صدر‘ گورنرز استعفیٰ کیوں دیں؟
عوامی وعمومی رائے یہ ہے کہ مشرف کے دور سے لال مسجد آپریشن اور پاکستان کو امریکہ کے پاس گروی رکھنے کے اقدامات کو نکال دیا جائے تو وہ معیشت کو مضبوطی کے حوالے سے بہترین دور تھا۔ مشرف آئے تو ڈالر 62 اور گئے تو بھی 62 روپے کا تھا۔ پٹرول کی قیمت 54 اور 28 روپے نمبر کے درمیان اوپر نیچے ہوتی رہی۔ پرویز الٰہی کے اقوال سے مشرف کو وردی سمیت دس بار منتخب کرانے کی تکرار نکال دی جائے تو ان کی وزارت اعلیٰ کا دور بھی مثالی تھا۔ پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتاﺅں کی روح تک اتری کرپشن کا عنصر نکال دیا جائے تو دوبارہ کھوئی ہوئی مقبولیت اور احترام حاصل کر سکتی ہے۔ ن لیگ کی قیادت کے دماغ سے تکبر اور گردن سے اکڑنکل جائے تو اسے مقبولیت کے لئے جعلی سروے کرانے کی ضرورت نہ پڑے ۔
کرپشن میں نام پیدا کرنے کے باعث پانچ سال تک اتحادی رہنے والے پیپلز پارٹی کی کشتی سے چھلانگیں لگا رہے ہیں اور تکبر کا شکوہ کرنے والے بھی ٹکٹ کے حصول کے لئے عمرہ جاتی کو اپنی درگاہ سمجھ کر وہاں کچے دھاگے سے بندھے ننگے پا¶ں حاضری دینے کو سعادت باور کراتے ہیں۔ یہ وہی ہیں جو میاں نواز شریف کے جدہ کی فلائٹ میں بیٹھتے ہی مشرف کے جہاز میں سوار ہو گئے تھے ۔اب وہ میاں محمد نواز شریف اور شہباز شریف کے جانثار بنے ہوئے ہیں۔ اگر یہ واقعی جانباز ہیں تو ان کو ٹکٹ نہ دے کر آزمائیں اور ٹکٹ پارٹی کے خدمت گزاروں کو دیں۔ جعلی ڈگریوں والے آج نہیں تو کل پکڑے جائیں گے۔ اُس وقت کی بدنامی سے بہتر ہے کہ جعلی ڈگری ہولڈرز کی فلٹرنگ کر دی جائے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کو دشنام دینے والوں نے خود اسلام آباد میں چودھری نثار کی سربراہی میں دھرنی دی‘ دھرنی کیا ڈوب کے مرنی تھی جس میں 13جماعتوں نے حصہ لیا جن کے درسے اقتدار کی خیرات ملتی ہے، ان کے ہاں 13 کا ہندسہ منحوس ہے۔ چلئے پیپلز پارٹی کے مخالفین 36 سال بعد 9 (پی این اے) سے تیرہ ہو گئے جو ن لیگ کو مشکل میں دیکھ کر نو دوگیارہ ہونے میں دیر نہیں کریں گے۔ طاہر القادری کے پاس اپنی بات کرنے، اس کو دھماکہ خیز بنانے اور طوفان اٹھانے کا کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا تو انہوں نے لانگ مارچ اور دھرنے کا آپشن اختیار کیا۔ دھرنی والوں کے پاس قومی اسمبلی اور سینٹ ہے ان کو احتجاج، دھرنے اور مارچ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور جو مطالبات کئے گئے وہ کون پورے کرے گا؟ ہم نے جمہوریت جن سے سیکھی وہاں الیکشن کرانے کے لئے نگران حکومتیں نہیں بنتیں پاکستان میں تو نگران آکر الیکشن کرائیں گے۔ ہمارے ہاں نگرانوں کا انتخاب جمہوریت کے لئے نزاع کا عالم بن گیا ہے۔ عجب قسم کے مطالبات اور بیانات سامنے آرہے ہیں۔ سونامی خان کے لئے زرداری صاحب کی ایوان صدر میں موجودگی ناقابل برداشت ہے۔ زرداری صاحب کی ایوان صدر میں اپنی آئینی مدت کے اختتام تک موجودگی کی وکالت میاں محمد نواز شریف فرما رہے ہیں، جنہوں نے باقاعدہ گو زرداری گو کی مہم چلائی اور جس دھرنی سے چودھری نثار علی خان کھسک گئے اس میں بھی شرکاءگو زرداری گو کے نعرے لگاتے رہے۔
اب ن لیگ کو زرداری صاحب کے انتخابات کے دوران صدر رہنے پر تو اعتراض نہیں البتہ اس کو زرداری صاحب کے اور ان سے بھی قبل کے نامزد کردہ گورنروں کی موجودگی پر تحفظات ضرور ہیں۔ مرکز کے تعینات کردہ افسروں کی دیانت پر شبہ ہے۔ یہی کام سب سے بڑے صوبے میں خود بھی کیا ہے۔ جن لوگوں کو صدر کی موجودگی میں الیکشن پسند نہیں۔ جن کے گورنروں اور افسروں کے تقرر پر تحفظات ہیں وہ سڑکوں پر آکر چھتوں پر چڑھ کر دہائی نہ دیں آئین میں ترمیم کرنے کی کوشش کریں۔ جمہوریت اگر ڈی ریل ہوئی‘ انتخابات کی منزل کھو ٹی ہوئی تو اس میں ڈاکٹر طاہر القادری اور اپنی باری لے کر جمہوریت کے ثمرات سے سیر ہونے والوں کی طرح وہ بھی اتنے ہی ذمہ دار ہوں گے جو یہ کہتے پھرتے ہیں الیکشن سے قبل فلاں بھی جائے، فلاں بھی جائے۔ اب بتائیے صدر گورنروں کو گھر کیوں بھجوائیں گے صدر کو آخر کون استعفیٰ دینے کو کہے گا اگر صدر کو کوئی استعفیٰ دینے پر مجبور کرے گا تو الیکشن اس کی مجبوری نہیں ہوں گے۔ اس لئے یہ استعفیٰ دے وہ استعفیٰ دے کی ڈفلی بجانے والے اپنی راگنی کسی اور وقت کے بچا کے رکھ لیں، الیکشن ہونے دیں۔ جمہوریت جیسی بھی ہے اسے چلنے دیں۔ زرداری صاحب اور ان کے گورنر اسی جمہوریت کی عنایت اور عطا ہیں جس سے ن لیگ، عمران لیگ اور دیگر کو والہانہ عقیدت ہے۔ اگر مشرف صاحب بااختیار صدر اور مرضی کی نگران حکومت بنوانے کے باوجود اپنی پروردہ ق لیگ کو جتوانے سے قاصر رہے تو کوئی اور کس باغ کی مولی ہے جو انتخابات پر اثرانداز ہو کر کسی پارٹی کی جھولی میں جیت کی نعمت ڈال سکے۔ باقی کسی بھی افسر کے ممنون ہونے اور بے ضمیر ہونے میں بڑا فرق ہے کوئی بھی ملازم زرخرید نہیں ہوتا۔ ایسا ہوتا تو ضیاءالحق اپنے محسن کا تخت الٹا کر ان کو تختے پر اور پرویز مشرف اپنے مربی میاں محمد نواز شریف کو وزیراعظم ہا¶س سے ہتھکڑیاں لگا کر جیل اور بعدازاں جدہ نہ بھجواتے۔ استعفوں کا مطالبہ کرنے والے سسٹم پر اعتماد ووٹر پر اعتبار کریں اور الیکشن کے دن خود جاگیں اور کارکنوں کو بھی آنکھیں کھلی رکھنے کی تلقین کریں۔
No comments:
Post a Comment