About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, April 25, 2013

نگرانوں کی نامزدگی کا مرحلہ مکمل ۔۔۔ اور عمران کا 100نامی


نگرانوں کی نامزدگی کا مرحلہ مکمل ۔۔۔ اور عمران کا 100نامی

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
28 مارچ 20130
Print  
 نگرانوں کی نامزدگی کا مرحلہ مکمل ۔۔۔ اور عمران کا 100نامی
 دنیا میں کہیں بھی نگران حکومتوں کا تصور نہیں۔انتخابات وہی لوگ کراتے ہیں جو حکومت میں ہوں۔ ہمارے ہاں چونکہ جمہوریت کی جڑیں مضبوط نہیں ہوئیں اور آمریت کی لو جمہوریت کی کونپلوں کو جھلساتی چلی آرہی ہے ، پھر جمہوری حکمرانوں کے انداز بھی آمرانہ رہے، ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا رویہ اور اعتماد کا فقدان اس پر مستزادہے۔اس کا حل سیاستدانوں نے خود ہی نکال لیا۔18ویں ترمیم کے ذریعے نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی تقرری کا طریقہ کار طے کردیا۔نگرانوں کی نامزدگی کا یہ تجربہ خوشگوار نہیں رہا شاید یہ معاملہ پہلی بار درپیش تھا اس لئے کچھ مس مینجمنٹ کی کیفیت ہوئی اور بعض مقامات پر پارٹی مفادات بھی آڑے آئے۔ سندھ میں نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کیلئے جو ڈراما بازی کی گئی اس کا داغ ہدایت کاروں کے ماتھے سے کبھی دھل نہیں سکے گا۔نگران وزیراعظم کی نامزدگی کیلئے ہیجانی کیفیت آخری لمحہ تک برقرار رہی بہرحال یہ سب بھی آئین کے مطابق ہوا۔پنجاب میں پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ امیدوار کے نام پر صوبائی کمیٹی کا اتفاق مسلم لیگ ن کی سیاسی بلوغت کی ایک علامت تو ضرورہے لیکن اس سے ن لیگ کی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور اس کے لئے اپنے فیصلے کا دفاع مشکل ہوسکتا ہے۔معاملہ الیکشن کمشن میں جاتا تو یہی ہونا تھا۔نجم سیٹھی نے اپنی نامزدگی پر کہا ہے کہ وہ ایسے الیکشن کرائیں گے کہ لوگ مثالیںدیا کریں گے ۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ پی پی پی کے پانچ سالہ دور کی طرح مثالیں دیں۔نجم سیٹھی آج پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے حکمران ہیں ، ان پر یہ عنایت اور نوازش پاکستان کے وجود کی وجہ سے ہوئی، پاکستان کو قائد اعظم نے تخلیق کیا جن کو انہوں ایک بار اپنی بے لگام زبان سے احمق قرار دیا تھا ۔ پاکستان نہ ہوتا تو سیٹھی ریڑھی پر تیل بیچتے نظر آتے۔ان کوبھارت نوازاور امریکہ کا ایجنٹ کہا جاتا ہے ، نواز شریف دور میں ایجنسیوں نے ان کو اُ ٹھایااور عدلیہ نے چھڑایا تھا۔ان کو وزارت اعلیٰ مبارک، بہتر ہے کہ وہ ایک بار پھر قائد پر اعتماد کی تجدید فرما دیں۔
نجم سیٹھی کی نامزدگی کیساتھ ہی ایک مرحلہ مکمل ہوا،دوسرا نگران وزیروں کی تعیناتی ہے۔نگران وزیروں کے تکلف کی ضرورت ہرگز نہیں۔ کوئی بھی ادارہ اور محکمہ لاوارث نہیں ہے۔بیورو کریسی موجود ہے۔ سیاسی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی پنجاب میں سی این جی تین دن کیلئے دستیاب ہوگئی۔اتوار کے روز بہت سے شہروں اور دیہات میں چند گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوئی گویا جو ادارے چھٹی کے روز بند رہتے ہیں وہاں استعما ل ہونے والی بجلی عوامی سیکٹر کو فراہم کی گئی ،گزشتہ پانچ میں اتوار کو لوڈشیڈنگ کا عذاب باقی دنوںکی نسبت زیادہ نازل کیاجاتاہے۔بیورو کریسی پاکستان دشمن نہیں،اس سے الٹے سیدھے کام کرانیوالے عوام دشمن ہیں۔نگران وزیر لا کرملکی معیشت پر بوجھ ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کابینہ کی میٹنگ انجوائے کرنے جیسے چونچلوں میں نہ پڑیں، سیکرٹریوں سے کام بخوبی ہی نہیں ،بہترین طریقے سے چل سکتا ہے۔جہاں اس دلچسپ امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ سوائے پنجاب کے دیگر تمام صوبوں کے نگران وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم(ر) جج صاحبان ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی نے نجم سیٹھی کے ساتھ دوسرا نام جسٹس (ر) زاہد حسین کا دیا تھا۔چیف الیکشن کمشنراور الیکشن کمشن کے چاروں ارکان بھی ریٹائرڈ جج ہیںجن کو سیاستدانوں نے ہی متفقہ طور پر چنا ہے۔ایک طرف سیاستدانوں کا ججوں کے اوپر اس انتہا کا اعتماد اور دوسری طرف سپریم کورٹ پر حملے اور فیصلوں سے انکار دوعملی ، دُہرا معیار اور دوغلی پالیسی کا شاہ کار ہے۔
