مئی 2013ءکے
متوقع انتخابات پرانی ڈگر پر نہیں نئی طرز پر ہو رہے ہیں۔ ان میں پرانی
روایات ٹوٹ رہی ہیںاور نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ ہم چونکہ مکھی پہ مکھی
مارنے کے عادی اور لکیر کے فقیر ہیں اس لئے نقشِ کہن مٹنے کے عمل کو ہضم
نہیں کر پا رہے۔ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے خواب کی تعبیر کیلئے دن کو
تارے دکھانے والی سیاست اور جمہور کا خون کشید کرنے والی جمہوریت کی تطہیر
ناگزیر ہے۔ یہ عمل شروع ہُوا تو اس پر ایک حلقے کے اندر ہیجان پیدا ہوا جس
نے طوفان کھڑاکر دیا۔ الیکشن کمشن کی خبر لینے کیلئے اس کی زبان دو دھاری
تلوار بن گئی۔ الیکشن کمشن کہیں فعال اور کہیں مجبور محض ہے۔ اس کی دُم پر
عدلیہ کا پاﺅں آتا ہے تو وہ کسی مصلحت کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ریٹرننگ
افسروں پر اعتراض ہے کہ وہ مستقبل کے قانون سازوں سے ان کے مذہب سے متعلق
سوال پوچھ کر ان کا تماشا لگا رہے ہیں۔ کسی امیدوار کو دعائے قنوت اور کسی
کو آیت الکرسی اور کسی کو پہلا دوسرا تیسرا کلمہ سُنانے کا کہا جاتا ہے۔
کسی سے نمازوں کی تعداد اور کسی سے نمازوں کی رکعتیں پوچھی جاری ہیں۔
یقیناً مذہب کسی کا بھی ذاتی معاملہ ہے۔ کسی کے مسلمان ہونے کی شرط میں آیت
الکرسی اور دعائے قنوت کا ازبر ہونا شامل نہیں۔ اسلام سے متعلق واجبی سی
معلومات پر مبنی سوالات ریٹرننگ افسر، ان لوگوں سے کر رہے ہیں جو مقننہ کا
حصہ بننے جا رہے ہیں، جنہوں نے آئین میں ضرورت پڑنے پر ترامیم اور قانون
سازی کرنی ہے۔ قرارداد مقاصد ہمارے آئین کا حصہ ہے، اس کے مطابق پاکستان
میں کوئی قانون قرآن و سُنت کی تعلیمات کے برعکس نہیں بن سکتا۔ پاکستان کا
سب سے بڑا قانون ساز ادارہ پارلیمنٹ جس کو سیاستدان سپریم قرار دیتے ہیں۔
اس ادارے میں ایسے شخص کو بٹھا دینا المیہ سے کم نہیں جو قرآن و سُنت کی
تعلیمات سے مکمل طور پر بے بہرہ ہو، جس کو نمازوں کی تعداد، اس کی رکعات،
وضو کے طریقے تک کا علم نہیں۔ جو شخص سورة اخلاص کو درود شریف سمجھتا، اسے
یہ معلوم نہیں کہ نماز جنازہ میں سجدہ ہوتا ہے نہیں اور جو علامہ اقبال کو
قومی ترانے کا خالق قرار دیتا ہے ۔قرآن و سُنت اور نظریہ پاکستان کے مطابق
قانون سازی کے لئے اس کا کیا کردار ہو گا؟ پارلیمنٹ میں لبیک کہنے اور اپنی
پارٹی کے اشارے پر ہاتھ کھڑا کر دینے والے ہی نہیںچاہئیں ان میں قانون
سازی کی سوجھ بوجھ بھی تو ہو۔ ریٹرننگ افسر اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ وہ
انتخابی اور سیاسی کلچر کو خوب جانتے ہیں۔ ہر کسی سے وہ ایسے سوال نہیں
پوچھتے، بندہ کبندہ دیکھ کر بات کرتے ہیں۔ ایک ریٹرننگ افسر نے مذہبی جماعت
کے امیدوار سے میت کو غسل دینے کا طریقہ پوچھا۔ یہ اس ریٹرننگ افسر کی
ذہانت کی دلیل ہے۔ ایسے افسر یقیناً نواز شریف، مشرف اور عمران جیسے سیاست
