مشرف کرگل اور کشمیر
کرگل پر کچھ بھی لکھا جائے اور جتنا بھی لکھا جائے ،سچائی سامنے نہیں آ سکتی۔ بہت کم لکھنے والے ایسے ہی جو غیر جانبداری کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے حامی اپنے تبصروں میں کیا مشرف کے نقطہ نظر کو اجاگر کریں گے؟ مشرف کے حمایتی بھی کرگل اپریشن میں میاں نواز شریف کو گھسیٹنے پر پورا زور لگا دیتے ہیں۔ ایسے میں کرگل اپریشن پر پڑے غبار کا ہٹ جانا ممکن نہیں ہے۔ مشرف کے حامی اسے کامیابی اور مخالف ناکامی سے تعبیر کرتے ہیں۔ سچائی صرف کمشن ہی سامنے لا سکتا ہے۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کسی بھی کمشن کے مخالف ہیں۔ ان کی مخالفت کے پہلو کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ وہ کہتے ہیں ” کمشن بنا تو کئی فوجی رازوں سے پردہ اٹھ سکتا ہے“۔ کیوں نہ کرگل کرشمے کو ایک فوجی کمشن دیکھ لے۔ یہ کمیشن حاضر سروس فوجیوں پر مشتمل ہو۔ ریٹائر ہونے والوں کی حب الوطنی پر سوال نہیں شبہ تو نہیں کیاجا سکتا تاہم اکثر اس سیاست کا حصہ بن چکے ہیں جو فوج میں رہتے ہوئے انہیں بدبودار نظر آتی ہے۔ یہ سیاسی وابستگیوں کا شاخسانہ ہے کہ بات کرتے ہوئے سیاسی حریف ان کا نشانہ اور جس کے حامی ہوں اس کی ہر ادا معصومانہ ٹھہرتی ہے۔ جنرل ضیاءالدین آرمی چیف بنے، جنرل مشرف اور ان کا ساتھی جرنیلوں نے ان کی دال نہ گلنے دی۔ جنرل ضیاءالدین کیسے مشرف کو معاف کر سکتے ہیں؟ ۔وہ کمشن کے قیام کے سب سے بڑے حامی ہیں۔جنرل ضیاءالدین نے فوج کو بہت بڑے کلیش سے بچایا۔ان کے اس کردار سے ان کی عزت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ بھی اپنے آرمی چیف بننے کو انا کا مسئلہ بنا لیتے تو فوج تقسیم ہو کے بکھر جاتی۔ آ پس میں لڑ کر ٹوٹ جاتی، انہوں نے مزاحمت نہ کرکے قابل فخر اور قابل رشک کردار ادا کیا، جس کی کبھی تحسین نہیں کی گئی شاید ہمیں اس کا ادراک ہی نہیں ہے۔
جنرل شاہد عزیز ہی کیا بہت سے دوسرے بھی تذکرہ کرتے ہیں کہ کرگل اپریشن کا علم صرف میجر جنرل جاوید حسن، جنرل محمود اور جنرل عزیز تھا۔ اسے جنرل مشرف پر الزام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ کرگل ایک اپریشن تھا، کھلی جنگ نہیں۔ اس کو جس قدر بھی اخفا میں رکھا جاتا بہتر تھا۔ اگر اس سے آئی ایس آئی کے میجر جنرل شاہد عزیز جیسے لوگ بھی بے خبر تھے تو اس کا کریڈٹ اپریشن کے خالقوں کو جاتا ہے۔
مشرف کہتے ہیں ”میں نے کرگل پر سیزفائر کرانے کے لئے نواز شریف سمیت کسی کی منتیں نہیں کیں، بھارت امریکہ کے ذریعے پاکستان پر دباﺅ ڈال رہاتھا کیونکہ ہم نے بھارت کی گردن پکڑی ہوئی تھی جب کہ کرگل آپریشن پر ایٹمی جنگ کا خطرہ نہیں تھا۔ نواز شریف نے مجھ سے پوچھا ضرور تھا کہ کیا ہمیں کرگل سے واپس آنا چاہیے تو میں نے فوجی اعتبار سے اپنی پوزیشن بتا دی کہ ہم کمانڈنگ پوزیشن میں ہیں، 5 میں سے4چوکیوں پر ہمارا قبضہ ہے اور وہاں پر ایک گولی تک نہیں چلی لیکن ایک جگہ انہوں نے بھاری فورس کی مدد لے کرہمارا قبضہ چھڑوالیا ہے ہم ٹیکنیکل طورپر بہترین پوزیشن میں تھے“۔
