About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, April 25, 2013

حکمرانی.... چھٹتی نہیں ہے


حکمرانی.... چھٹتی نہیں ہے....

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
07 مارچ 2013 0
اسمبلیوں اور مرکزی و صوبائی حکومتوں کی مدت ختم ہونے میںمحض چند سانسیں باقی ہیں لیکن حکمرانوں خصوصی طور پر مرکز والوں کا اقتدار سے جانے کو دل کرتا ہے نہ انتخابات کرانے کو۔ اسی طرح امریکہ کا بھی افغانستان سے اپنے اعلان کے مطابق نکلنے کو دل نہیں کرتا۔ اقتدار میں طول، تسلط و قبضہ کے حوالے سے ”امریکانوں“ اور پاکستانی حکمرانوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ امریکہ نے 2014ءمیں افغانستان سے مکمل انخلا کا قول دیا تھا۔ جس سے امریکی حکام پھسلتے اور کھسکتے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کرزئی کے ساتھ 2024ءتک موجودگی کے معاہدوں کی بات کی جاتی ہے، کبھی افغانستان میں مستقل فوجی اڈوں کی موجودگی کا اعلان کیا جاتا ہے اور کبھی کرزئی راگنی گوائی جاتی ہے ....عابھی نہ جاﺅ چھوڑ کے کہ دل ابھی بھرا نہیں ”امریکانوں “اور ہمارے حکمرانوں کے مابین بہت سی اقدار مشترک ہیں۔ اقتدار تسلط قبضہ اور حکمرانی کا نشہ دونوںکو ہے.... عچھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئیایک کو تختِ لاہور کا دوسرے کو طالبان کا خوف ہے۔ یہ خود ساختہ خوف ہیں۔ پیپلز پارٹی کو اقتدار شہ نشینوں پر پنجاب نے ہی بٹھایا تھا جس کا دل لاہور ہے۔ ان کو اگر کوئی تحفظات ، شکایات اور اعتراضات میں تو ن لیگ سے ہو سکتے ہیں۔ پنجاب اور لاہور کے لوگ کسی کے غلام نہیں۔ ن لیگ کے نہ پیپلز پارٹی کے اور نہ ہی کسی ملا طوفانی اور سونامی کے۔ کسی بھی پارٹی کی کارکردگی دیکھ کر ووٹ دیں گے۔ شکلوں‘ دعووں اورقَسموں کی بنا پر نہیں۔ حکمرانوں کی کارکردگی دیکھیں گے۔ پانچ سال میں مرکز اور پنجاب حکومت نے جو دکھ، سکھ دئیے ووٹ کی صورت میں عوام اس کا اظہار انتخابات میں کر دیں گے۔ اپنی اپنی حکمرانی کے آخری دنوں میں ہر پارٹی کو عوامی خدمت کے غش پڑنے لگے۔ان کی عوامی خدمات ڈھونڈنے کے لئے چراغ رخ زیبا کی ضرورت پڑتی ہے۔ عوام کی نظر حکومتوں کی بداعمالیوں پر ہو گی تو یقیناً گوادر پورٹ چین کے حوالے کرنے اور ایران سے گیس معاہدے پر ڈٹ جانے ایسے اقدام اور فیصلے بھی پیش نظر ہوںگے۔ سو پیپلز پارٹی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ پانچ سال میں گلاب بوئے ہیں تو ان کی مہک انتخابات میں ضرور آئے گی لیکن حکمرانوں کے ساتھیوں کی حسِ شامہ بڑی تیز ہے وہ جانتے ہیں کہ ان کی پارٹی نے جو بویا ہے۔ اس لئے وہ کاٹنے سے قبل ثمر بار گلشن و گلستان کی طرف ہجوم در ہجوم اڑانیں بھر رہے ہیں، ہر صوبے سے۔انتخابات کا اعلان ہوا تو اجڑے گلستان میں زرداری اور شجاعت اس مرزے کی طرح پھرتے نظر آئیں گے جس کی خواہش تھی   ع ....گلیاں ہو ون سنجیاں وچ مرزا یار پھرے یہ امکانات اور خدشات، انتخابات ہونے کی صورت میں ہیں جن سے حکمران گریزاں ہیں۔ رحمن ملک کا فرمان ہے کہ ”طالبان کہتے ہیں کہ انتخابات نہیں ہوں گے“ یہی تو ان کی پارٹی کی خواہش‘ کوشش اور ڈاکٹر طاہر القادری کا ایجنڈہ ہے۔ دیکھئے اس خواہش کوشش اور ایجنڈے کی تکمیل میں امریکہ ان کا کہاں تک ساتھ دیتا ہے؟ اس کے بدلے میں یہ امریکہ کے افغانستان میں مستقل قیام کے لئے یہ کیا کردار ادا کریںگے؟۔امریکہ افغانستان میں اپنے انخلا کے بعد بھی اپنی موجودگی کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ ایسا افغانستان میںنئی آنے والی حکومت کی رضامندی کے بغیر نہیں ممکن ہو گا۔