About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, April 25, 2013

جدید دور کے شیر شاہ سوری


جدید دور کے شیر شاہ سوری!

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
14 مارچ 2013 0
 سبزی فروش کریٹ سے ٹماٹر اٹھا اٹھا کر ترازو میں رکھ رہا تھا۔ دوسری تیسری تہہ سے اٹھانے لگا تو خریدار نے ٹوکا،” بھئی اوپر والی تہہ سے ہی ڈالو نیچے چھوٹے ہیں“.... ”صاحب فکر نہ کرو اوپر اور نیچے والوں میںکوئی فرق نہیں ،یہ انڈیا سے آئے ہیں“ سبزی فروش کے جواب پر خریدار لا جواب اور ششدر ہوگیا۔دیہاتی نے دکاندار کے ہاتھ مکھن کے پیڑے فروخت کئے۔ دکاندار فریزر میں رکھنے لگا تو احتیاطاً ایک کا وزن کر لیا جو 900 گرام تھا جبکہ کسان ایک ایک کلو کا کہہ کے فروخت کرکے گیا تھا۔ دوسرے تیسرے نیز تمام کے تمام پیڑوں کا وزن سو سو گرام کم تھا۔ دکاندار کا غصے سے لال بھبھو کا ہونا فطری امر لیکن بے سود تھا۔ کچھ دنوں بعد کسان پھر آیا جس کو دیکھتے ہی دکاندار نے چلانا شروع کر دیا ”بے ایمان‘ بددیانت‘ دھوکہ باز۔۔۔۔“ کسان نے بڑی افسردگی اور یاسیت سے سب کچھ سنا اور بڑے احترام سے لا ل پیلا ہونے کی وجہ پوچھی تو دکاندارنے کہا ”دفع ہو جاﺅ! مکھن کا ہر پیڑا 9 سو گرام تھا‘ فراڈیا کہیں کا۔۔۔“ کسان نے ایک بار پھر احترام سے کہا ”ہم غریب لوگ ہیں، گھر میں باٹ نہیں رکھ سکتے ،آپ سے جو ایک کلو چینی لے گیا تھا ترازو کے ایک پلڑے میں وہ رکھی اور دوسرے میں مکھن کا پیڑا‘ اس طرح ہر پیڑے کا وزن کیا تھا (پہلا واقعہ ای میل اور دوسرا فیس بک سے اخذ کیا ہے)۔ایسے واقعات ہمارے رویوں کے عکاس ہیں اوران کی کارفرمائی سیاست میں کوئی زیادہ ہی عیاں اور نمایاں ہے۔اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا دوسرے کی آنکھ کا تنکا بھی شہتیر لگتا ہے۔مرکز اورپنجاب والے ایک دوسرے پر الزام،اتہام اور بہتان باندھتے رہتے ہیں۔اپنی کمزوریوں کو طاقت اور حریفوں کی خوبی کو خامی بنا کر پیش کرنے کا فن جانتے ہیں۔ اب جبکہ ان کے اقتدار کے دورانئے کا چراغ ِ سحر بجھا چاہتا ہے ایسے شاہکار مظاہر عروج پر ہیں۔ دونوں اپنے اپنے مخصوص کارناموں کے گن گاتے اور دوسرے پر پتھر برساتے ہیں ۔ ملک میں مہنگائی‘ بدامنی اور لاقانونیت کی انتہا نہیں جس کے پی پی پی اور ن لیگ والوں کے سوا کوئی دوسرا ذمہ دار نہیں۔ چاپلوسی کی فصیلیں پھلانگ کر ایوانِ صدر کا طواف کرنیوالے زرداری صاحب کو بھٹو ثانی،مفاہمت کا مہاتما اور تدبر کا ہمالہ قرار دیتے ہیں۔ بڑے میاں صاحب کو قائداعظم ثانی قرار دینے والے بھی زقندیںبھرتے ہیں۔