About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, January 30, 2013

آرٹیکل 62-63 آفت یا عفریت نہیں



کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
آئین کی دفعہ 62-63کے ان کی روح کے مطابق اطلاق کی گونج سے بلا تخصیص اور بلا امتیاز ہر سیاسی پارٹی کے اندر کہرام، طوفان اور افراتفری کی کیفیت ہے ۔عمران خان جو ، اس شق کے اطلاق کے بڑے حامی تھے ،انہیں بھی اب اس آرٹیکل کے غلط استعما ل سے انتقام کی بو آرہی ہے ۔ پہلے اس کے عدم نفاذ کا رونا ، اب جبکہ یہ عمل میں آنے کوہے تو انتقام کا واویلا! 62-63 کے ممکنہ اطلاق سے اس کی زد میں آنیوالوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ان کی اگلے پانچ سال تک حکمرانی کی خواہش کے غبارے سے ہوا سابق سیکرٹری الیکشن کمشن کنور دلشاد نے یہ کہہ کر نکال دی کہ” 62-63 کا اطلاق ہوا تو موجودہ اسمبلیوں کے 70 فیصد ارکان نااہل ہو جائیں گے“۔چار سو پارلیمنٹیرینز کی ڈگریاں ابھی چیک ہونی ہیں ، دہری شہریت والے بھی اسی کی زد پر آئیں گے۔
ہمیں مسائل ، مصائب اور مشکلات کے الاﺅ میں صرف کرپشن کے جن نے پھینک رکھا ہے۔اس کو بوتل میں صرف اور صرف جمہوریت اپنے اصل روپ میں آکر ہی بند کرسکتی ہے ،وہ اسی صورت ممکن ہے کہ جمہوریت باکردار، ایماندار اور اہل لوگوں کے ہاتھ میں آجائے ۔ اس کے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کا حقیقتاً نفاذہو ۔ اس کی زد میں جو بھی آئے اسے راندہ درگاہ بنا دیا جائے۔کاغذات کی جانچ پڑتال کے لئے ضرورت ہو تو مدت دو ماہ بھی کی جاسکتی ہے۔ایک ایک امیدوار کی اس طرح چھان بین کی جائے کہ اس کے کردار پر کسی کے لئے انگلی اٹھانے کی گنجائش نہ رہے۔ امیدوار کے حلقے کے کسی بھی فرد کو اس پر اعتراض کا حق بھی دے دیا جائے تومزید تطہیر ممکن ہے۔
ہمارے پاس دنیا کے بہترین میں سے ایک آئین موجود ہے، جس کو مروجہ سسٹم کی کوکھ سے جنم لینے والے عزت مآب پالیمنٹیرینز موم کا پتلا سمجھتے ہیں۔جسے جب جیسے چاہا وہ اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال لیا۔ 62-63کوئی آفت یا عفریت نہیں ہے جس سے سیاستدان گھبرائے ہوئے ہیں۔پاکستان میں اس قدر بھی قحط الرجال نہیں کہ قیادتوں کو اس پر پورا اترنے والے لوگ نہ مل سکیں ۔یوں تو یہ آرٹیکل لمبا چوڑا ہے تاہم ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے اس کا نچوڑ پیش کیا ہے ملاحظہ فرمائیے؛ ” پارلیمنٹ کے رکن کا کردار اچھا ہو، وہ اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کی شہرت نہ رکھتا ہو۔(زور شہرت پہ ہے ،چھپ چھپا یہ نہیں) اسلامی تعلیمات کا علم رکھتا ہو اور گناہوں سے بچتا ہو، سچا ایماندار اور امین ہو اور فضول خرچ نہ ہو۔ کسی غیر اخلاقی جرم میں سزا نہ پائی ہو اور پاکستان کی آئیڈیالوجی اور اتحاد کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث نہ رہا ہو“۔دہری شہریت نہ رکھتا ہو،وغیرہ وغیرہ۔
آج ڈاکٹر طاہر القادری آرٹیکل 62-63 کے اطلاق کی علمبرداری بڑے جوش وولولے سے کر رہے ہیں ۔نظر آتا ہے کہ انہوں نے اس شق کی رسی کو بڑی مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے۔ لیکن کب تک؟ انہوں نے تو تین سال کے لئے عبوری حکومت کا نعرہ لگایا تھا۔ اسلام آباد تخت الٹنے کا دعویٰ کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے راجہ جنٹل کی گرفتاری کا حکم جاری کیا تو شیخ الاسلام نے سجدہ ¿شکر بجا لاتے ہوئے فرمایا ”آدھا کام آج ہو گیا ،باقی کل ہو جائے گا“ شکرانے مبارک بادیں کہاں گئیں؟۔ 20بائیس سال قبل ”شاعر انقلاب“ مظفر وارثی کو لاوارث چھوڑا، 17 جنوری کو دھرنے کے لاکھوں شرکاءکو۔ دوستوں کی محفل میں چودھری محمد صفدر اقبال اسلم گوندل صاحب(یہ ایک ہی شخص کا نام ہے، تاہم منہاجیوں کے، قائدِ مطلق، شیخ الاسلام، ڈاکٹر، پروفیسر، علامہ مولانا محمد طاہرالقادری کے نام جتنا بہرطور طویل نہیں ) نے خوبصورت تبصرہ کیا ”آئین کی شق 62-63 اور ڈاکٹر صاحب کی آرٹیکل62-63 میں اتنا ہی فرق ہے جتنا ثواب کے لئے آمین بالجہر کہنے یا صلوٰة پڑھنے اور دوسرے مسلک کو چڑانے کی نیت سے پڑھنے کا۔
