”چلو!“
ذوالفقار علی
بھٹو کے نام بے شمار کارنامے ہیں۔جنگی قیدیوں کی واپسی، اسلامی سربراہی
کانفرنس،آئین کی تشکیل، جمعہ کی چھٹی، ایٹمی پروگرام کی بنیاد وغیرہ
وغیرہ۔باقی بہت کچھ بھی ہوتا تھا، روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ تو لگایا
اسکی عملی شکل کہیں نظر نہیں آئی تاآنکہ آج چار ساڑھے چار دہائیوں بعد بھی
انکے جاں نشیں یہی نعرہ لگا کر عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ یہ رویہ
ناقابل فہم ہے کہ ”چلو“ یہ تو انہوں نے کیا۔ آج بھی اقتدار کی چوکھٹ کو
سلامی دینے والے کہتے ہیں چلو پیپلز پارٹی نے بینظیر انکم سکیم تو شروع کی،
گوادر پورٹ چین کے حوالے اور ایران سے گیس معاہدہ کرکے جرا¿ت دکھائی،نیشنل
ایوارڈ پر صوبوں کو مطمئن کیا کیوں ”چلو“ کہا جائے؟ باقی مسئلے کس نے حل
کرنے تھے۔ بجلی گیس تیل مہنگائی بیروزگاری لاقانونیت اور دہشت گردی جیسے
عوام کا سکون برباد اور انہیں عدم تحفظ سے دوچار کرنے والے مسائل نے ان کا
جینا دوبھر کردیا۔ چلو ، ن لیگ نے موٹر وے بنائی‘ پاکستان کوایٹمی قوت
بنایا، میٹرو بس چلا دی، آشیانہ سکیم اور دانش سکول کھول دئیے، لیپ ٹاپ اور
سولر لیمپ تقسیم کردئیے لیکن عوام کے بنیادی مسائل جوں کے توں رہے۔ اس پر
بھی کیوں چلو کہا جائے۔ ساغر صدیقی نے کہا تھا.... جس دور میں لٹ جائے
غریبوں کی کمائی اس دور کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے ہمارے سلطانوں سے
ہزاروں بھول بھلیاں ہوتی ہیں۔عوام سے کوئی بھی مخلص نہیں، سب کے اپنے اپنے
مفادات اور مقاصد ہیں۔ نیکی کر دریا میں ڈال، مقولہ سنا تھا‘ حکمرانوں نے
اسکی بھد اڑا دی۔ قومی وسائل عوامی مسائل حل کرنے پر لگا کر خزانے سے اپنی
تشہیر! کیا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو یہ بھی ٹرانسپیرنٹ نظر آئیگا اور اسے
بھی صاف شفاف ہونے کا سر ٹیفکیٹ دیدے گی؟ مسلم لیگ ن کا جاری کردہ منشور
آئیڈیل ہے،پانچ سال میں گُل کھلانے والے آئندہ برسوں سرزمین پاکستان پر
پھول کھلائیں گے۔ ہر طرف امن و سکون ہوگا، دہشت گرد اپنی جان کی امان
مانگتے نظر آئیں گے، خوشیوں اور خوشحالی کے شادیانے بجیں گے، کم از کم
تنخواہ 15ہزار زیادہ سے زیادہ لا محدود، وسائل کی یکساں تقسیم، غربت کا
خاتمہ یقیناً مغربی اور عرب ممالک کی طرح خوشحالی اور ترقی یافتہ ہوںگے۔
ایسے ہی منشور دوسری پارٹیاں بھی جاری کریں گی۔ن لیگ کے منشور میں یہ کسر
رہ گئی کہ یورپی اور عرب ممالک کی طرح ٹریفک دائیں طرف چلانے اور ہر گھر کے
ایک فرد کو چاند کی سیر کرانے کا وعدہ نہیں کیا‘ یہ بھی کرلیتے تو کیا
بُرا تھا؟ جو منشور میں وعدے کئے ان پر اپنی حکمرانی کے دوران عمل کیوں نہ
