مدبر سیاستدان!
چار فیکٹریوں کا بجلی میٹر ایک ہی تھا۔ مین میٹر کے ساتھ چار سب میٹر لگائے گئے تھے۔ بل کا حساب کتاب میرے ذمے تھا۔ انیس بیس کے فرق کے ساتھ سب میٹرز کی ریڈنگ مین کے برابر ہی رہتی۔ ایک مرتبہ کافی فرق آیا تو تھوڑی سی تگ و دو کے بعد ایک میٹر سلو پایا گیا تو زائد یونٹ اس فیکٹری کو ڈال دئیے ۔ اس کے مالکان کو گذشتہ مہینوں کے برابر بل آنے پر اطمینان تھا۔ اگلے ماہ مین اور سب میٹرز کی ریڈنگ میں بہت بڑا فرق تھا۔ بل بنائے گئے تو سلو میٹر والوں کا بل 22 ہزار زیادہ بن گیا جبکہ جس فیکٹری کے اندر میٹر لگے تھے ان کا بل پہلے سے کہیں کم تھا۔ اس روز بل آئے ہفتہ ہو چکا تھا۔ 22 ہزار فرق کا معمہ حل کرنے کے لئے ایک بار پھر میٹر دیکھے گئے تو معمولی بل والوں کے میٹر کی ریڈنگ ہفتہ قبل لی گئی ریڈنگ سے بھی 100یونٹ کم اور میٹر بند تھا۔ بجلی چوری ثابت ہو گئی۔ وضعدار لوگ تھے اس لئے معاملہ ہاتھا پائی اور ایسی تیسی پھیرنے تک نہ پہنچا۔
مسئلہ 22 ہزارکا تھا جو اصولی طور پر بجلی چوروں پر پڑنا چاہئے تھا۔ وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے تھے لیکن چاہتے تھے کہ سلو میٹر کی ریڈنگ ان کے کھاتے میں نہ پڑے۔ دونوں کسی معاملے پر متفق نہیں ہو رہے تھے تو معاملہ ساتھ ہی بڑے سپر سٹور کے مالک کے پاس لے جانے پر اتفاق ہوا۔ میری ان سے گپ شپ ہوتی رہتی تھی۔ وہ بن ٹھن کے رہتے ،کلف لگے لباس پر ویسکوٹ پہنتے، بڑے مدبر اور دانشور نظر آتے تھے۔ پتہ کیا تو ہفتہ بھر کے لئے ملک سے باہر گئے تھے، ان کی آمد کا انتظار ہونے لگا۔ واپس آئے توسارا معاملہ فریقین کی موجودگی میں ان کے گوش گزار کیا۔ انہوں نے اپنا تدبر آزماتے ہوئے، گھومنے والی کرسی سے ٹیک لگائی ایک مرتبہ نیم دراز ہوئے پھر ذرا سیدھے ہو کر بیٹھے اور فیصلہ سنایا” 22 ہزار تینوں فریقین پر برابر تقسیم کر دئیے جائیں“۔ میری حیرانگی ابھی بڑھ رہی تھی کہ ایک ساتھی سے پوچھا ”ملک صاحب تیسرا فریق کون ہے؟“ ملک صاحب نے بغیر بولے میری طرف اشارہ کر دیا۔ اس پر اصل فریقین پنچ کے تدبر پر تبریٰ نہ بھیجتے تو کیا کرتے۔ یہ سب تو میرے سامنے ہواالبتہ یہ فسانہ ایک بار پھر سن لیجئے؛۔ گاﺅں میںبڑی چوری ہو گئی۔ پولیس آئی، سن گن لینے کی کوشش کی۔ چوری کے محرکات جاننے کی جستجو جاری تھی کہ کسی نے کہا۔ فلاں بابا بڑا زمانہ ساز ہے اس کے پاس ضرور اس حوالے سے کوئی بھید ہو گا۔ پتہ کیا تو وہ کھوہ پر گیا ہوا تھا۔ دو گھنٹے بعد نتھا چوکیدار اسے لے آیا تو اس نے تھانیدار کو ذرا دور لے جا کر بڑی رازداری سے کہا یہ کام کسی چور کا ہے۔
