About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, April 25, 2013

پاکستان بھارت، سیاست کے شہزادے


 پاکستان بھارت، سیاست کے شہزادے

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
28 فروری 2013 0
 برصغیر میں مسلمان اور ہندو صدیوں اکٹھے رہے۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کیلئے بیک وقت نفرت کدورت اور محبت و برداشت کے جذبات موجود رہے۔ ہر دو کے کلچر نے ایک دوسرے پر بھی اثرات چھوڑے۔ ہندو کلچر سے مسلمان کچھ زیادہ ہی متاثر ہوئے۔ ہندوستان میں آج بھی پاکستان سے زیادہ مسلمان موجود ہیں۔ ان کے ایک دوسرے کو برداشت اور عدم برداشت کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ دونوں کے مابین اگر الفت و محبت نظر آتی ہے تو کینہ اور کدورت بھی چھپی نہیں رہتی۔ شار رخ خان اور سیف علی کی ہندو لڑکیوں سے شادیاں جہاں ہندو مسلم رواداری کی مثال ہے وہیں، بابری مسجد کی شہادت، گجرات کے فسادات اور مالی گاﺅں کی قتل و غارت ایسے واقعات نفرت کی دیواروںکی نشاندہی کرتے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں پر ہندو کلچر کا رنگ نمایاں ہے خود کو ہندو کلچر کا حصہ بنانا مسلمانوں کی مجبوری ہے یا یہ ایک فطری عمل ہے اس کا جواب ہمیں پاکستانی مسلمانوں پر ہندو کلچر کے اثرات سے مل جاتا ہے۔ 98 فیصد پاکستانیوں کا بھارت اور بھارتیوں کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے لیکن پہلے وی سی آر اور اب کیبل پر دکھائے جانے والے بھارتی چینلز کے ڈراموں اور دیگر پروگراموں نے ہر نسل کے مرد و خواتین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔آج ہمارے گھروں میں شادی،مہندی اور سالگرہ جیسی تقریبات پر ہندو کلچر کی گہری چھاپ ہوتی ہے۔ ہماری عام گفتگو میں ہندی الفاظ کا استعمال عام ہوگیا ہے۔ ڈر ہے اس وقت سے جب دادا کی وفات پر پوتا بھاگا بھاگا لکڑیوں کے ٹال پر جائیگا۔ پاکستان اور بھارت کا سیاسی کلچر بھی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک جیسا ہے۔ دونوں کے ہاں پارلیمانی نظام جمہوریت ہے۔ وہاں جمہوریت کا پودا تناور درخت بن چکا ہے تو ہمارے ہاں جمہوریت کے پودے کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ اس کی کونپلوں کو آمریت کی لو جھلسا دیتی ہے۔وہاں بھی ہماری طرح یا جہاں بھی ان کی طرح سیاست میں بیک وقت مفاہمت و مخاصمت کے مدوجذر پائے جاتے ہیں۔ سیاست میں خاندانی اجارہ داریاں دونوں کے ہاں ہیں۔ لیکن بہت بڑے فرق وتفاوت کے ساتھ، ہمارے ہاں اجارہ دار خاندانوںکا شمار ممکن نہیں، وہاں صرف ایک ہی نہرو یا گاندھی خاندان ہے جس میں وراثت چلتی ہے ۔باقی اگر ہیں تو نہرو،بھٹو، شریف، چودھری، گیلانی جیسے خاندانوں کی طرح معروف نہیں۔ان خاندانوں کی اولادوں کا عمومی چلن ایک سا یعنی شہزادوں جیسا ہے۔ نیوز ویک نے گاندھی خاندان کے سپوت راہول گاندھی کے شب و روز کی ہلکی سی جھلک دکھاتے ہوئے اسے بھارتی سیاست کا شہزاد ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت میں اگلے سال عام انتخابات ہورہے ہیں۔راہول گاندھی کانگریس کی امید ہیں اور کانگریس کے رہنما راہول کے سرپر وزارت عظمیٰ کی ہما بٹھانے اور ان کے ہاتھ میں سو کروڑ انسانوں کی تقدیر تھمانے کا ارادہ کئے ہوئے ہیں۔ سیاست راہول کا فل ٹائم نہیں، پارٹ ٹائم جاب ہے جبکہ اگلے سال آل کے کانگرس کے نائب صدر کی راہول کی ممکنہ طورپر بھارت کے اقتدار پر مکمل دسترس ہوگی۔ گزشتہ کرسمس کے دنوں ایک لڑکی اجتماعی زیادتی کے دوران ماری گئی تھی۔ اس بہیمانہ سانحہ کے بعد بھارت میں شدید اشتعال کی کیفیت تھی۔ سیاستدان، مذہبی حلقے ،فنکاراور ہر مکتبہ کے لوگ بلا امتیاز اس واقعہ کی شدید مذمت اور مظاہرے کرتے نظر آئے اس موقع پر راہول گاندھی کہیں دکھائی نہیں دیتے۔انکے دفتر کی طرف سے محض اخبارات کو ایک رسمی تعزیتی بیان جاری کردیا گیا۔ راہول اس موقع پر نئے سال کی رنگینیوں کی تیاری کر رہے تھے ۔اگر راہول کی سکیورٹی کاجائزہ لیا جائے تو وہ وزیراعظم سے بھی بڑھ کر ہے۔