 آج قوم کو انتخابات واقعی شفاف ہوتے نظر آرہے ہیں،الیکشن کمشن اور نگرانوں پر کوئی دباﺅ نہیں ہے البتہ الیکشن کمشن خودہی جعلی ڈگری والوں کو ریلیف دینے پر مُصر تھا لیکن سپریم کورٹ نے اسکی خبر لے لی ۔زرداری صاحب نے پارٹی عہدہ چھوڑ دیا،اختیارات وہ پہلے ہی پارلیمنٹ کے سامنے خود سرنڈر کرچکے ہیں، اس لئے ایوان صدر کی طرف سے انتخابات میں مداخلت کا اندیشہ نہیں ہے بلکہ اب تو پیپلز پارٹی لاوارث لاوارث سی نظر آرہی ہے۔ زرداری صاحب عدلیہ کی مداخلت پر پارٹی قیادت چھوڑ چکے ہیں،بلاول روٹھ کر لندن چلے گئے ۔نوجوان ،مزدور کا بیٹا ہو یا بھٹوز کا وارث،وہ آئیڈیلزم کی کارفرمائی کا خواہشمند ہے ہے۔بلاول دنیا کے اعلیٰ اور جدید اداروں کا تعلیم یافتہ ہے۔ انکے والد نے اپنی تعلیم کا شاید تکلف نہیں کیا وہ صدر کے امیدوار تب بنے جب گریجوایشن کی شرط ختم ہوگئی تھی اس لئے ان کو جعلی ڈگری بنانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ البتہ زرداری صاحب نے اپنی اولاد کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دی،ہاں! تربیت میں کمی بلاول کی بغاوت منہ بولتا ثبوت ہے ۔نوجوان آئیڈیلزم کی جستجو میں رہتے ہیں۔ سیاست میں چالاکی،فریب، چالیں اور جوڑ توڑ شاید بلاول کے آئیڈیلزم کے مطابق نہیں تھے۔انہوں نے اپنی منوانا چاہی تو کہہ دیا کہ تم ابھی سیاسی بلوغت کو نہیںپہنچے۔ پارٹی کے چیئر مین کے بجائے سرپرست کا علامتی عہدہ دینے پر بھی بلاول ہوسکتا ہے ناراض ہوں۔ وہ لندن گئے تو ترجمانوں نے کہنا شروع کردیا کہ سکیورٹی وجوہات پروہ لندن گئے۔ ایوانِ صدر میں سکیورٹی کا کیا بھلا مسئلہ؟ ایک ترجمان نے کہا وہ جلد واپس آئیں گے۔ایسے بے سروپا بیانات بھی بلاول کے آئیڈیلزم کو جھٹکے لگاتے ہوں گے۔
الیکشن کی گہما گہمی عروج پکڑ رہی ہے، ایسے میں رحمن ملک کس کو یاد ہوگا،ملکی حالات بھی نسبتاً بہتر ہیں۔یہ انتخابات بلوچ نوجوانوں کیلئے اپنی قیادت منتخب کرنے کا بہترین موقع ہے۔اب تو نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو انکے صوبے سے ہیں،شفاف انتخابات کیلئے آخری حدود تک کمٹڈ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔اختر مینگل جیسے بلوچ رہنماوطن واپس آچکے ہیں۔ بلوچ علیحدگی کی تحریکوں پر لات ماریں، بلوچستان میں اپنی حکومت بنا کر محرومیاں دور کریں۔
 انتخابی مہم کی شروعات میاں نواز شریف اور عمران خان نگر نگر اور شہر شہر گھوم رہے ہیں۔کہیں جلسہ کر رہے ہیںکہیں میل ملاقاتوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ،اس موقع پر بلاول کا پاکستان ہونا ضروری تھا بہرحال یہ پیپلز پارٹی کا مسئلہ ہے جو جلد حل نہ ہوا تو مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں ہوگا۔لگتا ہے کہ پی پی پی کی قیادت اور رعیت نے اتنا کچھ کما لیا ہے کہ اسے شاید انتخابات میں دلچسپی نہیں۔البتہ دعوے وہ بھی فتح کے کر رہی ہے کیونکہ ان پر کوئی خرچہ آتا ہے نہ محنت اور مشقت کی ضرورت ہے۔ اپنی کامیابی،فتح و نصرت کے دعوے کرنے کا حق کسی سے نہیں چھینا جاسکتا البتہ عمران خان کے دعوﺅں پر حیرت ہوتی ہے©©؛۔سونامی آنیوالا ہے،سونامی لا کر رہیں گے،سونامی سب کو بہا کر لے جائیگا۔ یقینا سونامی کا کام سب کو بہا کر لے جانا ہے۔سونامی ایک آفت ہے مصیبت اور عذاب الٰہی ہے۔کیا کوئی یہ کہے گا کہ وہ عوام میں بیماریاں بانٹے گا، عوام کو فالج اور لقوے کا شکار کردے گا، ہر طرف لولے لنگڑے، ڈڈے،اندھے کانے، گونگے بہرے نظر آئیں گے۔ خان صاحب دوسرے الفاظ میں یہی کہہ رہے ہیں ۔اگر آپ نے سونامی کہنا ہی ہے کہیں کہ میں 100 نامی سامنے لاﺅں گا۔ یہ 100 نامی گرامی دانشور،معتمد اور معتبر قوم کی تقدیر سنوار دیں گے۔ شہباز شریف ، بھلے مانس علی بابا کو ڈاکوﺅں کا سردار قرار دیتے رہے اپنی اصلاح میں انہوں نے تین سال لگا دئیے ،خان صاحب دیکھئے کب اپنے سونامی کی کب اصلاح کرتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment