طرح اب بھی کہہ رہی ہیں کہ طالبان مسلم لیگ ن، تحریک انصاف جماعت اسلامی اور جے یو آئی پر حملے کیوں نہیں کرتے؟ اب یہ سوال ذرا شدت سے اٹھ رہا ہے۔ الطاف حسین نے تو طالبان کی کارروائیوں سے محفوظ جماعتوں کو منی طالبان قرار دیا ہے۔ اصولی سوال یہ نہیں کہ فلاں پر غضب کیوں نہیں ٹوٹا۔ سوال یہ ہے کہ فلاں پر عذاب کیوں نازل ہو رہا ہے؟ ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی کو ٹارگٹ کیوں کیا جا رہا ہے؟ ۔۔۔یہ تینوں پانچ سال تک اپنے اپنے صوبوں اور مرکز میں برسر اقتدار رہیں۔ مشرف نے جاتے ہوئے دہشت گردی کی جنگ کو جہاں چھوڑا تھا انہوں سے وہاں سے پکڑ کر مزید آگے بڑھایا۔ دیگر جماعتیں جنہیں رائٹٹس کہا جاتا ہے، ان کو اس جنگ پر اثرانداز ہونے کا موقع نہیں ملا۔ آئندہ ن لیگ یا تحریک انصاف اقتدار میں آتی ہیں تو ان کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں موقف سامنے آنے اور عملی اقدامات کے مطابق طالبان اپنا لائحہ عمل ترتیب دیں گے۔ ویسے پی ٹی آئی کو رائٹسٹوں اور لفٹسٹوں میں سے کسی کے ساتھ بھی ایڈجسٹ ہونے میں پرابلم نہیں ہو گا۔ الطاف بھائی اور صدر زرداری کے مابین اعتدال پسند جماعتوں کے اتحاد کی ضرورت پر اتفاق ہوا ہے۔ متحدہ اس حوالے سے اسفند یار ولی سے بھی رابطہ کرنا چاہتی ہے۔ اچھا ہے، بہت اچھا ہے، ان کو متحد ہونا چاہئے۔ کاش یہ تینوں گذشتہ دور میں ایک دوسرے کا ہاتھ خلوص اور نیک نیتی سے تھامے رکھتیں تو کم از کم کراچی کا امن اور روشنیاں لوٹ سکتی تھیں۔ الطاف اور زرداری کے درمیان انتخابی میدان خالی نہ چھوڑنے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ بالترتیب 1985ءاور 1993ءکے انتخابات کا بائیکاٹ کرکے اگلے انتخابات تک پچھتاتی اور بائیکاٹ کے فیصلے پر پیچ و تاب کھاتی رہی تھیں۔ کوئی اورتو بائیکاٹ کا سوچے ،ان کے لئے بائیکاٹ سرے سے آپشن نہیں ہے اور یہ تو ان کی لغت سے ہی کٹ چکا ہے۔
طالبان نے کل پھر برملا اعلان کیا ہے کہ گو ان ن لیگ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سے بھی خیر کی توقع نہیں لیکن وہ ان کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ اس وقت فیصلہ سابق حکمران جماعتوں تک ہی محدود ہے۔۔۔ جن علاقوں میں آج حملے ہو رہے ہیں پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے کے بعد یہ علاقے مسلسل دہشت گردی کی لپیٹ میں رہے ہیں۔ پنجاب بھی محفوظ نہیں تھا۔ جی ایچ کیو، سری لنکن ٹیم، کامرہ ائیر بیس، آئی ایس آئی کے دفاتر اور گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ انتخابی مہم میں سیاسی سرگرمیوں کو محدود تو کیا جا سکتا ہے کوئی بھی پارٹی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے گھروں میں دبک کر نہیں بیٹھ سکتی۔ طالبان تو پہلے ہی اپنے مخالفوں کی تلاش میں ہیں۔ اب ان کے لئے جلسے جلوسوں اور کارنر میٹنگزپر وار کرنا آسان ہو گیا ہے۔ زیر بار پارٹیوں نے اول تو دہشت گردی کے خاتمے کے لئے گذشتہ پانچ سال میں کوئی قابل ذکر کوشش ہی نہیں۔ یہ تو انسداد دہشت گردی بل کو ہی حتمی شکل نہ دے سکیں۔ اگر گذشتہ پارلیمنٹ اور حکومت نے کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو فعال کیا ہوتا، ایجنسیوں کے مابین رابطوں کو مضبوط بنایا ہوتا تو بھی نتائج معمولی کمی بیشی کے ساتھ وہی ہوتے جو آج سامنے ہیں۔ ایسی جنگیں سخت اقدامات، مربوط پالیسیوں، مضبوط فوج، اسلحہ و گولہ بارود کی بہتات، امریکی امداد اور ڈرون حملوں سے نہیں،اس کے ساتھ پوری قوم کو بھی ساتھ ملانا ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر قوم واضح طور پر تقسیم ہے۔ طالبان سے ایک طرف جتنی نفرت ہے دوسری طرف اتنی ہی محبت بھی ہے۔ ان کو قاتل، اجڈ، گنوار، ظالم کہنے والے موجود ہیں تو ان کو قرون اولیٰ کے سچے پیروکار، راہ راست پر گامزن اور متقی و پرہیز گار قرار دینے والوں کی کمی نہیں۔ ہماری بطور قوم بقا اسی میں ہے کہ ایک فیصلہ کر لیں، مصمم ارادہ باندھ کر ان کی سوچ کو اپنا لیں یا ان کی ذہنیت کو دفنا دیں۔ اگر ہم یونہی تقسیم رہے تو قیامت تک اس قیامت سے نہیں نکل سکیں گے۔ طالبان کی ہٹ لسٹ پر یہ تین جماعتیں تو ہیں ہی مشرف کو بھی انہوں نے معاف نہیں کیا جو پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے موجدو بانی ہیں۔مشرف نے دہشت گردی کی جنگ میں جھونک کر قوم کو ایک دائمی عذاب میں مبتلا کر دیا۔ مشرف نے اور بھی بہت کچھ کیا اس کا نوٹس لیا جا رہا ہے۔ نواز شریف کا تختہ الٹنے اور پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ کے بھنور میں پھنسانے اور ڈرون حملوں کی اجازت جیسے جرائم معاف ہو چکے ہیں البتہ ان کا ہر جرم معاف نہیں کیا جا رہا۔ وہ فوج کے راج دلارا ہونے کے زعم میں پاکستان چلے آئے۔ عدلیہ سے جو بھی ممکن ہو سکا ان سے حساب لے رہی ہے جس کا کسی کو وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ معاملات اگرقانون کے مطابق چلتے ہیں، ججوں کا تعصب مقدمات پر اثرانداز نہیں ہوتا تو مشرف کیس ہمارے مستقبل کے لئے تابناک اور آمریت کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دے گا۔ آئین شکنی، لال مسجد اپریشن، بینظیر اور بگٹی قتل کیسز میں جرائم کے مطابق سزا سنادینے سے ہی جمہوریت کے سر پر تنی بندوق ہٹ جائے گی اور آمریت کی ممکنہ تاریکی چھٹ جائے گی۔ قانون اور انصاف کا ہاتھ ایک آمر کے گریبان پر اس کے سابق ہونے پر ہی سہی، پہنچا تو ہے۔ اس سے ملک و قوم کے روشن مستقبل کے راستے مزید ہموار ہو گئے ہیں۔ گذشتہ پانچ سال قوم پر دہری دہشت گردی مسلط رہی۔ دوسری اتحادی حکومت کی صورت میں، حکمرانوں کا کرپشن ہی پر دھیان اور یہی ان کی ”عظمت“ کا نشان رہا جس سے ان کی کرپشن کے ہمالہ تلے دبا ہر پاکستانی پریشان اور نیم جان رہا۔ نگران سابق حکومت کا ہی تسلسل ہیں۔ اُس یا اِس حکومت کے اثرات کل کوئی بھی حکومت آ جائے ستمبر 2013ءتک بہرصورت رہیں کیونکہ آصف علی زرداری ایوان صدر میں اپنے صدارتی اختیارات انجوائے کر رہے ہونگے۔ عدلیہ کا یہی عزم برقرار رہا توان کے سابق ہوتے ہی وہ آج کے پرویز مشرف بن جائیں گے۔ ایک زرداری سب پہ بھاری۔ کمانڈر کے بعد کس کی باری؟ یہ سوال اب کوئی سوال نہیں رہا۔

No comments:

Post a Comment