انخلا صورت اورامریکی محدود موجودگی کے باوجود افغانستان میں بہت کچھ بدل جائے گا۔ اس کے معاہدوں کی‘ کسی غیر ملکی یعنی پاکستان یا بھارت کے کردار کی کوئی حیثیت نہیں رہ جائے گی۔ مغربی میڈیا کو یہ سب کچھ نظر آرہا ہے۔ گارڈین میں جوناتھن سٹیل نے تو امریکہ اور اتحادیوں کی اب تک موجودگی کو افغانستان میں حماقتوں کا عشرہ قرار دیا ہے؛”امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان سے انخلا کی تیاری کر رہے ہیں۔ 2014ءمیں انخلا مکمل ہونے کی صورت میں معاملات کیا رخ اختیار کریں گے‘ سب جانتے ہیں۔ طالبان کی پوزیشن مستحکم ہے اور اس کا زیادہ امکان ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آجائیں گے۔۔۔امریکہ‘ برطانیہ اور ان کے ہم خیال ممالک افغانستان سے نکلنے کی تیاری کر رہے ہیں مگر کسی کو بھی اندازہ نہیں کہ اس اقدام سے افغانستان میں حقیقی استحکام پیدا ہو گا یا نہیں؟۔ مغربی سفارت کار اس تاثر کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے رخصت ہونے کے بعد افغان فوج سکیورٹی کا انتظام بہتر ڈھنگ سے انجام دے سکے گی۔ مگر افغانوں کو ان کی بات کا کم ہی یقین ہے اس لئے بیشتر مالدار افغان باشندے اپنے خاندانوں کو دبئی اور دیگر محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے ہیں۔۔۔ حکومتی مشینری میں جو خرابیاں ایک عشرے میں پیدا ہوئی ہیں وہ محض ایک دن میں دور کرنا ممکن نہیں۔۔۔ دس برسوں کے دوران افغانستان میں ایسی حماقتیں سرزد ہوئیں جن کے باعث اتحادیوں کو اپنے مقاصد میں کامیابی نہ مل سکی۔ ان حماقتوں سے مغرب کو بہت کچھ سیکھنا ہو گا“۔ امریکی انخلاءکے بعد افغانستان میں بہیمانہ خونریزی کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ شمالی اتحاد طالبان پہلے کی طرح باہم برسرپیکار ہوں گے۔ شمالی اتحاد جتنا بھی طاقتور ہو جائے طالبان کو ہڑپ نہیں کر سکتا اور جتنا بھی کمزور ہو جائے طالبان ان کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔ دونوں مسلمان ہیں دونوں ایک ساتھ چل سکتے ہیں لیکن دونوں کاباہم دست و گریباں رہنا کچھ طاقتوں کے مفاد میں ہے وہ شاید دونوں کو ایک ساتھ نہ بیٹھنے دیں لیکن ان دونوں میں بھی تو کچھ عقل ، اپنے نفع و نقصان کا ادراک اور بے گناہوں کی خونریزی کا احساس ہو نا چاہیئے۔ طالبان کو کوئی بھی ان کی ڈگر سے نہیں ہٹا سکتا۔ امریکی انخلا کے بعد تمام معاہدے‘ اقدامات خس و خاشاک کی طرح بہ جائیں گے۔ تاریخ خود کو دہرائے اور طالبان ایک بار برسراقتدار ہوں گے۔ اس کا اندازہ پوری دنیا کو ہے۔ طالبان ایک بار پھر اپنی ریاست میں وہ نظام نافذ کر دیں گے۔ جو ان کی نظر میں اسلامی ہے جبکہ دنیا شدت پسندی کہتی ہے۔ سعودی عرب میں بھی اسلامی نظام نافذ ہے اس پر بھی کچھ اسلامی حلقوں کی تنقید ہوتی ہے لیکن اسے مکمل نہ بھی کہا جائے پھر بھی کافی حد تک اس کو اسلامی نظام قرار دیا جا سکتا ہے۔ جس پر مغربی حلقوں میں لے دے ضرور ہوتی ہے لیکن ویسی مخالفت نہیں جیسی طالبان حکومت کی تھی۔ دنیا اور خصوصی طور پر اسلامی حلقے طالبان کو شدت پسندی سے گریزپر مائل کریں۔ خواتین کو ویسے ہی حقوق دلانے کی کوشش کریں جیسے سعودی عرب میں دے دئیے گئے ہیں۔ طالبان کوآمادہ کریں کہ وہ جدید علوم بھی مدرسوں میں رائج کریں۔ افغانستان کے مدارس سے فارغ التحصیل علماءکو جامعہ الازہر جیسی درس گاہوں میں کورس کرائیں۔اس طرف طالبان کودباو ڈال کرانہیں، دلائل سے قائل کرکے ہی مائل کیا جا سکتا ہے۔ یہی مغرب اور امریکہ کے مفاد میں بھی ہے اگر یہ سعودی پالیسیوں کو برداشت کر رہے ہیں تو کل کی متوقع طالبان حکومت کو بھی کر لیں گے۔

No comments:

Post a Comment