About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, April 25, 2013

احساسِ جرم، اعترافِ جرم


احساسِ جرم، اعترافِ جرم

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
25 اپریل 2013 0
خوجک پاس پاکستان کی شاہکار ریلوے سرنگ ہے۔ یہ ہندوستان سے افغانستان تک آسان رسائی کے لئے تعمیر کی گئی۔ لمبائی چار کلومیٹر سے صرف 88 میٹر کم ہے۔ تعمیر کا آغاز 14 اپریل 1888ءکو ہوا۔ پراجیکٹ انجینئر نے تین سال میں تکمیل کا وعدہ کیا تھا۔ ہندوستان میں چونکہ مطلوبہ مہارت کے انجینئر اور کاریگر دستیاب نہیں تھے اس لئے انگلینڈ سے مطلوبہ سامان کے ساتھ 66 انجینئرز اور کانکن بلوائے گئے‘ ہزاروں مزدور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے بھرتی کئے گئے۔ پہاڑی سلسلے خواجہ عمران کے دونوں طرف سے سرنگ کی کھدائی کا کام بیک وقت شروع ہوا۔ یہ پہاڑی سلسلہ شیلا باغ اور شانزلا کے دیہات کے درمیان کوئٹہ سے 113 کلومیٹر دور ہے۔ سرنگ کی تعمیر جنون کے ساتھ شروع کی گئی لیکن جلد ہی علاقے کے مخصوص موسم نے مزدوروںکے حوصلے پست کر دئیے۔ سردیوں میں یخ بستہ ہواﺅں کے پہلے ہلے میں 8 سو مزدور اجل کو لبیک کہہ گئے‘ جو بچ نکلے ان پر مایوسی اور موت کا خوف طاری تھا۔ وہ بددل ہو کرراہِ فرار اختیار کرنے لگے۔ اس صورتحال سے انگریز حکومت تشویش میں مبتلا ہو گئی۔ پراجیکٹ کی بروقت تکمیل اسکی ترجیحات میں اولین تھی ۔ جو مزدوروں کو وہاں ٹھہرائے بغیر ممکن نہ تھی چنانچہ انکی تفریح طبع کا سامان فراہم کر نے کی ترکیب نکالی گئی‘ اس مقصد کیلئے کلکتہ کی رقاصہ شیلا کو پراجیکٹ کی جگہ لایا گیا۔ مزدور دن بھر کے کام سے فارغ ہو کر سرشام وادی میں سٹیج کے گرد اکٹھے ہو جاتے۔ مٹی کے تیل کے ہزاروں لیمپ ماحول کو پرنور بنا دیتے تھے‘ یوں معلوم ہوتا کہ قوسِ قزح اپنے تمام رنگوں کے ساتھ زمین پر اتر آئی ہے۔ اس دوران دل فریب سروں کے زیر و بم میں گھنگروﺅں کی جھنکار، بادِصبا کے جھونکوں کے ساتھ شبنم کی پھوار بن کر حاضرین کے دلوں میں ہلچل اور جذبات میں تلاطم مچا دیتی۔ ایسے میں شیلا شوخ لباس میں، زلفوں کو جھٹکاتی جسم کو لچکاتی ہوئی نمودار ہو کر ہر ایک کی توجہ کا مرکز بن جاتی۔سنگِ مر مر سے تراشے ہوئے بدن کو لہرا کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تو انگ انگ سے مستی پھوٹتی جس پر دیکھنے والے بے خودی میں آنکھیں تک جھپکنا بھول جاتے۔ محسوس ہوتا کہ وقت تھم گیا ہے۔ محفل کے اختتام تک مزدوروں کی تھکن اور پردیس کی اداسی دور ہو چکی ہوتی اور اگلی شب ایسے ہی رقص کا نظارہ اور حسن کی دیوی کے دیدار کی حسرت لئے سونے کیلئے خراماں خراماں چل دیتے۔ یاد رہے کہ اسی شیلا کی نسبت سے اس علاقے کا نام شیلاباغ رکھا گیا۔
سرنگ کی کھدائی حکومت کی توقعات اور پراجیکٹ منیجر کی خواہشات کے مطابق ہو رہی تھی‘سرنگ کا ایک بڑا حصہ مکمل ہو چکا تھا‘ تین سال مکمل ہونے میں چند دن تھے کہ پراجیکٹ انچارج کو شک ہوا کہ سرنگ کے دونوں سرے شاید آمنے سامنے نہیں رہے اور پھر وہ دن بھی آ گیا جب سرنگ کی کھدائی مکمل ہونا تھی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ مقررہ دن گزر چکا تھا۔ اگلے روز مایوس انگریز انجینئر نے حسرت بھری نظر اپنے پراجیکٹ پر ڈالی اورایک طرف چل دیا۔ ادھر وہ نظروں سے اوجھل ہوا ادھر ایک کانکن کی کدال نے سرنگ کے دونوں حصوں کے درمیان کھڑی دیوار میں سوراخ کرڈالا۔ ایک دن کی تاخیر سے انجینئر کا منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوا ۔ ایک نوجوان کدال سے آرپار ہونے والے سوراخ کو دیکھ کر انجینئر کو خوش خبری سنانے کیلئے بھاگا لیکن اسکے پہنچنے سے قبل ہی عظیم انجینئر خودکشی کر چکا تھا۔ محض ایک دن کی تاخیر کو وہ اپنا جرم سمجھا اور اس احساس جرم کے باعث اس نے اپنی جان لے لی۔ ہمارے ہاں ہر پراجیکٹ اپنی اصل مدت سے دو تین گنا زیادہ تاخیر اور اخراجات کا شکار ہو جاتا ہے لیکن کسی کے دل میں احساسِ جرم نہیں جاگتا۔ 8.5 کلومیٹر چترال کو دیر سے براہ راست ملانے والی لواری ٹنل کی تعمیر 1956ءمیں شروع ہوئی جو آج بھی زیر تکمل ہے۔