کیا؟ پولیس کلچر کے خاتمے کیلئے مرکز کی حکمرانی ضروری ہے؟ چلو پی پی پی نے
یہ تو کیا‘ چلو ن لیگ نے وہ تو کیا‘ اس گردان کا خاتمہ ہر مسئلے کے حل کی
صورت میں ہی ہوسکتا ہے۔ چلو کوئی ایکسکیوز نہیں ہے۔یہ نااہلی نالائقی اور
ناکامی ہے۔ اس کا تدارک پرانی قیادت کے نئے ولولے یا نئی قیادت کے جوش و
جذبے سے ہی ہوسکتا ہے۔ ایک نئی قیادت عمران کی صورت میں بھی سامنے آرہی
ہے۔انہیں ایسی صورتحال کا سامنا ہے کہ باپ بیٹا گدھے کو لیکر گاﺅں سے گزر
رہے تھے لوگوں نے کہا کتنے احمق ہیں ‘گدھے کے ساتھ ساتھ چل رہے اوپر نہیں
بیٹھتے۔گدھے پر بیٹھے تو اگلے گاﺅں والوں نے ظالم قرار دیا کہ کمزور گدھے
پر دو ہٹے کٹے بیٹھے ہیں۔ تیسرے گاﺅں میں گزرے تو دونوں نے گدھے کو اٹھایا
ہوا تھا۔ عمران خان نے نوجوانوں پر ہی تکیہ کرنے کا عزم دہرایا تو لوگوں نے
کہا پرانے لوگوں کو بھی ساتھ ملائیں‘ جب انہوں نے ایسا کیا تو انہیں کرپٹ
لوگوں کو ملانے کے طعنے ملنے لگے۔ اب ان پر بھی دروازے بند ہوتے نظر آرہے
ہیں۔کل ہی فرمایا کہ جس حلقے سے اچھے امیدوار نہ ملے‘ حلقہ خالی چھوڑ دیں
گے۔ خان صاحب طعنوں کی گٹھڑی کا ”کھوتا “ سر پر نہ اٹھائیں،جہاں سے اہل
امیدوار نہیں ملتے‘ وہاں عام کارکن کو پارٹی فنڈ سے اسکی سکیورٹی جمع کرا
کے الیکشن لڑائیں،ووٹر کو کسی دوسری پارٹی کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔
عمران خان ان ممالک جیسی سیاست کر رہے ہیں جہاں سے ہم نے جمہوریت سیکھی
‘نقل کی یا مستعار لی لیکن ماحول پاکستانی ہے۔ پاکستان میں مغربی جمہوریت
کو اسکی اصل صورت میں چلانے کیلئے ماحول بھی ویسا ہی بنانا ہوگا جس کیلئے
عمران خان کوشاں ہیں‘ اس کیلئے ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمے گی‘ انتظار کرنا
ہوگا۔ عمران کی نوجوانوں سے امیدیں وابستہ ہیں اور نوجوان بھی ان کو اپنی
امیدوں کا مرکز سمجھتے ہیں۔دو تین روز قبل جامعہ پنجاب سے ماس کمیونیکیشن
کے سٹوڈنٹس بابر، ارسلان اور لطیف اپنی اسائمنٹ کے سلسلے میں نوائے وقت
دفتر آئے ہیں‘ ان سے ملاقات ہوئی تو ان تینوں نے پاکستان کے مسائل کا حل
جمہوریت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو اصولی سیاست جاری رکھنی
چاہئے ‘وہ ان کے ساتھ ہیں۔ان میں سے بھی ایک دو کو لیپ ٹاپ مل چکے
ہیں۔عمران خان اگرروایتی پارٹیوں کیلئے خطرہ ہیں تو وہ ”چلو“ کے روئیے کو
ترک کرکے قومی وسائل عوامی مسائل کیلئے استعمال کریں‘ میرٹ میرٹ کی رٹ
لگانے کے بجائے اس پر عملدرآمد کرکے مہاتیر محمد جیسا عملی نمونہ بن کر
دکھائیں۔بات جب بنے گی۔ (ختم شد)
No comments:
Post a Comment