کسی کرنل (ر) اشفاق حسین نے انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے” جنرل پرویز مشرف کرگل آپریشن کے ذمہ دار تھے کرگل مشن کے دوران پرویز مشرف نے خود کنٹرول لائن پار کی اور بھارت کے زیر قبضہ علاقے میں ایک رات گزاری 28 مارچ 1999ءکو جنرل پرویز مشرف ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے لائن آف کنٹرول کے اس پار 11 کلومیٹر تک علاقے میں گئے اور ”موستکر“ کے ایک مقام پر کرنل امجد شبیر نے ان کو اسکارٹ کیا“۔
اس کو کیا کہیے ! آرمی چیف اگر دشمن کے مقبوضات میں جاکر اپنے فوجیوں کے ساتھ پوری رات مورچوں میں رہے تو یہ انکی جرات اور شجاعت پر دلیل ہے ،اس سے بھی یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مقبوضہ علاقہ کس قدر پاک فوج کے مضبوط ہاتھوں میں تھا کہ آرمی چیف کو وہاں جانے میں کوئی جھجک نہیں نہ ہوئی ۔ کرنل موصوف اپنی کتاب ”وٹنس ٹو بلنڈر“ مزید لکھتے ہیں،”پرویز مشرف اس کارروائی کو کیسے شاندار کہتے ہیں جب موسم سرما کے دوران وہاں بھارتی فوجی موجود ہی نہیں تھے“۔what a non sense بھارت نے سیا چن پر قبضہ کیا تو کیا وہاں پاک فوج موجود تھی ؟ بھارت نے پاک فوج کی غفلت سے فائدہ اٹھایا ۔پاک فوج نے بھارت کو کرگل میں اسی طرح غافل پایا تو سیکڑوں میل علاقے پر قبضہ کرلیا۔ایک خفیہ اپریشن کی اس سے بڑی کامیابی کیا ہوسکتی ہے ! بھارت کے سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل پرویز مشرف کے 1999ءمیں کرگل میں بھارتی حدود میں داخل ہونے اور وہاں رات گزارنے پر انکی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک فوجی کمانڈر کی جرات مندی کا عکاس ہے۔کرنل صاحب کسی کی محبت اور مشرف سے نفرت میں مسلمہ فوجی اصولوں سے بھی انحراف کررہے ہیں شاید ان کا تعلق فوج کے غیر عسکری شعبے سے ہو۔
مشرف کرگل اپریشن کوکامیاب قرار دیتے ہیں۔جس کے ذریعے کشمیر کے ایک بڑے رقبے پر پاک فوج نے قبضہ کرلیا تھا۔کرگل پر قبضہ برقرار رہتا تو پاکستان کی آزادیِ کشمیر اور سیاچن سے بھارتی فوج کے انخلا کے معاملات پر پوزیشن مضبوط ہوتی۔ قدرت ایسے مواقع بار بار نہیں دیتی۔ یہ بہترین موقع گنوا دیا گیا۔ ضرورت اس کے تعین کی ہے کہ یہ موقع کس کی نااہلی اور بزدلی سے ضائع ہوا۔ کم از کم یہ تو قوم کے علم میں لایا جائے اس کے لئے جو بھی مخالفت کرے ایک کمشن ضرور تشکیل دیا جانا چاہئے جس کا مینڈیٹ صرف اس معاملے تک محدود ہو۔
No comments:
Post a Comment