شہباز شریف نے میٹرو بس چلائی ، انڈر پاس بنائے، سڑکیں بنائیں توکاسہ لیسوں نے ان کو نئے دور کے شیر شاہ سوری قرار دے ڈالا۔انہی حاشیہ برادروں نے چودھری پرویز الٰہی کو بھی یہی خطاب دیا تھا۔ ہمارے حکمرانوںکو جن شخصیات کے ساتھ ملا یا جارہا ہے اِن کا اور اُن کا زمین و آسمان کا فرق ہے جو اِن کے اتنی ہی بار پیدا ہونے سے بھی دور نہیں ہوسکتا جتنی بار چودھری پرویز الٰہی نے مشرف کو وردی میں صدرمنتخب کرانے کا اعلان کیا تھا۔ کیا پدی کیا ۔۔۔ خوش فہمی ملاحظہ فرمائیے ہوا کا رخ دیکھنے کے ماہرین نے اِدھر ” ثانی“ کا نام دیا اُدھر خطاب پانیوالوں نے خود کو ایساسمجھنا شروع کردیا۔این ایف سی ایوارڈ،بینظیر انکم سکیم،1122،پولیس پوسٹیں وارڈن سسٹم،میٹرو منصوبہ،لیپ ٹاپ سولر لیمپس کی تقسیم،ڈیڑھ ڈیڑھ کارناموں کی گٹھڑی سر پر اٹھائے عوامی خدمت اوراپنی کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے۔ حکمرانوں نے کچھ کیا ہوتا تو آج پاکستان جنت نظیر ہوتا جبکہ عوام مسائل کے جہنم میں زندگی گزار رہے ہیں ۔”ثانیانِ سوری“ کی تاریخ قابل رحم حد تک کمزور ہے۔ مائیک توڑ خادم کو تو تین سال بعدکسی نے بتایا کہ علی بابا چور ڈاکو اور لٹیرا نہیں تھا۔ دو چار انڈر پاس چند میل کی سڑکیں بنا کر کوئی جدید دور کا شیر شاہ سوری بن جا ئے تو اس پر SORRY ہی کہا جا سکتا ہے۔شیر شاہ سوری نے صرف سڑکیں ہی نہیں بنائی تھیں اور بھی بہت کچھ کیا تھا شیر شاہ سوری جیسے حکمران صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں....جب ہند میں مغلوں کی آمد اور لودھی خاندان کا خاتمہ ہوا تب شیر شاہ مغلوں کی جنگی مہارت سے کافی متاثر ہوکر بابر کی فوج میں شامل ہوگیا۔ شیر شاہ کی اعلیٰ صلاحیتوںکو دیکھتے ہوئے بابر نے اسے سہسرام کا نظم و نسق سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی۔ ایک دفعہ شاہی دستر خوان پر شیر شاہ نے بادشاہ کے سامنے سے خوان کھینچا اور بلا تکلف تلوار سے گوشت کاٹ کا کر کھانے لگا۔بابر کو یہ ناگوار گزرا۔ بابر نے اس کے بعد اپنے سرداروں سے کہا تھا ” اس پرکڑی نظر رکھو ، مجھے اس کی پیشانی پر بادشاہت کی جھلک نظر آتی ہے“۔ بابر کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی اور گھوڑے پالنے والوں کا بیٹا 1539 ءکو بابر کے بیٹے ہمایوں کو شکست دے کر ہندوستان کی عظیم سلطنت کا مالک ومختار بن گیا۔ سوری نے ہی اپنے ہاتھ پر خنجر سے بادشاہت کی لکیر کھینچی تھی۔ شیر شاہ کو حکومت کے لئے بہت کم وقت مل پایا (دسمبر 1539 سے 22 مئی 1545)، یعنی تقریباً ساڑھے پانچ سال لیکن اس مختصر سی مدت میں بھی شیر شاہ سوری نے وہ کارنامے انجام دئیے و اصلاحات کیں جن کی مثال ہندوستان کے کسی حکمراں کے دور میں نہیں ملتی۔