About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, April 25, 2013

ہر گام ، ہرکام تاریخ ساز؟


ہر گام ، ہرکام تاریخ ساز؟

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
19 مارچ 2013 0
پانچ سالہ جمہوری دور میں حکومتی سیاستدانوں کا زیادہ زور تاریخ سازی پر رہا۔ کردار سازی ان کا کبھی مسئلہ تھا‘ ہے اور نہ ہو گا۔ اس دور میں ایک سے بڑھ کر ایک تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا جاتا رہا۔ 2008ءکے انتخابات میں جیتنے والی ہر پارٹی اقتدار کے مے خوانوں میں ساقی اور رند بنی‘ لہراتی اور کبھی لڑکھڑاتی رہی۔ عوام کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ ان کو جو درد ملے‘ جن مصائب کا سامنا رہا لگتا ہے کہ عوام ایک بار پھر مداوے اور ازالے کے انہی کی چوکھٹ کو سلام کرتے نظر آتے ہیں۔
جامِ مے توبہ شکن‘ توبہ میری جام شکن
سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
پانچ سال میں حکومت اور حکومتی پارٹیوں نے جو تاریخ بنائی وہ ہر پاکستانی کے جسم و جاں پر رقم ہو چکی ہے۔ ایک ایک کا تذکرہ کیا جائے تو کتابیں مرتب ہو سکتی ہیں‘ جس کی تیاری شاید کہیں ہو رہی ہو۔ پانچ سالہ کارناموں کی طرح بڑی حکومتی پارٹیوں کے منشور بھی تاریخ ساز ہیںبالکل ماضی کی طرح۔کسی بھی پارٹی کے پورے منشور کو بھی ایک کالم میں زیر بحث لانا ممکن نہیں صرف دیگ کے چاول کی طرح ایک ایک نکتے سے پورے منشور کی حقیقت عیاں ہو جاتی ہے۔ویسے بھی جن لوگوں نے مسلم لیگ ن کا 1993ءکا منشور پڑھا، دیکھا یا سنا ان کو 2007اور پھر 2013کا منشور دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ایسا ہی پی پی پی کے منشورات کا بھی کمال ہے۔ پرانے شکاری پرانے جال ہی کو استعما ل میں لا رہے ہیں۔ مسلم لیگ نے پولیس کلچر بدلنے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ لوگ صوبے میں پانچ سال تک بلاشرکت غیرے اقتدار میں رہے۔ پولیس کلچر کے خاتمے کے لئے مزید کتنے سال درکار ہیں؟ پانچ دس پندرہ یا پھر پیپلز پارٹی کے روٹی کپڑا اور مکان کی طرح ہرالیکشن سے قبل نعر کے طور پر اپنا لینا۔ پیپلز پارٹی نے بھی اپنے منشور میں ایک بار پھر روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ کیا ہے۔ پانچ سال کیا دعوے کو عملی شکل دینے کے لئے کم تھے۔
بڑی پارٹیوں کی منشور کی طرح راجہ پرویز اشرف کا قوم سے خطاب بھی تاریخ ساز بلکہ ریکارڈ ساز ہے۔ اس میں پانچ سالہ دور اقتدار کی کامیابیوں کے فسانے سنائے گئے ہیں۔ ان کے خطاب کی اہم ترین بات یا دعویٰ پانچ سال میں 4 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنا ہے۔ سبحان اللہ! باقی کی تقریر بھی ایسی ہی کامیابیوں‘ تاریخ سازیوں اور ریکارڈبازیوں پر مشتمل ہے۔ رحمن ملک بھی اپنی آخری تقریر میں مات سازی میں کچھ کم نظر نہ آئے۔ ان کی تقریر کی تین باتین بڑی اہم ہیں؛۔نئے وزیر داخلہ کو پرامن ملک دے کے جا رہا ہوں۔ جمہوریت کو کامیابی سے ہمکنار کرنے پر جنرل کیانی کو فیلڈ مارشل کا خطاب ملنا چاہئے۔ پہلے بھی صدر کا مشیر تھا اور اب بھی ہوں۔ اس کے لئے کسی نوٹیفکیشن کی ضرورت نہیں۔۔۔ رحمن ملک نے اگر ملک پرامن چھوڑا ہے تو پھر امن کی تعریف بدلنا ہو گی۔ بلوچستان‘ کراچی‘ فاٹا اور خیبر پختون کے اکثر علاقوں میں لپکتے شعلے‘ ڈرون حملوں میں مرتے انسان‘ خودکش بمباروں کے پورے ملک میں پھیلائے ہوئے بارود اور ہر ذی روح کواپنی جان کو پڑے لالے‘ کسی امن کی نشاند ہی کر رہے ہیں؟ رحمن ملک نے جو فرمایا درست فرمایا اور ان کے بارے میں میاں محمد شہباز شریف اور ذوالفقار مرزا نے جو ان کی ”سچائی “ کے بارے میں کہا تھا وہ بھی شائد جھوٹ نہیں۔ کم از کم ملک صاحب کے امن کے حوالے سے فلسفے سے تو یہی ثابت ہوتا ہے۔ جنرل کیانی کو انہوں نے فیلڈ مارشل کا خطاب دینے کی بات کی ہے۔ ملک صاحب! فیلڈ مارشل کوئی خطاب نہیں یہ فوج کا ایک رینک ہے جو جنرل کے بعد خصوصی حالات غیر معمولی کارکردگی کی بنا پر دیا جاتا ہے۔
 دوسری جنگ عظیم میں بہت سے فیلڈ مارشل بنائے گئے۔ اس کے بعد یوگنڈا کے عیدی امین اور پاکستان کے ایوب خان نے اپنے اپنے ملک کے صدر ہونے کی حیثیت سے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے خود کو فیلڈ مارشل کے رینک کا بھی حقدار قرار دے دیا۔بھارت میں دو جرنیلوں کُڈندرہ کریاپا اور مانک سنگھ اپنی کارکردگی کے باعث فیلڈ مارشل بنے تھے۔ جنرل کیانی صاحب نے ایسا کوئی تیر نہیں مارا کہ ان کو فیلڈ مارشل کا رینک دے دیا جائے۔ البتہ پانچ سال تک دندناتی ‘ عوام کو مسائل میں الجھاتی اور وسائل کو کھاتی جمہوریت کی پشت پناہی پر جنرل کیانی کو تمغہ جمہوریت جیسا کوئی میڈل ضرور دے دینا چاہئے۔ ویسے یہ جنرل کیانی کی آئینی ذمہ داری ہے کہ جمہوری حکومت کے ہر اقدام کی تائید کریں‘ اگر انہوں نے ایسا کیا ہے تو یہ کوئی عظیم کارنامہ نہیں ہے۔ یہ تو ان کا فرض تھا جو انہوں نے پورا کیا۔
 رحمن ملک نے آخری تاریخ ساز دعویٰ خود کے صدر کا دائمی مشیر ہونے کے حوالے سے کیا ہے۔
 زرداری صاحب کی پارٹی کی حکومت کا چل چلا¶ ہے۔ اپنے اختیارات سے وہ خود سرنڈر کر چکے ہیں۔ اب شاید ان کے اختیار میں رحمن ملک اور ڈاکٹر عاصم حسین جیسے خدام کو مشیر کے عہدے دینے کا اختیار ہی بچا ہے۔ ڈاکٹر عاصم وزیر اور مشیر پٹرولیم کی حیثیت سے عوام کا تیل نکالتے رہے‘ اب حکومت کے خاتمے پر صدر صاحب نے ان کو اپنا فزیشن رکھ لیا ہے۔ملک صاحب صدر کے سکیورٹی ایڈوائزر ہو ں گے۔ جن کی مراعات وفاقی وزیر کے برابر ہیں۔ مالشیے اور چوکیدار کا درجہ فل وزیر کے برابر یہی جمہوریت کا حسن اور اس پر دسترس رکھنے والوں کی حسین ادا ہے؟ سرکاری خزانے سے غلاموں پرایسی مراعات؟
 سبحان اللہ!ایک میڈیا والوں کی بھی تاریخ سازی ملاحظہ فرمائیے ، ہر تیسرا خود کو دھانسو اینکراورکالم نگار سمجھنے والا دعویٰ کر رہا ہے کہ اسے بھی نگران سیٹ اپ میں شمولیت کی دعوت مل رہی ہے ۔ مرکز اور تین صوبوں میں ابھی نگرانو ں کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔پھر یہ دعوتیں کو ن دے رہا ہے ؟ کیا خیبر پی کے ، کے نگران وزیر اعلیٰ طارق پرویز صاحب سب کو اکاموڈیٹ کر رہے ہیں؟ ۔ اگر کسی نے کہہ ہی دیا ہے تو اسے جید صحافی ہضم کریں ، اپنا مذاق نہ اُڑوائیں ہم جیسے ان کے پرستاروں کوشرمند گی ہوتی ہے ۔ 

No comments:

Post a Comment