ستمگرپھرستم ڈھانے پہ مائل ،ہم سہنے پہ آمادہ ؟
سپریم کورٹ نے پانچ اپریل تک جعلی ڈگری ہولڈرز کے کیس نمٹانے کا حکم دیا تو ماتحت عدلیہ نے ”پھٹے چک“ دئیے۔ جو ان کے ہتھے چڑھا اس کو قید و جرمانے کی سزا سنا کر جیل بھجوا دیا گیا۔ ابھی جیل میں ان قوم کے خدمت گزاروں کے کلف لگے کپڑوں پر شکن بھی نہیں پڑی تھی کہ انکی سزا¶ں کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے آنے لگے اور ان کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت بھی مل گئی۔ ریٹرننگ افسروں نے جن امیدواروں کو آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل قرار دیا الیکشن ٹربیونل میں جا کر وہ سرخرو ہو گئے۔ نگران وزیراعظم کی نامزدگی الیکشن کمشن نے کی جو قوم کو شفاف‘ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کی یقین دہانی کراتااور بے رحم سکروٹنی کے عزم کا اظہار کرتا رہا۔ آرٹیکل 62 اور 63 کے اسکی روح کے مطابق نفاذ کے دعوے اور کرپٹ نادہندہ‘ ٹیکس چور‘ جعلی ڈگری‘ دوہری شہر یت والوں اور بدکردار لوگوں پر الیکشن کے دروازے بند کرنے کے وعدے کرتا رہا۔ اس سے لگتا تھا کہ انتخابات میں وہی لوگ حصہ لے سکیں گے جن کو آئین سچا اور امانت دار سمجھتا ہے۔ ایسے لوگ ہی قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ یہ لوگ سرکاری اداروں میں روزانہ ہونے والی 12 ارب روپے کرپشن روک سکتے ہیں۔ جو ایک سال میں 43 کھرب روپے بنتی ہے۔ ملک پر بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب محض 5 کھرب کے قرضوں کی وجہ سے مسلط ہے۔ 43 کھرب کی لوٹ مار روک کر بجلی کی پیداوار کئی گنا بڑھائی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 20 ہزار میگاواٹ کے قریب ہے۔ ضرورت کبھی 18 ہزار میگاواٹ تھی جو فیکٹریاں‘ کارخانے اور چھوٹے موٹے کاروبار بند ہونے سے وزارت پانی و بجلی کے مطابق 4200 1میگا واٹ تک سکڑ گئی ہے۔ وہ بھی پوری نہیں ہو رہی۔ اس میں بھی 3500 میگا واٹ کا شارٹ فال ہے گویا پیداوار 10700 میگاواٹ ہے۔ اگر منصفانہ لوڈشیڈنگ کی جائے تو اس کا دورانیہ 6 گھنٹے سے زیادہ نہیں ہو سکتا جبکہ 12 گھنٹے سے کم تو کہیں بھی نہیں ہو رہی۔ بعض علاقوں میں 18 گھنٹے بھی ہوتی ہے۔ وزارت پانی و بجلی کے حکام بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ملک میں کہیں بھی 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی۔ شہری علاقوں میں 10 سے بارہ گھنٹے ہوتی ہے۔ 12 گھنٹے کی اعترافی لوڈشیڈنگ بھی ظلم ہے۔ یہ تو سات ہزار میگاواٹ کی صورت میں ہونی چاہئے جبکہ پیداوار10ہزار میگا واٹ سے زائد ہے۔ نگران حکمران سابق حکمرانوں کا پرتو اور آنےوالے حکمرانوں کا عکس نظر آتے ہیں۔ ٹھنڈی ہوا اور ابر رحمت کی نوید اور دیو کی آمد تباہ کن طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔نگرانوں کی پالیسیوں اور اقدامات سے کیا خوشبوئیں اٹھ رہی ہیں؟ ٹھنڈی ہوائیں آرہی ہیں؟ شبنم برس رہی ہے ؟ ایسا نہیں ہے‘ بلکہ گھٹن بڑھ گئی‘ حبس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے؟ گذشتہ پانچ سال میں قائداعظم کے پاکستان کے باسی زیر عتاب رہے۔ آج نگران اپنی نااہلیت کے باعث عذاب بن رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کیلئے وزارت خزانہ کو بیس ارب ریلیز کرنے کو کہا ، جس پر ”نو“ کہہ دیا گیا ۔نگران وزیر اعظم اس سبکی کو پی گئے یا حکم دے کر بھول گئے؟اگر بیورو کریسی کے سامنے وہ بے بس ہیں تو گھر تشریف لے جائیں۔ بجلی کے بحران کو ایک پارٹی دوسری پر سبقت لے جانے کیلئے استعما ل کررہی ہے۔ یہ بھی سوچنا ہوگا کہ وہ کہیں اپنے مفاد کی خاطر بحران کو بڑھاوا تو نہیں دے رہی۔ انتخابات کے نتیجے میں حق حکمرانی حاصل کرنے والے کم و بیش وہی ہوں گے جو پانچ سال عوام کی گردن پر مسلط رہے۔
دام ہر موج میں ہے حلقہ مہد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
جسٹس افتخار محمد چودھری کہتے ہیں کہ شفاف انتخابات ناکام ہو گئے تو جمہوریت مضبوط کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ جس طرح سے 62 اور63 کی چھلنی میں بڑے سوراخ ہوئے ہیں جس کے بعد شفاف انتخابات اور اسکے نتیجے میں انقلابی تبدیلیوں کی توقعات ایسے ہی ہیں جیسے کڑی دھوپ کا مسافر چشمے سے چھلنی میں پانی بھر کر پیاس بجھانے کی کوشش کرے۔ الیکشن کمشن کے کرنے کا اہم کام اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے انتظامات کرنا ہے۔ سپریم کورٹ بار بار اسے ایسا کرنے کو کہہ رہی ہے۔ الیکشن کمشن اس معاملے میں حیلہ سازی اور بہانہ بازی سے کام لے رہا ہے جبکہ نت نئے قوانین متعارف کرانے کو اپنا فریضہ سمجھتا ہے۔ قوانین آب زر سے بھی لکھے ہوں ان کا اطلاق نہ ہو تو اس کا فائدہ؟ آج کل ایسا ہی نظر آرہا ہے ذرا ان ترامیم کا جائزہ لیجئے جو صدر کی منظوری کے بغیر منظور کی گئیں۔ ان کا کہاں اطلاق ہوا؟ الیکشن کمشن کی شفاف انتخابات کیلئے بڑے عزم و ارادے سے کی جانے والی پیش قدمی پسپائی میں بدل گئی ہے۔ جس سے قوم کی تقدیر ایک بار پھر ان لوگوں کے ہاتھ میں جاتی دکھائی دیتی ہے جنہوں نے اسے پستیوں کی گہرائیوں میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔6 مارچ کو الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن ارکان پارلیمنٹ کی گردنوں میں پھندا ڈال دے‘ لگتا ہے یہ پھندہ اب عوام کے گلے میں پڑیگا۔ شاید عدلیہ بھی مصلحتوں کا شکار ہو گئی ہے۔ عوام اب بھی کسی حد تک اپنی تقدیر بدلنے پر قادر ہیں۔ وہ نگرانوں‘ الیکشن کمشن اور عدلیہ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھنے کے بجائے اپنے ووٹ کو 62 اور 63 کی چھلنی بنا لیں۔ یہ برادری ازم‘ دھڑا بندی‘ تعلقات اور دوستی سے بالاتر ہو کر ہی ہو سکتا ہے۔ 70 فیصد آبادی تو سیاسی شعور سے دور بہت دور ہے۔ انکی سوچ نوکریوں‘ نالیوں‘ تھانہ کچہریوں کی یرغمال بنی ہوئی ہے۔ پھر کیا جائے؟ ستمگر ستم ڈھانے پر مائل ہیںہم بھی ایک بار پھر ستم سہنے پر آمادہ ہو جائیں۔
No comments:
Post a Comment