About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, April 25, 2013

مفاہمانہ مخاصمت


مفاہمانہ مخاصمت

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
24 فروری 2013 0
 انتخابات ہوںگے، نہیں ہوںگے، اس بحث کا موسم لَد چکا۔اب انتخابات کے انعقاد میںکوئی ابہام نہیں رہا۔تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرلیا اور اس کے مطابق اپنی اپنی صفیں درست کر رہی ہیں۔ ہماری سیاست معجزات یعنی انہونیوں کی سیاست ہے جس میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔اس حرفِ آخر کو کہہ مکرنیاں بھی کہا جاسکتا ہے۔انہونی کے امکانات اور خدشات تو ہروقت موجود رہتے ہیں۔الیکشن کمشن،عدلیہ اور فوج نے انتخابات کیلئے اپنی کمٹمنٹ ظاہر کرکے ان لوگوں کی توقعات پر پانی پھیر دیا جو اسمبلیوں کی مدت ایک سال بڑھانے کے حالات پیدا اور جواز تلاش کر رہے تھے یا تین سالہ عبوری سیٹ اپ کے سپنے دیکھ او ر دکھا رہے تھے۔فوج نے بھی بروقت الیکشن کرانے کی حمایت کی ہے۔ جہاں یہ سوال تو بنتا ہے کہ جنرل محمد ضیاءالحق نے صبح ایک ہاتھ سینے اور دوسرا کتاب مقدس پر رکھ کر ذوالفقار علی بھٹو کو حمایت کی یقین دہانی کرائی اور رات کو وزیراعظم ہاﺅس پر شب خون مارا جس سے ملک پر 11سال تک آمریت کی شبِ تاریک طاری رہی لیکن جنرل ضیا کی بھٹو کی حمایت اور کیانی کی جمہوریت کی حمایت میں بڑا فرق ہے اوردونوں حمایتوں کا نتیجہ بھی ایک جیسا ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔
 تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین نے اپنا اپنا کام شروع کردیا ۔ اتحاد،اتفاق، انضمام، گٹھ جوڑ،اکھاڑ پچھاڑ اور جوڑ توڑ کا آغاز ہوچکا ہے۔انتخابی شیڈول کا اعلان ہوتے ہی یہ معاملات عروج پر ہوں گے۔طاہر القادری نے اپنے ایجنڈے کی ابتدا ہی انتہا سے کی تھی۔ان کا پہلا اعلان ہی عبوری سیٹ اپ کا سامان کرنے کا تھا۔وہ اب تک اپنے ایجنڈے کی ابتدا اور انتہا کے درمیان محو سفر منزل کی تلاش میں ہیں۔ کچھ لوگ ان کے ایجنڈے کو سازش قرار دے کر سازش کے پیچھے سازش تلاش کر رہے ہیں۔کچھ کہتے ہیں کہ یہ مال کی وجہ سے وقتی و جذباتی ابال ہے ۔مال مُکا تو ابال بھی زوال پذیر ہوجائے گا۔ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو ڈاکٹرصاحب کے ایجنڈے اور خود ان کی ذات شریف کو جمہوریت کیلئے وبال سمجھتے ہیں۔بہرحال جو انہوں نے اب تک کیا، کمال کیا۔بقول ان کے انہوں نے پارلیمنٹ،قیادت،سیاست اور عدالت سب سے چہرے بے نقاب کردئیے۔وہ الیکشن کمشن کی تشکیل کے خلاف سپریم کورٹ گئے جہاں ان کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ تین دن کی سماعت کے بعد ان کی عدالت بد ری ہوئی، اس دوران کی درخواست سرے سے زیر بحث ہی نہیں آئی۔ اکثریتی رائے نے عدلیہ کے فیصلے کی تحسین کی، کچھ لوگ جن میں میرے دوست ٹی وی اینکر امیر عباس بھی شامل ہیں، طاہر القادری کے ساتھ سلوک کو جوڈیشل مرڈر قرار دیتے ہیں۔طاہر القادری کی بات سنی بھی جاتی تو الیکشن کمشن کی تشکیل نو محض نو دن میں ہوجاتی جس سے علامہ کو چیف کی تصویر اٹھانے،عدالتی سسٹم کی دھول اڑانے اور اپنی مظلومیت کا ڈھول بجانے کا موقع نہ ملتا۔ بہر حال حضرت صاحب بھی پورے پاکستانی بن کے دکھائیں۔ کینیڈا کی شہریت کو لات ماریں اور ایک بار پھر سیاست اورعدالت میں قسمت آزمائی کریں۔وہ جس انقلاب کی بات کرتے ہیں وہ انتخابی سیاست کے ذریعے لائیں۔