ایسی سکیورٹی، سہولیات اور مراعات تو اصل شہزادوں کو بھی حاصل نہیں ہیں۔البتہ ان کی والدہ نے ایک وفد سے ملاقات ضرور کی تھی۔اطالوی ماں کے انڈین بیٹے کا اپنا ایک کیلنڈر ہے جسے وہ سیاسی معاملات پر فوقیت دیتا ہے۔راہول کانگرس کے ممبر ہیں لیکن وہ پارلیمان کے اجلاس میں شرکت میں دلچسپی نہیں لیتے۔ ہمارے بلاول اور ان کے راہول کے مابین سے بہت سی اقتدار مشترک ہیں۔ کسی نے راہول اور بلاول کے آخری دو حروف ”ول“ کو مشترک قرار دیا۔اگر ایسی مشترک قدر کی بات کریں تو بغلول کے آخر میں بھی ” ول“ آتا ہے ۔ویسے ہماری سیاست میں بغلولوں یعنی احمقوں اور کوڑھ مغزوں کی کمی نہیں۔بلاول کی سکیورٹی بھی راہول جیسی اور اپنے خدمتگار وزیراعظم سے بڑھ کر ہے۔ نواب شاہ میں بلاول اپنے محل سے نکلے تو 33 بڑی گاڑیاں ان کی گاڑی کے آگے پیچھے تھیں ان میں چند ایک جھولی چکوں کی ہوںگی۔ان شہزادگان پاک و ہند کے آباءکے مابین بھی بہت کچھ مشترک ہے ۔بھارت میں گاندھی اور پاکستان میں بھٹو خاندان تین تین چار بار اقتدار میں آیا،راہول کی دادی اندرا گاندھی قتل ہوئیں،بلاول کے نانابھٹو کو پھانسی دی گئی۔ راجیو اور بینظیر دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ اندرا گاندھی کا دوسرا بیٹا سنجے جہاز اڑاتے ہوئے حادثے میں ماراگیا۔میر مرتضیٰ بھٹو کو قتل کیا گیا جبکہ شاہنواز بھٹو کی موت خودکشی اور قتل کے درمیان معلق معمہ بنی ہوئی ہے۔ہمارے ہاں سیاسی خاندانوں میں سیاسی وراثت کو شدید تنقید کانشانہ بنایاجاتا ہے۔اس سے کُلی اتفاق نہیں کیاجاسکتا سیاسی خاندانوںکی اولاد کو اگر سیاست سے الگ رکھنے کی روایت راسخ ہوچکی ہوتی تو بینظیر بھٹو جیسی رہنما پیپلز پارٹی کو نہ ملتیں۔البتہ سیاست میں احتیاط کی ضرورت ہے۔سیاست کو کاروبار بنا لیاجائے تو طعن تشنیع اور تبریٰ بازی تو ضرور ہوگی۔ راہول اور بلاول کو پلے بوائے قرار دینے والے بھی موجود ہیں لیکن دونوں پر کرپشن اور سیاست سے مالی مفادات حاصل کرنے کا الزام نہیں۔ بختاور،آصفہ اور مریم نواز بھی کرپشن کے الزامات سے دور بہت دور ہیں۔سابق وزیر اعظم گیلانی اور ان کے پورے خاندان پر کرپشن کے الزامات میڈیا پر آتے رہتے ہیں۔مونس الٰہی اور حمزہ شہباز شریف پر تنقید کرنیوالوں کی کمی نہیں۔ یہ دونوں سپوت سیاست اور کاروبار میں سے ایک پر ہی اکتفا کرتے تو اپنے اپنے خاندان کی پگڑیوں کی شفافیت کو یقینی بنا لیتے۔ کاروبار اور سیاست ساتھ ساتھ ہونگے تو نیک نامی پر بد نامی کا دھبہ تو لگے گا۔میاں نواز شریف اور چودھری شجاعت حسین کے صاحبزادوں کو شاباش کہ خود کو سیاست سے دور رکھا۔ آج کل لشکر جھنگوی پر پنجاب حکومت کی نوازشات کا بڑا تذکرہ ہے حالانکہ لشکر جھنگوی کا سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد کی طرح وجود نہیں ہے۔یہ تنظیمیں یا پارٹیاں اور ان جیسی بہت سی دیگر بھی کالعدم قرار دی گئی ہیں۔ اِدھر کسی پارٹی کو کالعدم قرار دیا اُدھر نئے نام سے نئی پارٹی بن جاتی ہے۔ پارٹیاں افراد سے بنتی ہیں، ان کی نیک نامی اور بد نامی میں بھی افراد کا ہاتھ ہوتا ہے۔ تنظیموں کالعدم کو قرار دینا لاحاصل ہے جو ان تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کا سبب بنے ان پر پابندی کی ضرورت ہے۔ یہ صرف مذہبی اور شدت پسند تنظیموں تک ہی محدود کیوں ہو؟۔اربوں، کھربوں کی لوٹ مار کرنیوالے سیاست دانوںاور ان کی کرپشن میں ملوث اولاد بھی پابندی کی زد میں آنی چاہئیں ۔جن لوگوں نے ملک توڑا،آئین کا حلیہ بگاڑا،قوانین کو پامال کیا۔ یہ سب بھی راندہ درگاہ قراردئیے جانے چاہئیں۔ یہ کام کون کریگا؟ ہمارے حکمران؟ جو خود ایسے معاملات کو فروغ دیتے ہیں۔ عدلیہ ؟جس کی کوئی سنتا نہیں؟فوج؟ جس کو ایسا کرنے کا حق نہیں۔ تو پھر کون؟ اس کا جواب ہے کسی حد تک ہم سب، جو ووٹ کا حق رکھتے ہیں۔ ووٹ کے ذریعے بہت کچھ کرسکتے ہیں؟ الیکشن کمشن کے ساتھ ملکر،اس کے ساتھ تعاون کرکے ،جو اب تک شفاف انتخابات کرانے کیلئے کمٹڈ نظر آتا ہے۔کسی کی شہزادگی کو نہ دیکھیں ،صرف کارکردگی کو پرکھیں۔

No comments:

Post a Comment