About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, April 25, 2013

عوام پارس تو وہ سونارس


عوام پارس تو وہ سونارس

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
17 مارچ 2013 0
ایک صبر آزما انتظار کے بعد بالآخر ویٹی کن سٹی کے سسٹین چیپل کی چمنی سے بار بار سیاہ دھواں اٹھنے کے بعد سفید دھویں کے لہراتے اور بل کھاتے ہی دنیا کے کونے کونے میں موجود کیتھولک مسیحی اطمینان اور سرشاری کی کیفیت میں نظر آئے۔پوپ بینڈکٹ شاز دہم (16) نے خرابی صحت کی بناءپر گزشتہ ماہ استعفیٰ دےدیا تھا۔ نئے پوپ کے انتخاب کیلئے 115 کارڈینلز 13 مارچ کو صبح دس بجے سینٹ پیٹرز بیسیلیکا میں جمع ہوئے لیکن شام تک وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو شام کو چمنی سے کالا دھواں نمودار ہوا جو اس بات کا پیغام تھا کہ کارڈینلز چار بار ووٹنگ کے باوجود کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے‘ اس لئے ایسا ہی اجلاس دوسرے روز بھی ہوا۔ ہزاروں لوگ دنیا کے کونے کونے سے ویٹی کن سٹی میں سفید دھویں کے انتظار اور پھر نئے پوپ کے پہلے دیدار کیلئے جمع تھے۔ نئے پوپ کے انتخاب کیلئے دو تہائی کی طرف سے اعتماد کا اظہار ضروری ہے۔ 14 مارچ کو جیسے ہی ارجنٹائن کے کارڈنیل جارج ماریو برگوگلیو کے نام پر اتفاق ہوا توسسٹین چیپل کی چمنی سے سفید دھواں نمودار ہو گیا۔ پاپائیت کی 600 سالہ تاریخ میں پوپ بینی ڈکٹ پہلے پوپ ہیں جو مستعفی ہوئے۔ پوپ کے انتخاب کے لئے چمنی سے اٹھنے والا کالا دھواں سیاہ بد بختی اور سفید دھواں خوش بختی کی علامت نہیں بلکہ سیاہ دھواں انتخابی عمل کے جاری رہنے اور کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے تک کا عندیہ ہے۔ اسکے نمودار ہونے سے باہر پوپ کے تقرری کی نوید سننے کے منظر لوگ پریشان ضرور ہو جاتے ہیں۔ جبکہ سفید دھویں سے اطمینان اور سرشاری طاری ہو جاتی ہے۔ہمارے ہاں دھویں کی رنگت کی کوئی اہمیت نہیں۔ اہمیت اس کی ہے کہ وہ کہاں سے اٹھتا ہے۔ غریب کی کٹیا اور مزدوروں سمیت جلنے والی فیکٹریوں اور بمع مسافروںجلنے والی گاڑیوں اور جہازوں سے اٹھنے والا کلرفل دھواں زہر اور انسانیت کا دشمن لگتا ہے۔ اینٹوں کے بھٹوں اور فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلنے والا سیاہ دھواں من کو بھاتا اور دل میں کلیاں بکھیر دیتا ہے کیونکہ اس دھویں میں روزی و روزگار کی نوید سعید لہرا رہی ہوتی ہے۔اگر ہم وقتی طور پر سفید دھویں کو خوش بختی اور سیاہ کو اسکے برعکس مان لیں تو 2008ءکے انتخابات کے بعد ایوانِ صدر، وزیراعظم ہاﺅس، پنجاب کے گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاﺅس سے سفید دھواں اٹھتا ہوا نظر آیا۔ 90ءکی دہائی کی حریفانہ سیاست شریفانہ سیاست کا روپ دھارے ہوئے تھی۔ جنرل (ر) پرویز مشرف سلطانی جمہور کی کارفرمائی کے بعد بھی کم و بیش پانچ ماہ ایوان صدر میں موجود رہے۔ اس دوران بھی ایوان صدر کی چمنی سے سفید دھواں اٹھتا رہا۔ اسی کے مرغولوں میں ہی ن لیگ کے وزراءنے مشرف سے حلف لیا تھا۔ زرداری صاحب صدر بنے تو ایوانِ صدر سے اُٹھنے والے دھویں کی کیفیت یہ ہو گئی کہ ....دل سے اٹھتا ہے کہ جاں سے اٹھتا ہےیہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہےلیکن پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہاﺅس سے سفید یعنی امن و شانتی کا دھواں تین ساڑھے تین سال تک اٹھتا رہا بالآخر ایوان صدر، پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور گورنر ہاﺅس سے نکلنے والے سفید دھویں کی جگہ سیاہ دھویں نے لی تو گویا پوری قوم تاریکیوں کی لپیٹ میں تھی۔ شب تاریک طاری کرنے کے سبھی ذمہ دار ہیں، وہ بھی جن کا اس میں براہِ راست ہاتھ ہے اور وہ بھی جنہوں نے قدرت رکھتے ہوئے اس دستِ ستم کو نہیں روکا۔ ان کو اپنے اپنے سسٹین چیپل سے سفید دھواں اٹھانے کا موقع ملا جو ضائع ہوتا نظر آ رہا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے سیاستدانوں نے عظیم مثال قائم کی۔ وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی، اپوزیشن لیڈر اکرم درانی کے گھر گئے اور نگران وزیر اعلیٰ کی بڑی خوش اسلوبی سے تقرری ہو گئی۔ ادھر مرکز، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں صورتحال پر اب بھی گرد و غبار چھایا ہوا ہے۔ مرکز میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو ایک دوسرے کے نامزد امیدوار پسند نہیں آئے حالانکہ تمام کے تمام پاکستانی ہیں اور ان پر ایسے الزامات نہیں ہیں جن کی زد میں زرداری، گیلانی، راجہ اور نواز شریف رہے ہیں۔ آخری دن تک معاملے کو لے جانا یا لٹکائے رکھنا ہمارے سیاستدانوں کی ”نیک نیتی“ کا غماز ہے۔ نگران وزیراعظم کی تقرری تو آئین کے مطابق ہو ہی جائیگی۔ اگر انکے نام پر چند ہفتے قبل اتفاق رائے ہو جاتا تو ان کو اپنی کابینہ تشکیل دینے اور حکومتی امور چلانے میں آسانی ہوتی۔ 90ءمیں بینظیر بھٹو کی حکومت توڑی گئی تو اسمبلی میں انکے بدترین مخالف غلام مصطفی جتوئی کو نگران وزیراعظم بنا دیا گیا تھا۔ 18ویں ترمیم میں ایک غیرجانبدار نگران وزیراعظم کی تقرری کو یقینی بنا دیا گیا ہے لیکن اب ہمارے سیاستدانوں کی نظر میں 6 میں سے ایک فرد بھی قابل اعتبار نہیں ٹھہرتا۔ گویا اس موقع پر بھی سیاہ دھواں اٹھ رہا ہے۔ سندھ اسمبلی میں مار دھاڑ وہ بھی لگاتار ہوتی رہی۔ کل اس نے اپنی تنخواہوں میں جولائی 2011ءسے 60 فیصد اضافہ کر لیا۔ وزیر اعلیٰ کو شاہانہ مراعات تاحیات ملیں گی۔ یہ بھی سیاہ بختی کی ایک مثال ہے۔ مرکز نے آئینی مدت کے آخری دن ہفتے کی چھٹی منسوخ کر دی تاکہ جو کسر رہ گئی آخری دن پوری کرلی جائے۔مرکز اور صوبوں میں دھڑا دھڑ تقرریاں ہورہی ہیں من پسند افسروں کو ترقیاں دی جارہی ہیں اور کچھ کی مدتِ ملازمت میں اضافہ کیا جارہا ہے ۔  جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار میں آنے والوں نے ستم آزمایا اور عوام نے جگر۔ اب ایک بار پھر عوام کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنی تقدیر کے فیصلے کرنے کا اختیار جس کو چاہے دے دیں۔ ستمگروں، ستم پروروں کو یا انسانیت کا جذبہ رکھنے والوں کو۔ آزمائے ہوئے میدان انتخاب میں ہیں وہ بھی جن کی آزمائش نہیں ہوئی۔ بڑی برائی سامنے ہے اور چھوٹی بھی۔ ووٹر پارس ہو تو اسکے اثرات ضرور سامنے آئینگے۔ سنا ہے کہ پارس (پتھر)کو لوہے پر رگڑا جائے تو لوہا سونا بن جاتا ہے۔ ممکن ہے یہ فرضی کہانی ہو لیکن یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ سرینگر کے قریب سونمرگ علاقے میں چرواہے اپنی بکریوں کے سینگوں پر لوہے کا خول اور پاﺅں میں کڑے ڈال دیتے ہیں تاکہ کہیں پارس موجود ہو تو اس سے ٹکرا کر وہ سونا بن جائیں‘ یہ بھی شنید ہے کہ سونارس ایسا سونا جسے لوہے پر رگڑا جائے تو اس میں وقتی طور پر سونے جیسی خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں۔ جس طرح لوہے پر مقناطیس رگڑنے سے لوہے میں عارضی طور پر مقناطیسی خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں۔ سونا بنانے کا خبط سونے کے استعمال کے ساتھ ہی سامنے آ گیا تھا۔ کیمیائی عمل سے بنایا جانیوالا سونا حضرت امام جعفر صادق کے بقول 80 سال بعد اپنی افادیت کھو دیتا ہے‘ اگر ہمارے مسائل کا حل جمہوریت ہے تو زمام اقتدار ایمان دار لوگوں کے ہاتھ میں دینا ہوگی۔ ووٹر پارس اور سونارس بن کر بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ نگرانوں سے عوام کی بڑی امیدیں ہیں۔ وہ انتخاب اور حساب کا عمل ساتھ ساتھ چلائیں۔ جن شخصیات پر مقدمات ہیں انکی حیثیت کو دیکھے بنا ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کریں۔ جن کے گرد استثنیٰ کا لبادہ تھا وہ اتر چکا ہے۔ کچھ کام الیکشن کمیشن کرے تو باقی نگران کر لیں تاکہ ہر طرف خوش کن دھویں کی لپٹیں لہراتی نظر آئیں۔

No comments:

Post a Comment