 انتخابات کے سر پر آنے سے مسلم لیگ ن دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا رہی ہے تو پی پی پی مفاہمت کے مزید جوہر دکھا رہی ہے۔عین انتخابات کی دہلیز پر متحدہ نے پی پی سے اپنی راہیں جدا کرلیں گویا مفاہمت ترک کرکے مخاصمت کا راستہ اپنا لیا۔مخاصمت میں بھی ایک مفاہمت ہے۔پی پی پی نے اس مفاہمانہ مخاصمت کے ذریعے ن لیگ کے سندھ میں قوم پرستوں کے ساتھ اتحاد کے نہلے پر مفاہمانہ مخاصمت کا دہلا مارا ہے۔ پی پی اور متحدہ تو اس مفاہمت کا اعتراف کرنے سے رہیں۔ شواہد اور مناظر یہی ہیں۔سندھ میں پی پی کی مقبولیت کی گرتی دیوار لوکل باڈی آرڈیننس کی واپسی کے بعد پھر سنبھل گئی۔ فنکشنل لیگ،این پی پی، اے این پی کے تحفظات دور ہوگئے۔پی پی پی کا جو ووٹ بنک کھسک رہا تھا وہ تھم گیا۔ دوسری متحدہ کو اپنے حلقوں میں خود کو مظلوم ثابت کرنے کا بھی موقع مل گیا۔اس کے ووٹ بنک میں کبھی کمی نہیں ہوئی اس مفاہمانہ مخاصمت سے مزید مضبوط ہورہا ہے،۔ اس کا اپوزیشن لیڈر بھی سامنے آچکاہے۔نگران حکومت پی پی اور متحدہ مل بیٹھ کر تشکیل دیں گی۔ کچھ حلقوں کو تشویش تھی کہ گورنر عشرت العباد نئے لوکل باڈی آرڈی ننس پر دستخط نہیں کریں گے۔وہ لندن گئے تو قائم مقام گورنر کے ذریعے ہاتھ کی صفائی سامنے آگئی پھربھی کوئی زرداری کی مفاہمت کا قائل نہ ہوتو اسے اٹوٹ ہٹ دھرمی ہی کہاجاسکتا ہے۔
 اسے قوم کی خوش بختی یا مروجہ سیاست و جمہوریت کو فروغ دینے والوں کی بد بختی کہیے کہ الیکشن کمشن جاگ رہا ہے۔فخر الدین جی ابراہیم نئی پارلیمنٹ کے دروازے پرچھلنی لئے کھڑے ہیں وہ ٹیکس نادہندگان،کرپشن میں ملوث،دہری شہریت اور جعلی ڈگری والوں و دیگر چھوٹی موٹی برائیوں کے عادی لوگوں پر پارلیمنٹ کے دروازے بند کرنے کیلئے عزم ہیں۔اس پر با اثر پارلیمنٹرین کا گویا تپتے توے پر پیر آگیا ہے۔چودھری نثار علی خان قومی اسمبلی میں دھاڑے، ان کا ساتھ فاروق ایچ نے ساتھ دیا۔ الیکشن کمشن پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف نے مل کر چڑھائی کی۔میڈیا پر بھی برسے کہ پارلیمنٹرینز کو دھوکے باز‘ ٹیکس چور‘ جعلی ڈگری ہولڈر کہا جا رہا ہے۔ الیکشن کمشن اپنے آپ میں رہنے کا درس دیا گیا۔چودھری نثار نے کہا میں ایم اے پاس ہوں،الیکشن کمشن نے جو کرنا ہے کرلے میں ڈگری نہیں دکھاﺅںگا۔ فاروق ایچ نائیک الیکشن کمشن کے اقدامات کو اوچھے ہتھکنڈے قرار دے رہے ہیں۔آخر یہ جذباتیت کیوں؟الیکشن کمشن پر گرج برس کراسے بلیک میل کرکے حکومت اور اپوزیشن آخر کیاچاہتی ہے؟ڈر خوف،ٹیکس چوروں، دہری شہریت اور جعلی ڈگری والوں کو ہوناچاہئے۔اگر آج کے تمام پارلیمنٹرین کا کردار صاف اور شفاف ہے تو الیکشن کمشن کواپنی تسلی کرلینے دیں۔ تنکے کا سن کر اپنی داڑھی پر ہاتھ نہ ماریں۔ انتخابات تو ضرور ہوںگے اور اپنے وقت پر ہوں گے۔اگر فخر الدین جی ابراہیم کی خواہش کے مطابق ہوئے تو اگلی پارلیمنٹ واقعی ویسی ہی ہوگی جو ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست کی ہوتی ہے ۔صاف شفاف اور ستھرے کردار کے لوگ ہی پارلیمنٹ میں پہنچ پائیںگے۔موجودہ پارلیمنٹیرین میں سے شاید دس فیصد ہی نئی پارلیمنٹ کا حصہ بن پائیں گے۔

No comments:

Post a Comment