About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, April 25, 2013

چلو

”چلو!“

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
10 مارچ 2013 0
”ملائیشین بھی ہماری طرح بے کار، محنت بیزار، غفلتوں کا شاہکار جس کے باعث مسائل و مصائب سے دوچار اور مشکلات کا شکار تھے۔ مہاتیر محمد نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی‘ انکے ساتھی بھی ویسے ہی تھے جیسے انکے پیشروﺅں کے تھے۔ انہوں نے تمام عوامی نمائندوں کو ایک ہال میں ساتھ بٹھایا۔ وہ سمجھے کہ شاید نئی کابینہ کی تشکیل ہوگی وزیر مشیر بنائے جائینگے بھرتیوں کے کوٹے مقرر اور پرمٹ تقسیم ہوں گے لیکن مہاتیر نے عزم ظاہر کیا کہ ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی کی معراج تک پہنچانا ہے‘ اس منزل کے حصول کیلئے تجاویز دیں‘ کسی نتیجے پر پہنچنے تک یہ اجلاس جاری رہے گا۔ عہدوں اور مراعات کی امیدوں کے دلوں میں چراغ جلانے والے تلملائے تو ضرور ہوں گے لیکن اظہار ممکن نہ تھا۔ ان میں فطری طورپر قوم و ملک کا درد رکھنے والے بھی ہوں گے جو ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں۔ اجلاس بغیر وقفے کے رات تک جاری رہا کوئی نتیجہ سامنے نہ آیا اگلے روز پھر وہی مشق دہرائی گئی، صاحب مجلس نے ہر نئی تجویز بڑے غور سے سنی، چند روز عرق ریزی کے بعد وہ اس نتیجے پرپہنچے کہ تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ پھر کیا کیا جائے؟”میرے میزبان نے چائے کی چُسکی لینے کیلئے وقفہ لیا جو ابھی تک اتنی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی‘ جسے شربت کہہ کر دوسرے گھونٹ سے گریز کیاجائے ۔ میرا اس قصے میں انہماک دیکھ کر وہ مزید پر جوش ہوئے اور دوسرے گھونٹ کی نوبت نہیں آئی“ ہر صورت تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے پر سب متفق ہوگئے کسی نے تجویز دی کالجوں کا جال بچھا دیا جائے‘ کوئی بولا یونیورسٹی پر یونیورسٹی بنادی جائے، کسی نے سکولوں کو اپ گریڈ کرنے کا نسخہ بتایا‘ بہرحال تان اس پر ٹوٹی کہ مضبوط تعلیمی بنیاد کیلئے سلسلہ پرائمری یعنی کچی جماعت، پریپ، نرسری یا کے جی سے شروع کیا جائے۔ اساتذہ کوالیفائیڈ ہوں بامقصد تعلیم تبھی ممکن ہے ، اس کاز کیلئے اربوں ڈالر کی ضرورت ہوگی، ملکی وسائل اتنے نہیں۔ یہ بڑا جینوئن سوال تھا۔ مہاتیر نے کہا کہ یہ وسائل ہم خود پیدا کریں گے۔ آپ خود قربانی دیں۔ اپنے اپنے حلقے کے امرا کو ملیں‘ ان سے تعاون مانگیں۔ مہاتیر کا عزم دیکھ کر ساتھی بھی پُرجوش ہوچکے تھے.... مہاتیر کو فارن اکاﺅنٹ سیل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ‘ نہ بجلی ‘ گیس اور تیل کی قیمتیں آسمان تک پہنچانے کی، اپنے سربراہ کی قوم و ملک کو ترقی و خوشحالی کی منزل پر پہنچانے کا عزم دیکھ کر عوام نے رضا کارانہ طورپر اتنا تعاون کرنا شروع کر دیا ‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تعلیمی منصوبہ کی تکمیل سے کہیں بڑھ کر فنڈ اکٹھا ہوگیا۔ مہاتیر کے عزم، صدق، کوشش اور کاوش سے ملائیشیا چند سال میں دنیا کا ترقی یافتہ ملک بن گیا۔“ میرے دوست نے چائے کی دوسری چسکی کیلئے وقفہ لیا تو چائے شربت بن چکی تھی۔ میرا سوال تھا ”ہم ملائیشیا والی منزل کیسے پا سکتے ہیں“؟.... ”صرف اور صرف مہاتیر محمد جیسی قیادت کی صورت میں “۔ دوست نے بلا توقف جواب دیا۔ میں نے وضاحت چاہی کی کہ ”کیا مہاتیر کا پورا زور تعلیم پر رہا؟“ .... ”نہیںہرگز نہیں،یہ منصوبہ انہوں نے متعلقہ ماہرین کے سپرد کرکے باقی معاملات پرتوجہ مرکوز کردی اور ایک ایک مسئلہ ماہرین کی مدد سے حل کرنے کیلئے سرگرداں رہے ‘ملک ترقی کی طرف گامزن اور تعلیم کے ذریعے ہر شعبے کے ماہرین کی کھیپ تیار ہوتی رہی۔ دوسرے ممالک سے ماہر منگوائے گئے‘ آج ملائیشین اساتذہ دنیا کو علم ہنر اور فن سکھا رہے ہیں‘ جس کا نتیجہ دنیا کے سامنے ہے۔“ دوست نے کہا۔  ہمارا سب سے کمزور اور نظرانداز کیا جانےوالا شعبہ تعلیم ہے۔ کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں لیکن بنیادی تعلیم کی طرف توجہ نہیں۔ دانش سکول کی ابتدا چھٹی جماعت سے کی گئی ہے۔ دانش سکول جسے ایچی سن کے برابر کا ادارہ قرار دیاجاتا ہے۔اسکی حالت یہ ہے کہ مرمر کے استاد سے پرائمری میں پڑھنے والا بچہ اس میں کیسے چلے گا جو اپنا نام اللہ دتہ ولد اللہ رکھی بتاتا ہے۔ تعلیم یقینا ہمارا بنیادی مسئلہ ہے‘ اسکی طرف جس توجہ کی ضرورت تھی ‘یہ اس سے ہنوز محروم ہے ۔اسکے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں جو اب ایک مصیبت بن چکے ہیں۔انکے حل کیلئے ہمیں بلاشبہ مہاتیر محمد جیسی قیادت چاہئے۔اس طرح کی ٹیم نہ آسمان سے ٹپکے گی نہ زمین سے اُگے گی۔ صرف ایک نیک نیت،مخلص اور اہل فرد فرید کی ضرورت ہے‘ ٹیم خود بخود بن جائیگی۔خوش قسمتی سے ہمارے پاس تو مہاتیر محمد سے بھی بڑی اور روشن مثال قائداعظم کی صورت میں موجود ہے۔ صرف ایک شخص نے مسلمانوں کیلئے الگ ریاست کا عزم کرلیا تو ایک ٹیم بھی بن گئی اور وہ مقصد چند سال کے قلیل عرصے میں حاصل کر لیا، جو قومیں صدیوں میں حاصل کرتی ہیں۔بد قسمتی سے ہمیں قائد کے بعد ان جیسا ایک بھی رہنما نہ ملا تو ہم پستی کی تاریکیوں میں گم ہوتے چلے گئے،ہمیں صرف نعرے لگانے، ہاتھ کی صفائی دکھانے اور عوام کو بیوقوف بنانے والے بے راہرو ملے۔ (جاری)

No comments:

Post a Comment