شیر شاہ سوری نے سلطنت کو ضلعوں اور تحصیلوں میں اور تحصیلوں کو دیہات میں تقسیم کیا‘ ان دیہات میں چوکیدار ، پٹواری اور نمبردار حکومت کے نمائندے ہوتے تھے، یہ عہدے آج بھی قائم ہیں۔ زمین کو بیگھوں میں تقسیم کیا ، ہر بیگھے کے لیے الگ خسرہ نمبر طے کیا۔ اس نے ہی مالیہ کا نظام دیا ،جاگیرداری نظام کا خاتمہ کیا، ڈپٹی کمشنر کے عہدے کی بنیاد رکھی، مرکزی فوج کا تصور دیا، فوج کی باقائدہ تنخواہ مقرر کی۔ مالیات‘ دفاع اور امور خارجہ کی وزارتیں قائم کیں‘ سیکرٹریٹ کا تصور دیا‘ انٹیلی جنس کا نظام مرتب کیا ، محکمہ ڈاک بنایا ،چیف جسٹس ، سیشن اور سول ججوں کے عہدے قائم کئے۔ معیشت کو سلطنت کی بنیاد قرار دیا ، تجارت کیلئے باقاعدہ ضابطہ اخلاق طے کیا ، اور اور اور بھی بہت کچھ.... کسی مورخ نے شیر شاہ سوری کے بارے میں کہاتھا ” مغلوں کے ایک ہزار سال اور شیر شاہ سوری کے پانچ برس ترازو کے پلڑوں میں رکھے جائیں تو اس افغان زادے کا پلڑا فوراً زمین پر آلگے گا۔“ شیر شاہ سوری کے عظیم کارناموں میں سے ایک کارنامہ جو شاید سب سے بڑا ، جی ٹی روڈ(شاہراہ اعظم) کی تعمیر ہے جس کی وسعت افغانستان سے بنگلہ دیش تک ہے۔ یہ سڑک افغانستان کے شہر کابل سے شروع ہوتی ہے ،پاکستان میںپشاور ،لاہور سے ہوتی ہوئی دہلی اور دہلی سے الٰہ باد ،بنارس، مرشد آباد سے کلکتہ اور پھر ڈھاکہ جاتی ہے۔ ان دنوں کی سہولیات کا آج کے دور سے موازنہ کریں ،ہزاروں میل سڑک اور وہ بھی محض5سال ہیں۔ اس کے مقابل آنیوالے اور خود کو سوری ثابت کرنیوالوں کو بھی پانچ پانچ سال ملے ان میں کیا کیا؟ ذرا اندرون پنجاب کی سڑکوں کی حالت ملاحظہ فرمائیے تواوّل تو ادھڑی رہتی ہیں،تعمیرو مرمت بھی ہوتو ایک سال میں پھر اُدھڑ جاتی ہیں۔شیر شاہ نے ملک کے تمام اہم راستوں کی حفاظت کے لیے جگہ جگہ سرائیں تعمیر کروائیں جہاں مسافروں ،قافلوں کے ٹھہرنے کا انتظام ،مسجد، پانی کے لیے کنواں ، رہزنوں سے حفاظت کے لیے حفاظتی دستہ ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ ہر ایک دو کوس (تقریباً ساڑھے تین کلو میٹر) پر ایک سرائے یا فوجی چھاﺅنی ہوتی جو راہگیروں کو تحفظ فراہم کرتی تھی۔ہر سرا ئے میں ہندو مسلم دونوں عوام کے اعتبار سے مخصوص طعام کا نظم کیا جاتا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سڑکوں کے دونوں کنارے پھل دار درخت لگوائے۔ شیر شاہ سوری نے اپنے دور میں یہ ضابطہ بنادیا تھا کہ ملاوٹ کرنیوالے کے جسم کا گوشت ایک مخصوص مقدار سے اتارلیا جائے اس قانون کے اطلاق کے بعد ملاوٹ کا جڑ سے تدارک اور سدباب ہوگیا تھا۔

No comments:

Post a Comment