جنگلا بس ادھورا منصوبہ‘ پورا افتتاح
لاہور میں اپنی
مثال آپ ایک اچھوتے منصوبے میٹرو بس سروس کے ادھورے منصوبے کا مکمل افتتاح
دو روز قبل 10فروری 2013ءکو بڑی دھوم دھام ، شان و شوکت، متوالوں کے پُرجوش
بھنگڑوں ، دھمالوں میں ہوا ۔ اس موقع پر لاہور کو بینرز ہورڈنگز او ر پھول
کلیوں سے دلہن کی طرح سجانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس منصوبے کے آغاز سے ہی
اسکی ہجو اور رجز کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ جو ہنوز جاری اور بدستور چلتا
رہے گا۔ موٹروے‘ پیلی ٹیکسی اور سستی روٹی کے منصوبوں پر آج بھی تنقید ہو
رہی ہے اور تحسین بھی۔ مسلم لیگ ن والے جس منصوبے کو ایک کارنامہ اور ملکی
ترقی کا راز قرار دے رہے ہیں۔ سیاسی حریف اسے جنگلا بس سروس کا نام دے کر
بھڑاس نکال رہے۔ جنگلا بس سروس کا نام میاں محمد شہباز شریف کے پیشرو
چودھری پرویز الٰہی نے دیا۔ اس منصوبے کو لاہور کی تقسیم کی سکیم بھی کہا
جاتا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کا اصرار ہے کہ ان کا انڈر گراونڈ ریلوے
منصوبہ بہترین تھا جسے اس لئے دفن کر دیا گیا کہ اسکی شروعات کا کریڈٹ ان
کو جانا تھا۔ میٹرو بس منصوبے کے خالق انڈر گراونڈ ریلوے کو اخراجات کے
حوالے سے سفید ہاتھی قرار دیتے ہیں۔ انڈر گراونڈ ریلوے 240 ارب روپے سے
مکمل ہونا تھا جبکہ میٹرو بس اس کے مقابلے میں بقول شہباز شریف انتہائی کم
30 ارب روپے سے مکمل ہوا۔غیر جانبداری اور ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو
انڈر گراونڈ ریلوے کا کوئی مقابلہ ،موازنہ اورمتبادل نہیں ہے۔ محض اخراجات
کی وجہ سے اسے مسترد کرنا افسوسناک ہے۔ انڈر گراونڈ ریلوے تکمیل کے بعد سفر
کا سستا ترین ذریعہ ہوتا۔ اسکی افادیت تو مسلمہ تھی۔ میٹرو بس سروس جہاں
جہاں چل رہی ہے۔ اسکے نیچے کی زمین کا کوئی مصرف نہیں ہے۔ انڈر گراونڈ
ریلوے منصوبہ بن جاتا تو اس کے اوپر ضرورت کے مطابق میٹرو بس کا منصوبہ
کبھی بھی بن سکتا تھا۔ جہاں تک اخراجات کی بات ہے تو یہ وقتی مشکل ہوتی ہے۔
لوگوں نے موٹروے کی اسکے اخراجات کے باعث ہی بھرپور مخالفت کی تھی۔ اگر
موٹروے کے مخالفین کے اعتراضات پر میاں نواز شریف سرنڈر کر جاتے تو پاکستان
ایک بہترین منصوبے سے محروم رہ جاتا اور وہ رقم جو موٹروے پر صرف ہوئی وہ
انہی جیبوں اور توندوں اور بنک اکاونٹس میں اتر جاتی جن میں رینٹل منصوبوں
کے اربوں روپے ہضم ہو گئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اس منصوبے کو
عظیم ترین قرار دیتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ مختصر ترین مدت اور انتہائی
کم لاگت سے مکمل ہوا۔ جس کو کم لاگت کہا جا رہا ہے، سابق وزیراعلیٰ چودھری
پرویز الٰہی ا سے سرمائے کا ضیاع سمجھتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اس پر 30
نہیں 70 ارب روپے لاگت آئی۔جنگلا بس نے پنجاب کو کنگلا کردیا۔ سیاست میں