ہمارے سیاستدان بڑے مدبر، دانشور اور زمانہ ساز ہیں۔ ان کے فیضانِ نظر سے مرجھائے ہوئے چہروں پر نور لہرا جاتا ہے۔ جس کو چاہیں وزیر لگا دیں، گورنر بنا دیں، پرمٹوں کی لائن لگا دیں، نوازشات کی برکھا برسا دیں۔ لیکن نگرانوں کے معاملے میں ان کا تدبر بے تدبیری کی تصویر بن چکا ہے۔ نگرانوں کی تعیناتی کے معاملے میں الجھاﺅ اور تناﺅ کی کیفیت شاید عوامی اعصاب کی آزمائش کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ انا پرست سیاستدان کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے پاس انانیت ہے معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنے کی صلاحیت نہیں؟۔ یا پھر یہ ہیں ہی اتنے جوگے ؟۔یہی اختیارات فردِ واحد کے پاس ہوتے تو بیک اشارہ ابرو نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا تقرر ہو چکا ہوتا۔
16 مارچ کو قومی اسمبلی اور مرکزی حکومت کی مدت ختم ہو گئی۔ اس سے قبل نگران وزیراعظم پر اتفاق ہو جانا چاہئے تھا۔ خیبر پی کے اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے دس روز قبل امیر حیدر ہوتی نے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ملاقات کرکے جسٹس (ر) طارق پرویز کو وزیر اعلیٰ نامزد کیا اور گذشتہ روز تمام پروٹوکول چھوڑ کر اپنے گھر مردان چلے گئے۔ بلوچستان میں صورتحال ڈرامائی ہے جبکہ سندھ میں ڈرامہ بازی ہی سہی حکومت اور حکومتی اپوزیشن بھی جسٹس (ر) قربان علوی پر متفق ہو چکی ہے۔ مرکز اور پنجاب میں محاذ آرائی جوبن پر ہے۔ کسی امیدوار پر اتفاق نہیں ہوا تو راجہ کو آئینی طریقہ کار کے مطابق وزارت عظمیٰ انجوائے کرنے کا مزید ہفتہ سوا ہفتہ مل گیا۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین اتفاق رائے کا 19 مارچ آخری دن تھا۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے کہا گیا کہ نواز شریف صاحب ملک سے باہر ہیں 19 ماچ کو واپس آ جائیں گے تو کوئی صورت نکل آئے گی۔ پوری قوم ان کی آمد اور مدبر ی اور دانشوری کی منتظر رہی۔ لیکن رات گئے تک نگران وزیراعظم پر اتفاق نہ ہو سکا۔ ادھر جن کو سمجھ بوجھ کا سوامی اور مفاہمت کا مہاتما کہا جاتا ہے وہ بھی نگرانوں کے معاملے پر کرامات دکھانے سے قاصر رہے۔ اِدھر پوری قوم نگران وزیراعظم کی نامزدگی کے حوالے سے انتظار کی سولی پر لٹکی ہے اُدھر ہمارے سیاسی بزرجمہر تاج محلوں میں اپنا اپنا تدبر لڑا کر دوسرے کو نیچا دکھا رہے ہیں۔ ایک طرف سے زبان سے شعلہ نکلتا ہے تو جواب میں انگارہ برستا ہے۔
چودھری نثار علی دوماہ سے نگران وزیراعظم کے لئے ناموں کی پٹاری اٹھائے پھرتے ہیں۔ دعویٰ تھا کہ پارلیمنٹ سے باہر اور اندر کی اپوزیشن سے مشاورت کرلی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے بات آگے بڑھائی۔ زرداری صاحب کو جسٹس شاکراللہ جان کے نام پر راضی کر لیا۔ خبر چودھری نثار تک پہنچی تو یہی نام واپس لے لیا اور فرمایا کہ ان کے حوالے سے ایک خطرناک بات سامنے آئی ہے۔ شاید ن لیگ کو یاد آگیا ہو کہ شاکر صاحب کو ریٹائر ہوئے دو سال نہیں ہوئے۔ اس سے جہاں فضل الرحمن نے سبکی محسوس کی وہ ناراض ہوئے وہیں نگران وزیراعظم کی نامزدگی کا معاملہ بھی لٹک گیا۔ لامحالہ معاملہ آئین کے مطابق طے ہونا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی بن گئی۔
پیپلز پارٹی نے خورشید شاہ، فاروق نائیک چودھری شجاعت اور غلام احمد بلور کو نامزد کیا۔مو¿خرالذکر دونوں اتحادی ہیں‘ ن لیگ نے پوری کمیٹی میں تمام اپنے پارٹی کے ارکان ہی نامزد کئے ہیں۔ مہتاب عباسی، خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید اور یعقوب ناصر۔ ن لیگ کو اقتدار جھولی میں گرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہنوز دلی دور است لیکن دور سے دلی کے برجوں کے لشکارے دیکھ کر ترنگ میں آ گئے۔
بدلی ہے بدلے گی ترنگ اپنی طبیعت کی
دکھائے گا کہاں تک آسماں نیرنگیاں اپنی
ابھی سے گردن تن گئی، چال میں رعنائی آگئی۔ فضل الرحمن کی پارٹی کو بھی اپوزیشن نہیں سمجھا۔ طاہرالقادری کے دھرنے کے دوران عمرہ جاتی میں اکٹھی ہونے والی پارٹیاں کیا حکومتی پارٹیاں تھیں؟
ہمارے سیاستدان دنیا پر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ نگران وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کی نامزدگی کو اپنی لائف لائن سمجھا جا رہا ہے۔ جمہوریت بھانویں ان دی لائن آف فائر ہوجائے۔ جنرل ضیاءاور جنرل مشرف کے دور میںان کی پارٹیوں کو کامیابی نہ مل سکی۔ نگران وزیراعظم اگر کسی حد تک جانبدار بھی ہوا تو کیا کرلے گا؟ سیاستدان خود کو مدبر، معاملہ فہم اور عاقبت اندیش ثابت کریں۔ قوم کو نگرانوں کے مخمصے سے نکالیں۔ صدر نے 11 مئی انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان کرکے ایک مخمصے سے تو عوام کو نکال دیا ہے‘ نگرانوں کا معاملہ بھی سلجھا لیں۔ ایسا نہ ہو کہ فوج نگران وزیراعظم اپنی مرضی کا لگا دے جس کی واضح نشاندہی دی اکانومسٹ نے کی ہے۔
مسئلہ 22 ہزارکا تھا جو اصولی طور پر بجلی چوروں پر پڑنا چاہئے تھا۔ وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے تھے لیکن چاہتے تھے کہ سلو میٹر کی ریڈنگ ان کے کھاتے میں نہ پڑے۔ دونوں کسی معاملے پر متفق نہیں ہو رہے تھے تو معاملہ ساتھ ہی بڑے سپر سٹور کے مالک کے پاس لے جانے پر اتفاق ہوا۔ میری ان سے گپ شپ ہوتی رہتی تھی۔ وہ بن ٹھن کے رہتے ،کلف لگے لباس پر ویسکوٹ پہنتے، بڑے مدبر اور دانشور نظر آتے تھے۔ پتہ کیا تو ہفتہ بھر کے لئے ملک سے باہر گئے تھے، ان کی آمد کا انتظار ہونے لگا۔ واپس آئے توسارا معاملہ فریقین کی موجودگی میں ان کے گوش گزار کیا۔ انہوں نے اپنا تدبر آزماتے ہوئے، گھومنے والی کرسی سے ٹیک لگائی ایک مرتبہ نیم دراز ہوئے پھر ذرا سیدھے ہو کر بیٹھے اور فیصلہ سنایا” 22 ہزار تینوں فریقین پر برابر تقسیم کر دئیے جائیں“۔ میری حیرانگی ابھی بڑھ رہی تھی کہ ایک ساتھی سے پوچھا ”ملک صاحب تیسرا فریق کون ہے؟“ ملک صاحب نے بغیر بولے میری طرف اشارہ کر دیا۔ اس پر اصل فریقین پنچ کے تدبر پر تبریٰ نہ بھیجتے تو کیا کرتے۔ یہ سب تو میرے سامنے ہواالبتہ یہ فسانہ ایک بار پھر سن لیجئے؛۔ گاﺅں میںبڑی چوری ہو گئی۔ پولیس آئی، سن گن لینے کی کوشش کی۔ چوری کے محرکات جاننے کی جستجو جاری تھی کہ کسی نے کہا۔ فلاں بابا بڑا زمانہ ساز ہے اس کے پاس ضرور اس حوالے سے کوئی بھید ہو گا۔ پتہ کیا تو وہ کھوہ پر گیا ہوا تھا۔ دو گھنٹے بعد نتھا چوکیدار اسے لے آیا تو اس نے تھانیدار کو ذرا دور لے جا کر بڑی رازداری سے کہا یہ کام کسی چور کا ہے۔
ہمارے سیاستدان بڑے مدبر، دانشور اور زمانہ ساز ہیں۔ ان کے فیضانِ نظر سے مرجھائے ہوئے چہروں پر نور لہرا جاتا ہے۔ جس کو چاہیں وزیر لگا دیں، گورنر بنا دیں، پرمٹوں کی لائن لگا دیں، نوازشات کی برکھا برسا دیں۔ لیکن نگرانوں کے معاملے میں ان کا تدبر بے تدبیری کی تصویر بن چکا ہے۔ نگرانوں کی تعیناتی کے معاملے میں الجھاﺅ اور تناﺅ کی کیفیت شاید عوامی اعصاب کی آزمائش کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ انا پرست سیاستدان کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے پاس انانیت ہے معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنے کی صلاحیت نہیں؟۔ یا پھر یہ ہیں ہی اتنے جوگے ؟۔یہی اختیارات فردِ واحد کے پاس ہوتے تو بیک اشارہ ابرو نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا تقرر ہو چکا ہوتا۔
16 مارچ کو قومی اسمبلی اور مرکزی حکومت کی مدت ختم ہو گئی۔ اس سے قبل نگران وزیراعظم پر اتفاق ہو جانا چاہئے تھا۔ خیبر پی کے اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے دس روز قبل امیر حیدر ہوتی نے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ملاقات کرکے جسٹس (ر) طارق پرویز کو وزیر اعلیٰ نامزد کیا اور گذشتہ روز تمام پروٹوکول چھوڑ کر اپنے گھر مردان چلے گئے۔ بلوچستان میں صورتحال ڈرامائی ہے جبکہ سندھ میں ڈرامہ بازی ہی سہی حکومت اور حکومتی اپوزیشن بھی جسٹس (ر) قربان علوی پر متفق ہو چکی ہے۔ مرکز اور پنجاب میں محاذ آرائی جوبن پر ہے۔ کسی امیدوار پر اتفاق نہیں ہوا تو راجہ کو آئینی طریقہ کار کے مطابق وزارت عظمیٰ انجوائے کرنے کا مزید ہفتہ سوا ہفتہ مل گیا۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین اتفاق رائے کا 19 مارچ آخری دن تھا۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے کہا گیا کہ نواز شریف صاحب ملک سے باہر ہیں 19 ماچ کو واپس آ جائیں گے تو کوئی صورت نکل آئے گی۔ پوری قوم ان کی آمد اور مدبر ی اور دانشوری کی منتظر رہی۔ لیکن رات گئے تک نگران وزیراعظم پر اتفاق نہ ہو سکا۔ ادھر جن کو سمجھ بوجھ کا سوامی اور مفاہمت کا مہاتما کہا جاتا ہے وہ بھی نگرانوں کے معاملے پر کرامات دکھانے سے قاصر رہے۔ اِدھر پوری قوم نگران وزیراعظم کی نامزدگی کے حوالے سے انتظار کی سولی پر لٹکی ہے اُدھر ہمارے سیاسی بزرجمہر تاج محلوں میں اپنا اپنا تدبر لڑا کر دوسرے کو نیچا دکھا رہے ہیں۔ ایک طرف سے زبان سے شعلہ نکلتا ہے تو جواب میں انگارہ برستا ہے۔
