خضدار میں مسلم لیگ ن کے صدر ثناءاللہ زہری کے انتخابی مہم کے قافلے کو ریموٹ بم سے اُ ڑانے کی کوشش کی گئی جس میں زہری کے بھائی‘ بیٹے اور بھتیجے سمیت چار افراد مارے گئے۔ اسی روز شام کو اے این پر کی پشاور میں ایک میٹنگ پر خودکش بمبار چڑھ دوڑا‘ اس میں غلام احمد بلور اور انکے بھتیجے ہارون بلور بھی شامل تھے‘ وہ تو محفوظ رہے تاہم اے این پی کے کارکنوں سمیت 18 لوگ مارے گئے۔
16 اپریل کو راجہ پرویز اشرف آفٹر شاک میں پائے گئے، ایک روز قبل الیکشن ٹربیونل نے ریٹرننگ افسر کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے راجہ پرویز اشرف کے انتخابات میں حصے لینے کی آرزوﺅں کی شمع گُل کر دی تھی۔ راجہ کی شہرت انکے پانی وبجلی کے وزیر بننے تک ایک ڈیسنٹ سیاستدان کی تھی۔ لوگ ان کو جینٹل راجہ سمجھتے تھے۔ کرائے کے بجلی گھروں میں ان کا نام آیا تو رینٹل راجہ کہلائے۔ اپنے کاغذات کے مسترد ہونے کے صدمے کو انہوں نے دل پر لیا‘ شکر کریں کہ اس آفٹرشاک نے انہیں مینٹل راجہ نہ بنا دیا۔ ہائیکورٹ نے انکو الیکشن لڑنے کی مشروط اجازت دیکراس ”عہدے“ سے بچا لیا۔
16 اپریل کو ہی الیکشن ٹربیونل نے پرویز مشرف کے چترال سے الیکشن لڑنے کی آخری امید کو بھی تیلی دکھا دی۔ اس سے قبل وہ کراچی‘ قصور اور پنڈی کے حلقوں سے آﺅٹ ہو چکے تھے۔ اس سے مشرف اور انکی پارٹی کی سیاست میں ایسا زلزلہ آگیا‘ جسکے آفٹرشاکس عرصہ تک محسوس کئے جاتے رہینگے۔ 18 اپریل کو انکی ضمانت مسترد ہوئی جس سے وہ شاک میں آگئے۔
مشرف کی ججوں کو نظربند کرنے کے کیس میں ضمانت مسترد ہوئی تو وہ جس سکیورٹی کے حصار میں عدالت آئے تھے اسی میں واپس چلے گئے۔ ان کو جج نے گرفتار کرنا تھا، وکلاءنے نہ تماشائیوں نے۔ میڈیا میں ”مشرف مفرور، مشرف بھگوڑا“ کا سارا دن ہیجان برپا رہا۔ اکثر اینکر اپنی غیر جانبداری کا دامن چھوڑ کر ایک پارٹی کے نظر آئے۔ میڈیا کو معاشرتی سرجن قرار دیا جاتا ہے۔ سیاسی اقدار کی طرح میڈیا کی روایات میں بھی آج تک پختگی نہیں آسکی۔
صدیق عثمان فاروقی مریض پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں ڈاکٹر کلب عباس علمدار کے پاس جانے سے خائف ہے۔ مشرف کے بہیمانہ اور ظالمان اقدام پر متاثرہ جج حضرات کا تعصب‘ عشق اور مشک کی طرح چھپائے نہیں چھپ رہا۔جج بھی انسان ہی ہیں مافوق الفطرت اور یہ فطری امر ہے۔ وکلاءاور عوامی حلقوں نے مشرف سے اپنی نفرت چھپانے کی کوشش کی ہے نہ اسکی ضرورت ہے۔ مذکورہ کیس میں ضمانت رد ہونے میں قصور وار صرف مشرف اور انکے مشیر ہیں۔ انہوں نے تفتیشی سے تعاون کیا ہوتا تو بات جہاں تک بڑھتی۔ ہو سکتا ہے کہ چنگاری کو شعلہ بنانے ”مشرفی“ حلقوں نے ہی پلاننگ کی ہو۔
مشرف کو کہیں جوتے دکھائے جاتے ہیں‘ کوئی بال نوچنے پر تلا ہوتا ہے ۔کوئی انڈے‘ ڈنڈے‘ ٹماٹر اور واٹر کے ساتھ استقبال کیلئے پر تول رہا ہے جس کے ہاتھ میں کچھ نہیں اسکی زبان تلوار کی دھار بنی ہوئی ہے۔ سابق آرمی چیف کے عدالتوں کی دہلیز پر ایسے ”استقبال“ کے پیچھے یار لوگوں کو خفیہ والوں کا کھرا دکھائی دیتا ہے۔ جو اسلام پسند یا ضیاءکی باقیات ہیں۔ ایک دوست کہہ رہے تھے کہ ضیا دور میں کور کمانڈرز اجلاس میلاد کمیٹی کی میٹنگ کے مصداق ہوا کرتے تھے۔ ایک دو کمانڈروں کے ہاتھ تسبیح ہوتی۔ عموماً جج عمرے‘ تبلیغی دورے اورچِلّے زیر بحث آتے۔ فوج میں لوٹا مصلیٰ اور بستر بردار بااثر حلقے کو مشرف کی جدت کی بدعت پسند نہیں آئی۔اسی کی شہ پر مشرف کی رسوائی کا انتظام اہتمام ہوتا ہے۔ فوج کے ماٹو جہاد فی سبیل اللہ کو ختم کرنے کے مشرف کے سیاہ ترین اقدام کو قوم بھول اور معاف نہیں کرسکتی۔ایسا حلقہ بھی فوج میں موجود ہے جو مشرفی جدت کا حامی ،با اختیار اور طاقتور بھی ہے۔ وہ مناسب اور ضرورت کے موقع پر اپنا کردار ادا کریگا۔ مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ فوج ایک خاندان اور قبیلے کی طرح ہے وہ اپنے کسی فیملی ممبر کو مشکل میں نہیں دیکھ سکتی، مشرف تو اسکے چیف رہے ہیں۔
مشرف کو اپنے کئے کی سزا ملنی چاہئے۔ حالات ایسے بنائے جا رہے ہیں کہ یہ سزا ان کیلئے جزا اور خیر بن سکتی ہے۔ بے نظیر کے دور میں نواز شریف کو مبینہ طور پرانتقام کا نشانہ بنایا گیا تو وہ لیڈر بن گئے۔ نواز شریف دور میں اینٹ کا جواب پتھر سے دیا گیا تو محترمہ مظلوم بن کر اگلا الیکشن جیت گئیں۔ پیپلز پارٹی کی نواز مخالف پالیسیوں نے ن لیگ کیلئے 97 کے الیکشن میں دو تہائی اکثریت کی راہ ہموار کر دی۔ مشرف کے چار حلقوں سے کاغذات مسترد کر دئیے گئے جبکہ راجہ پرویز اشرف کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی‘ مشرف کو نہیں۔مشرف بالکل اسی طرح عدالتوں میں گھسیٹے جا رہے ہیں جس طرح ن لیگ کے ادوار میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو گھسیٹا جاتا تھا۔اگر کسی کے پاس نفرت ناپنے کا پیمانہ ہو تو وہ بتائے کہ مشرف سے نفرت کا گراف کیا اسی سطح پر ہے جس پر 3 نومبر 2007ءکو ایمرجنسی کے نفاذ کے موقع پر تھا؟ کیا اس میں اضافہ ہوا یا کمی ہوئی؟ اگر ایسا پیمانہ نہیں تو قارئین اپنے آپ سے پوچھ لیں یا کم از کم آس پاس موجود دس لوگوں سے‘ تو جواب مل جائیگا۔
مشرف کا سب سے بڑا جرم تو 12 اکتوبر 1999ءکو ایک منتخب جمہوری حکومت کا دھڑن تختہ کرنا تھا۔یہ جرم آرٹیکل چھ کے اطلاق کا متقاضی تھا جسے عدلیہ اور پارلیمنٹ نے معاف کردیا۔ اب نسبتاً چھوٹے جرائم میں تختہ دار سجایا جا رہا ہے۔ خواہش یہ نظر آتی ہے کہ یہ کام کمزور نگرانوں سے لے لیا جائے۔
مشرف مرضی سے پاکستان آئے۔ عدالتوں میں پیش ہو رہے۔ انکے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ڈکٹیٹر کو ڈیمو کریٹ ظالم کو مظلوم‘ جابر کو مجبور بنانے کیلئے کافی ہے۔ لوگ کہتے تھے ” مک گیا تیرا شو مشرف“ وہ اس وقت درست تھا جب مشرف اقتدار میں تھے۔ اب شو لگانے والے ان کو عوامی نفرتوں سے نکال کر ہیرو بنا رہے ہیں۔ دو تین سال مشرف کی ایسی درگت بنتی رہی تو واقعی عوامی ہیرو بن سکتے ہیں۔
ہماری قوم ویسے بھی اپنے اوپر روا رکھے جانیوالے ظلم و جبر جلد بھول جانے کی عادی ہے ایسا نہ ہوتا تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو کبھی اقتدار نہ ملتا جبکہ پی پی اپنے 1988ءکے کمالات کے بعد دوسری بار 96 میں اور تیسری بار 2008ءمیں اقتدار میں آتی۔مشرف کو اگر فوج سپورٹ کر کے بچا لیتی ہے تو بھی وہ خدا کے غضب سے نہیں بچ سکتے۔ ان کو ہیرو بننے کا موقع فراہم نہ کیا جائے۔
No comments:
Post a Comment