دانوں سے اس نوعیت کے سوال نہیں پوچھیں گے۔ جو امیدوار اپنے مذہب کی ابجد
سے بھی واقفیت نہیں رکھتے ان سے نماز، روزہ، حج، زکوٰة کے حوالے سوال
پوچھنے پر پارٹیوں کے مہربان بلکہ ترجمان کالم نگار اور اینکرز اپنے
امیدواروں کی رسوائی قرار دیتے ہیں۔ ایسے لوگو ں سے تو قانون کو بچا کر
رکھناچاہئے نہ کہ ان کو قانون ساز بنا دیا جائے۔ ان کے ہاتھوں اپنی مراعات
میں اضافے، سانس تک بھی ٹیکس لگانے، چالیس چوروں کے سردار کی اعلیٰ ترین
عہدے پر تعیناتی جیسے ہی معرکے سامنے آئے۔ ایسے لوگ تطہیری عمل کی ابتدا
میں ہی گھر بٹھا دئیے جائیں تو کیا یہ قوم پر احسان نہیں ہو گا؟۔ ایسے
دانشوروں کی حالت ملاحظہ فرمائیے:۔ بلوچستان سے جعلی ڈگری کیس میں کل تک کے
وزیر علی مدد جتک کو قید و جرمانے کی سزا ہوئی، اس کارنامے پر سزا سُننے
کے بعد وہ جاتے ہوئے بڑے فخر سے وکٹری کا نشان بنا رہے تھے۔ ایسے عوامی
نمائندوں کے بارے میں کیا کہا جائے کہ شرم ان کو مگر ۔۔۔ ایسی ہی سزا پر
مظفر گڑھ سے حنا ربانی کھر کو سیاست میں مات دینے کے دعویدار بھری بزم میں
رو دئیے تھے۔
لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب بھر کے ریٹرننگ افسروں پر کاغذات
نامزدگی کی سکروٹنی کے دوران غیر ضروری سوال کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔
مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ کی طرف سے جاری کردہ مختصر فیصلے میں کہا گیا
ہے کہ ریٹرننگ افسر نیب، سٹیٹ بینک، ایف بی آر اور نادرا کی طرف سے فراہم
کی گئی معلومات پر سوال کر سکتے ہیں۔ ریٹرننگ افسر آئین کے آرٹیکل 62 اور
63 پر عملدرآمد کے حوالے سے سوالات ضرور پوچھیں تاہم امیدواروں سے ذاتی
سوالات نہ پوچھے جائیں۔ جبکہ سیکرٹری الیکشن کمشن اشتیاق احمد خان کا کہنا
ہے کہ ریٹرننگ افسر آئین و قانون کے تحت اپنا کام سرانجام دے رہے ہیں۔
امیدواروں سے سوالات آئین کے آرٹیکل 62 اور 63کے تحت پوچھے جا رہے ہیں۔
ریٹرننگ افسران کی جانب سے کسی کی ذاتی زندگی کے بارے میں سوالات مناسب
نہیں ہیں، معاملہ پھر ریٹرننگ افسر کی صوابدید پر ہے۔
کئی سے حلقوں سے
بیک وقت ایک ہی امیدوار کے الیکشن لڑنے کی روایت مضبوط ہو رہی ہے۔ اس کی
وجہ خود کو طاقتور ظاہر کرنے کا زعم ہے یا اپنی شکست کا خوف ہے۔ اس عمل سے
جمہوریت کا استحکام وابستہ ہے نہ ملکی و قومی مفاد، یہ خالصتاً بڑے ناموں
کی ذاتی دلچسپی کا معاملہ ہے۔ چار نشستیں جیتنے والے کو تین چھوڑنا ہوتی
ہیں، ایک لیڈر کے شوق اور خوف کی قیمت قوم اور قومی خزانے کو ادا کرنا پڑتی
ہے۔ لیڈروں کو حق حاصل ہے کہ جتنے بھی حلقوں سے چاہیں الیکشن لڑلیں، اس پر
قومی خزانے کو کیوں اجاڑا جائے۔ کوئی لیڈر جن حلقوں کو تاراج کر کے ان سے
دستبردار ہو جاتا ہے، نئے انتخابات کے اخراجات ان حلقوں کو چھوڑنے والے
امیدوار سے وصول کئے جائیں۔
No comments:
Post a Comment