 ہمارے ہاں بڑے بڑے جرم ہوتے ہیں لیکن احساس جرم نہیں ہوتا۔ احساس تو تب ہو اگر نیت صاف ہو۔ جرم کو جرم سمجھا ہی نہیں جاتا۔ ہر پراجیکٹ کو کمائی کا ذریعہ سمجھ کر شروع کیا جاتا ہے۔ پلاننگ کے تحت قومی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کو اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ آئین کی پروا نہ قانون کی پکڑ کا خوف ہے۔
قوم کے رہنماﺅں اور بیوروکریٹس کے جرائم کے عدم احساس نے قوم و ملک کی ترقی و خوشحالی کی راہیں مسدود کر دیں۔ عوام کو بحرانوں کے جنجال میں پھنسا دیا‘ ان کو انجام تک کیوں نہ پہنچا یا جائے! آئین اور قانون کو پائمال کرنے والا سب سے بڑا مجرم قانون کی گرفت میں ہے۔ وہ اور اسکے ساتھی ملک اور قانون کے شکنجے سے باہر نکل نہ پائیں۔سپریم کورٹ اپنا شکنجہ مزید سخت کردے۔
تین نومبر 2007ءکو ایمرجنسی پلس کا نفاذ چیف آف آرمی سٹاف کے حکم نامے پر ہوا۔ حکم نامے کے مطابق ”وزیراعظم، چاروں گورنرز، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، مسلح افواج کے سربراہوں وائس چیف آف آرمی سٹاف اور تمام کور کمانڈرز کے ساتھ اجلاس میں ساری صورتحال کا جائزہ لیا گیا چنانچہ ان اجلاسوں کی کارروائی اور فیصلوں کے مطابق آرمی چیف (جنرل پرویز مشرف) نے پورے ملک میں ایمرجنسی کا فرمان جاری کیا“
3 نومبر کے اقدام کو سپریم کورٹ نے 31جولائی 2009ءکو غداری قرار دیا جس کی پاداش میںاب سپریم کورٹ ان پر مقدمہ چلانے کا ارادہ باندھ چکی ہے لیکن 3 نومبر 2007ءکا جرم اس جرم کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا جو جنرل مشرف نے جمہوری اور منتخب حکومت کا تخت الٹا کر کیا تھا۔ 12 اکتوبر اور 3 نومبر کے جرم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ بالترتیب قتل کے مقابلے میں بازو مروڑنے کے مصداق ہے۔ آج بازو مروڑنے پر مشرف کو تختہ دار پر چڑھانے کی تیزی دکھائی جا رہی ہے۔ جس جرم کے تحت ان پر آرٹیکل 6 کا اطلاق ہو سکتا ہے اس کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ قاتل کو معاف کرنے سے اسکی سزا ختم ضرور ہوتی ہے ،اقدام یعنی وقوعہ ختم نہیں ہو سکتا۔12 اکتوبر 1999ءکا اقدام صریحاً آئین شکنی اور قانون کا قتل ہے۔ اس میں جو بھی جس حیثیت میں بھی شامل رہا مجرم ہے۔ مشرف کے ساتھی جرنیل محمود، عثمانی اور دیگر مشرف جیسے ہی آئین شکن ہیں جنہوں نے مشرف کی غیر موجودگی میں ان کیلئے سٹیج تیار کی۔ آئین شکنی کو جائز قرار دینے والے ججوں کے پاس ایسا کرنے کا کیا جواز تھا اور پھر وہ سیاستدان بھی مجرم ہیں جو مشرف کی غلامی کا ڈھول بجاتے رہے۔ مشرفی آمریت کی حمایت کرنے اس کو جائز قرار دینے والے یقینا مجرم ہیں۔ جنرل ضیاءالحق اور انکے ساتھیوں نے بھی یہی کچھ کیا‘وہ اس کیٹگری سے باہر کیوں رکھے جائیں؟ ایوب خان اور انکے ساتھیوں کو کیوں بخشا جائے۔ سپریم کورٹ اگر دس بارہ ہزار آئین شکن سیاستدانوں، جرنیلوں، ججوں اور بیوروکریٹس کے گلے پھندا ڈال دیتی ہے تو معاشرہ ہمیشہ کیلئے غلاظت سے پاک ہو سکتا ہے، یہ خسارے کا سودا نہیں۔ ہمیں تباہی کے گڑھے میں گرنے سے صرف او رصرف ایسا یا اس جیسا اقدام ہی بچا سکتا ہے۔ اس سے شاید کسی کو بھی اختلاف نہیں ہو گا شاید ان کو بھی نہیں جن کی اپنی نسلوں کی بہتری کیلئے پھندے میں اپنی گردن آ رہی ہو گی۔ البتہ ہزاروں گردنیں بچ سکتی ہیں اگر وہ لوگ احساس جرم اور اعتراف جرم کرکے قوم سے معافی مانگ لیں ، قومی خزانے سے لوٹی اور اپنے اوپر استعمال ہونے والی پائی پائی واپس کر دیں۔


No comments:

Post a Comment