About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, April 25, 2013

پاکستان پولیو زدہ کیوں ہو ؟


پاکستان پولیو زدہ کیوں ہو ؟

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
31 مارچ 2013 0
کئی دہائیاں قبل کبڑے بابے آج کی نسبت زیادہ نظر آیا کرتے تھے، دیہات میں کچھ زیادہ ہی ہوتے تھے۔ آج کبڑے بابوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ تحقیق کے مطابق عمر رسیدگی میں کمر خمیدگی کی بڑی وجہ دیسی گھی کا استعمال ہے۔ اب چونکہ اس کا استعمال کم ہو گیا ہے اس کیلئے گزر جانے والے کمر خمیدہ بزرگوں کی جگہ لینے والے ناپید ہو رہے ہیں۔ کوڑھ یا جذام کے مریض بھی کہیں موجود نہیں۔ اس مرض میں جسم کے اعضا جھڑنے لگتے تھے۔ بھارت میں مدرٹریسا ایسے نفرت کے مارے ہوئے مریضوں کے ساتھ رہ کر ان کے علاج پر توجہ دیتی رہی جن کو ایسی خدمات پر نوبل انعام دیا گیا تھا۔ جذام سے قدرے کم خطرناک نوعیت کے مرض چیچک نے گذشتہ صدی میں کروڑوں انسانوں کی جان لے لی ،جو بچ نکلے ان کی شکلیں بگاڑ دیں، کسی کی قوت سماعت اور بصارت اچک لی۔ 1979ءمیں 20 لاکھ افراد اس مرض کی بھینٹ چڑھ کر اگلے جہاں سدھار گئے۔ اس پر پوری دنیا میں چیچک کے خلاف مہم چلائی گئی جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ آج پوری دنیا میں چیچک کا مرض اور وائرس کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ ہم پاکستانیوں نے اس موذی مرض کے خاتمے میں عالمی برادری کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو اس وائرس کا ہم میں سے کوئی بھی نشانہ بن سکتا تھا۔گذشتہ دنوں اس خبر نے چونکا دیا کہ دنیا بھر میں پولیو کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری بورڈ (آئی ایم بی) نے بیرون ممالک سفر کرنے والے پاکستانیوں کے لئے مئی 2013ءسے پولیو ویکسی نیشن کے بغیر پابندی عائدکر دی ہے۔ یہ پابندی پاکستان کو پولیو سے پاک کرنے تک جاری رہے گی۔ پاکستان میں پولیو کے حوالے سے آئی ایم بی نے پولیو خاتمہ مہم کو بدترین انتظامی غفلت قرار دیا ہے۔ پرائمری سکول میں ایک دو ساتھی پولیو زدہ تھے۔ ان کو کوئی ڈُڈا اور کوئی لنگڑا کہتا وہ ہاتھوں کی مدد سے چلتے بلکہ زمین پر گھسٹتے تھے۔ صحت مند بچے ان کو کبھی ٹھڈا مار کر کبھی دھکا دے کر گراتے رہتے۔ پرائمری کے آگے تعلیم اس لئے جاری نہ رکھ سکے کہ مڈل اور ہائی سکول سات آٹھ کلومیٹر دور تھے۔ والدین کے پاس وہاں تک بھجوانے کے وسائل نہیں تھے۔ ایسے پولیوزدہ بچے بھی دیکھے جن کی مائیں ان کو دم کرانے کے لئے ہر ہفتے چار ، پانچ کوس گود میں اٹھا کر لے جاتیں۔ یہ صورتحال دس بارہ سال قبل تک عام دیکھی جا سکتی تھی۔ آج ایسی خواتین اور ان کے خاندان کے تمام افراد پولیو مہم کی کامیابی کے لئے رضاکارانہ طور پر سرگرداں ہیں۔ پولیو کا مریض بچپن سے لڑکپن میں پہنچتا ہے تو وہ اپنے گھرانے کو پولیو قطرے نہ پلانے کا قصوروار گردانتا ہے۔ فیملی کے افراد اس کے سامنے احساس جرم کے باعث پوری زندگی شرمندہ اور پُرنم رہتے ہیں۔پاکستان میں نوے کی دہائی کے آغاز میں پولیو 20 ہزار بچوں پر عذاب بن کر ٹوٹتا رہا ہے۔ عالمی ادارے میدان میں آئے، باشعور پاکستانیوں اور اداروں نے ان کا ساتھ دیا تو آج پولیو کے اکا دکا کیس نظر آتے ہیں۔ وہ بھی ہماری کوتاہیوں، ہٹ دھرمی، بے بنیاد افواہوں اور لغو پراپیگنڈے کے باعث۔  