جمہوریت دنیا کے بہترین نظاموں میں سے ایک ہے۔ ہمارے ہاں ٹھگوں کے ہتھے چڑھی تو کملا گئی اور گہنا گئی۔ آج عوام جمہوریت سے مایوس ہیں ۔ اس میں قصور جمہوریت کا نہیں اسے اپنے مقاصدکیلئے استعمال کرنے والے مجرم ہیں۔ان کا محاکمہ و محاسبہ ہونا چاہئے۔ ایک طرف عوام مشکلات کے قلزم میں غوطے کھا رہے ہیں، بجلی ہے نہ گیس نہ پانی، پٹرول اور ڈالر کی قیمتیں آسمان پر‘ مہنگائی اس سے بھی ذرا اوپر‘ بیروزگاری سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ لاقانونیت کا عفریت پھن پھیلائے ہوئے۔ دہشت گردی کا طوفان مچا ہے۔ اقربا پروری رشوت ستانی‘ سفارش کلچر اپنے عروج پر‘ کراچی جل رہا ہے‘ بلوچستان الا¶ بن گیا۔ حکمرانوں پر دَھن کی دُھن سوار ہے۔ کیا اسی کا نام جمہوریت ہے؟ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ڈیڑھ درجن فیصلے جمہوریت ماروں کے پا¶ں تلے کچلے گئے۔ چیف جسٹس صاحب کو اسی جمہوریت کو بچانے کی فکر ہے۔ آج پھر ایک کیس میں فرما دیا حالات کچھ بھی ہوں جمہوری عمل جاری رکھا جائے۔ محترم المقام اپنے وہ فیصلے گنیں جن پر اسی جمہوریت کے پروانوں نے عمل نہیں کیا؟ جنرل کیانی نے اگر مارشل لاءکیلئے حالات سازگار اور سیاستدانوں کے فراہم کردہ بہترین جواز کے باوجود بھی اقتدار پر قبضہ نہیں کیا اس کا مطلب یہ نہیں ان کو عدلیہ کا خوف تھا۔ ماشاءاللہ! جنرل کیانی وکھری ٹائپ کے فوجی ہیں۔ ان کو فوج کے وقار سے کتنا لگا¶ہے۔ اس کا اندازہ میمو کیس کے بدستور بھنور میں گھمن گھیریاں کھانے سے ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ برملا جرنیل صاحب کے بھائی کو نیٹو سپلائی کے ٹھیکے لینے پر جزبز ہیں۔ بحرانوں کی دلدل میں دھکیلنے اور قومی وقار‘ سالمیت اور خود مختاری کا سودا کرنے والوں کو گھورتے بھی نہیں۔ کون کہتا ہے جمہوریت کو ڈی ریل کیا جائے البتہ جمہوریت کو کسی سلیقے اور طریقے سے رواں رکھنے میں ہر کسی کو اپنا کردار تو ادا کرنا چاہئے۔
 آج جمہوریت ایک تماشہ بنی ہوئی ہے۔ وزیر داخلہ رحمن کراچی کے چھن جانے کی بات کرتے ہیں۔ ان کا بیان خوفناک اندوہناک اور سب سے بڑھ کر شرمناک ہے۔ یہ حالات ہی کیوں پیدا ہونے دئیے گئے۔ ایڈمرل فصیح بخاری کا بڑا احترام تھا۔ وہ چیئرمین نیب بنے تو دیانتداری کے بجائے اپنے آقا¶ں کی خوشنودی کے لئے فیصلے کرنے لگے۔ کس چیز کی کمی تھی ان کے پاس؟ آخری عمر میں چٹے جھاٹے میں راکھ ڈال لی۔ جمہوری ملکوں میں کیا ایسے ہی قومی خزانے کے رکھوالے ہوتے ہیں؟۔
پاکستان کی دو بڑی پارٹیاں پی پی پی اور ن لیگ کے درمیان انتخابات میں میچ پڑنے والا ہے‘ عمران خان کی پی ٹی آئی خود کو دونوں کا مقابل اور متبادل قرار دیتی ہے۔ چند ہفتے رہ گئے یہ گھوڑا اور یہ میدان ہو گا۔ البتہ آج ووٹر کے سامنے کوئی آئیڈیل پارٹی نہیں ہے۔ لوگ پھر جماعت اسلامی کے پرانے فلسفے چھوٹی اور بڑی برائی کے درمیان معلق ہوں گے۔ ن لیگ ہر کسی کو خریدنے میں مہارت رکھتی ہے تو پی پی سب کچھ بیچنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ پی ٹی آئی ابھی پختگی کے مراحل طے کر رہی ہے۔ این ایل مقبولیت کی رپورٹیں بھی مرتب کرا لیتی ہے اور کرپشن کی منظرعام پر آنے والی رپورٹیں واپس بھی کرا لیتی ہے۔ آئی آر آئی نے اسے مقبولیت میں سب پر سبقت دلا دی ۔پی ٹی آئی دوسرے اور پی پی تیسرے نمبر پر لائی گئی۔ ماہرین اسے فراڈ سروے قرار دیتے ہیں۔ قطع نظر اس سروے کے حقیقت یہ ہے کہ تھوڑے سے اگر مگر کے ساتھ انتخابات ہوئے تو میدان ن لیگ کے ہاتھ ہی رہے گا۔ پی پی سے دوسرا نمبر کوئی نہیں چھین سکتااتحادیوں میں اضافہ ہوا وہ مقناطیس کی طرح چمٹے رہے تو دوسروں کو پچھاڑ بھی سکتے ہیں۔ البتہ 62-63کے نفاذ سے پارلیمنٹ میں بہت سے نئے چہرے بھی ہوں گے۔ 62-63کا اطلاق ہوتا بھی نظر آتا ہے کیونکہ چیف الیکشن کمشنر غیر جانبدار اور عدلیہ فعال ہے۔







No comments:

Post a Comment