ایک دوسرے کی تمبی اسی طرح اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ الزاماتی سیاست سے
عام آدمی کنفیوژ رہتا ہے۔ وہ حقیقت کی تہہ تک نہیں پہنچ پاتا۔ البتہ جہاں
تک مختصر ترین مدت میں تکمیل کے دعوے کا تعلق ہے تو اس کی حقیقت پر کوئی
گردوغبا ر نہیں ہے۔ صرف بس چلا دینے سے منصوبہ مکمل نہیں ہو جاتا۔ کیا بس
چلنے کے بعد لاہور پہلے والی شکل میں آگیا ہے؟ چلتی میٹرو بڑی دلکش اور
سہانی لگتی ہے۔ نیچے اور اردگرد سے گزرنے والے اب بھی مشکلات میں گھرے ہوئے
ہیں۔ میٹرو روٹ جنت نشاں ہے تو ارد گرد کے راستے جہنم فشاں بنے ہوئے
ہیں۔گیارہ ماہ میں منصوبے کی تکمیل کی کیا منت مان رکھی تھی۔ میٹرو منصوبہ‘
انڈر گراونڈ ریلوے کے مسترد ہوتے ہی شروع ہو جاتا تو وہ افراتفری نہ ہوتی
جس کے باعث لاہور 11 ماہ عذاب میں پھنسا رہا اور اب بھی یہ عذاب ٹلا نہیں۔
پورے چار سال کیا اسی انتظار میں رہے کہ آخری 11 ماہ میں بلے بلے کرائیں
گے؟ میٹرو بس کے روٹ کے اردگرد اب بھی کام جاری ہے۔ بجلی کی سیڑھیاں کہاں
چل رہی ہیں؟۔جگہ جگہ ٹریفک روک کرجنگلوں کی آرائش جاری ہے اگر یہ کام
ہنگامی بنیادوں پر الیکشن سے قبل مکمل نہ کرائے گئے تو ادھڑے اور کٹے پھٹے
لاہور کی رفوگری میں آنے والی حکومت شاید دلچسپی نہ لے۔بہرحال پرویز الٰہی
کے انڈر گراونڈ ریلوے منصوبے سے بڑے کیڑے نکالے گئے۔ میٹرو بس منصوبے سے
بھی مکوڑے نکالے جا رہے ہیں۔ انڈر گراونڈ ریلوے منصوبہ دفن ہوا۔ میٹرو بس
عملی شکل اختیار کرکے سامنے ہے۔ اس میں کوئی جھول ہے‘ بدنظمی یا کرپشن ہوئی
ہے تو عدالتیں موجود ہیں‘ نئی حکومت اگر کسی دوسری پارٹی کی بنی تو وہ بھی
ایکشن لے سکتی ہے۔ اب سب مل کر اسے سلسلے کو کامیاب بنائیں۔ پرویز الٰہی
کے 1122 اور وارڈن سسٹم کی طرح۔۔۔ میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ موقع ملا تو
کراچی اور دوسرے شہروں میں بھی ریپڈ بس سروس کا اجرا کریں گے۔ یہ اچھی
خواہش ہے۔ دوسرے شہروں میں بھی سفر کی ممکنہ حد تک بہترین سہولتیں میسر
ہونی چاہئے لیکن اس کیلئے باقاعدہ پلاننگ کی جائے‘ افراتفری‘ ہلے گلے اور
پھڑ لﺅ پھڑ لﺅ کی نوبت نہ آنے دی جایا کرے۔ اب پرویز الٰہی صاحب بھی غصہ
تھوک دیں۔ میٹرو بس سے جتنے لوگوں کو اچھے سفر کی سہولت مل رہی ہے وہی
غنیمت ہے‘ انکی حکومت آئیگی تو وہ اپنی مرضی کے منصوبے بنا لیں۔ انڈر
گراونڈ ریلوے بنانے کا شوق ہے تو لاہور کے اردگرد سرکولر ریلوے بنا دیں۔
میٹرو منصوبے کو اسی طرح چلنے دیں اس کا وہ حشر نہیں ہونا چاہئے۔ جو میاں
صاحب نے وزیر آباد کارڈیالوجی ہسپتال کا کیا۔ پرویز الٰہی کے دور میں تعمیر
ہونیوالا ہسپتال بھائیں بھائیں کر رہا ہے۔ چلو انڈر گراونڈ ریلوے نہ سہی
شہباز شریف نے میٹرو بس چلا دی ورنہ یہ 30 یا بقول پرویز الٰہی 70 ارب چند
بڑے لوگوں نے ہضم کرلیے تھے۔شہباز شریف نے ادھورے منصوبے کا مکمل افتتاح
کردایا ، خوش گمانی رکھیںیہ کبھی مکمل بھی ہو جائے گا۔
No comments:
Post a Comment