پاکستان میں 1988ءمیں تقریباً 28 ہزار پولیو کیسز رپورٹ ہوئے۔ 1994ءتک جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے ڈبلیو ایچ اور یونیسیف کے تعاون سے پولیو مہم کا آغاز کیا‘ پولیو کا ہر چوتھا مریض بچہ پاکستان میں رپورٹ ہو رہا تھا۔ 2000ءمیں پولیو مہم کو ہیلتھ مراکز سے نکال کر گھر گھر پہنچا دیا گیا جس کے بعد اگرچہ بہتری تو ہوئی مگر دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ہماری کارکردگی انتہائی غیرتسلی بخش تھی۔ اگرچہ اس حوالے سے اب تک تقریباً سوا سو پولیو مہمیں چلائی جا چکی ہیں‘ مگر اسکے باوجود پاکستان 50 کیسز کے ساتھ 110 کیسز والے نائیجیریا کے بعد پچھلے سال دنیا میں دوسرے نمبر پر تھا جبکہ افغانستان میں پچھلے سال 31 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ 2013ءمیں اب تک پاکستان میں پانچ پولیو کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ پاکستان، افغانستان اور نائیجریا کے سوا پوری دنیا سے اس مرض کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ عالمی برادری ان ممالک کو پولیو وائرس باقی ملکوں میں برآمد کرنے والے ممالک قرار دیتی ہے۔قطروں سے کوئی بچہ والدین کی غفلت، کوتاہی یا نادانستگی میں محروم رہ جائے تو یہ بھی قابل قبول نہیں لیکن اس مہم کے خلاف ایک محاذ کھڑا کر لینا پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے۔کچھ عناصر باقاعدہ سازش اور کچھ ان کے پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر پولیو مہم کی مخالفت کرتے ہیں۔ سازشیوں سے نمٹنا تو حکومتی سطح کا کام ہے البتہ مس گائیڈڈ لوگوں کو سمجھایا جا سکتا ہے۔ پولیو قطروں کے بارے میں افواہیں پھیلائی گئی ہیں کہ اس کا مقصد خاندانی منصوبہ بندی ہے۔ حالانکہ یہی قطرے عرب اور مغربی ممالک میں بھی پلائے جاتے ہیں۔ یہ مہم پاکستان میں 20 سال سے چل رہی ہے بتائیے اس دوران آبادی میں کتنا افاقہ ہوا؟۔ چند ماہ قبل کراچی میں انسانیت کی خدمت کرنے والے سات پولیو ورکرز کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔ خیبر پی کے میں بھی ہلاکتیں ہوئیں۔ پوری قوم میں پولیو قطروں کے حوالے سے آگاہی اور شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ مقامی این جی اوز اور عالمی ادارے یہ کام بڑی تندہی سے کر رہے ہیں۔ مذہبی حلقوں کو مطمئن کرنے کے لئے علماءنے فتوے دئیے ہیں۔ اس کے باوجود بھی 100 فیصد نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔ اس کے لئے مزید کاوشوں کی ضرورت ہے۔ خصوصی طور پر فاٹا جہاں پولیو ٹیموں کے لئے بہت سے علاقے نو گو ایریا بنے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں سرگرم پولیو مخالفین تک جن لوگوں کی رسائی ہے وہ اپنا کردار ادا کریں۔ محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمن اور عمران خان جیسے لوگ دعویدار ہیں کہ وہ حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کے لئے کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ طالبان قیادت کو سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ وہ قوم اپاہج ہونے سے بچائیں ،پولیو ویکسی نیشن کے خلاف نہ جائیں تو یقیناً وہ ان کی باتیں مانیں گے جس سے پاکستان پولیو فری ہو کر عالمی برادری کے شانہ بشانہ ہو گا اور ہر قسم کی پابندیوں سے محفوظ رہے گا۔

No comments:

Post a Comment