چودھری نثار علی دوماہ سے نگران وزیراعظم کے لئے ناموں کی پٹاری اٹھائے پھرتے ہیں۔ دعویٰ تھا کہ پارلیمنٹ سے باہر اور اندر کی اپوزیشن سے مشاورت کرلی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے بات آگے بڑھائی۔ زرداری صاحب کو جسٹس شاکراللہ جان کے نام پر راضی کر لیا۔ خبر چودھری نثار تک پہنچی تو یہی نام واپس لے لیا اور فرمایا کہ ان کے حوالے سے ایک خطرناک بات سامنے آئی ہے۔ شاید ن لیگ کو یاد آگیا ہو کہ شاکر صاحب کو ریٹائر ہوئے دو سال نہیں ہوئے۔ اس سے جہاں فضل الرحمن نے سبکی محسوس کی وہ ناراض ہوئے وہیں نگران وزیراعظم کی نامزدگی کا معاملہ بھی لٹک گیا۔ لامحالہ معاملہ آئین کے مطابق طے ہونا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی بن گئی۔
پیپلز پارٹی نے خورشید شاہ، فاروق نائیک چودھری شجاعت اور غلام احمد بلور کو نامزد کیا۔مو¿خرالذکر دونوں اتحادی ہیں‘ ن لیگ نے پوری کمیٹی میں تمام اپنے پارٹی کے ارکان ہی نامزد کئے ہیں۔ مہتاب عباسی، خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید اور یعقوب ناصر۔ ن لیگ کو اقتدار جھولی میں گرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہنوز دلی دور است لیکن دور سے دلی کے برجوں کے لشکارے دیکھ کر ترنگ میں آ گئے۔
بدلی ہے بدلے گی ترنگ اپنی طبیعت کی
دکھائے گا کہاں تک آسماں نیرنگیاں اپنی
ابھی سے گردن تن گئی، چال میں رعنائی آگئی۔ فضل الرحمن کی پارٹی کو بھی اپوزیشن نہیں سمجھا۔ طاہرالقادری کے دھرنے کے دوران عمرہ جاتی میں اکٹھی ہونے والی پارٹیاں کیا حکومتی پارٹیاں تھیں؟
ہمارے سیاستدان دنیا پر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ نگران وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کی نامزدگی کو اپنی لائف لائن سمجھا جا رہا ہے۔ جمہوریت بھانویں ان دی لائن آف فائر ہوجائے۔ جنرل ضیاءاور جنرل مشرف کے دور میںان کی پارٹیوں کو کامیابی نہ مل سکی۔ نگران وزیراعظم اگر کسی حد تک جانبدار بھی ہوا تو کیا کرلے گا؟ سیاستدان خود کو مدبر، معاملہ فہم اور عاقبت اندیش ثابت کریں۔ قوم کو نگرانوں کے مخمصے سے نکالیں۔ صدر نے 11 مئی انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان کرکے ایک مخمصے سے تو عوام کو نکال دیا ہے‘ نگرانوں کا معاملہ بھی سلجھا لیں۔ ایسا نہ ہو کہ فوج نگران وزیراعظم اپنی مرضی کا لگا دے جس کی واضح نشاندہی دی اکانومسٹ نے کی ہے۔
No comments:
Post a Comment