About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, April 25, 2013

میٹرو بس، شٹل ٹرین ۔۔۔ مزید کی ضرورت


میٹرو بس، شٹل ٹرین ۔۔۔ مزید کی ضرورت

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
19 فروری 2013 0
مہم جوئی کا کوئی خاص شوق نہیں۔ ہفتے کے روز سارا دن بارش ہوتی رہی اس لئے روٹین کی صبح اور پھر شام کو واک کا موقع نہ ملا۔ اتوار کو ہفتہ وار چھٹی کے روز واک سے بھی ناغہہوتا ہے ۔ چونکہ ہفتے کا دن خالی گیا تھا اس لئے سوچا میٹرو بس پر سفر کیوں نہ کر لیا جائے۔ نزدیکی سٹیشن ایک گھنٹے کی پیدل مسافت پر ہے۔ یہ چونکہ مفت بَری کا آخری دن تھا اس لئے جائزہ لینے کی کوشش کی کہ مالِ مفت کے ساتھ ہم پاکستانی کیسے نمٹتے ہیں۔ گھر آیا سولہ سترہ سالہ بھانجا بھی ساتھ چل پڑا۔ فیصل ٹاﺅن سے ماڈل ٹاﺅن، منہاج القرآن کے سامنے سے ہوتے ہوئے ماڈل ٹاﺅن پارک اور پھر ماڈل ٹاﺅن موڑ سٹیشن تک ایک گھنٹے میں پہنچ گئے۔ ماڈل ٹاﺅن پارک سے گزرتے ہوئے 10، 10 روپے کا ٹکٹ لینا پڑا جو 4 جنوری تک پانچ روپے تھا۔ پنجاب حکومت نے تمام تاریخی مقامات، پارکوںاور سیرگاہوںپر لگائے گئے ٹکٹ ختم اور پارکنگ فیس ختم کر دی ہے۔ ہسپتالوں میں بھی پارکنگ فری ہے۔ ماڈل ٹاﺅن سوسائٹی کی سیرگاہ پر 10 روپے ٹکٹ اور 20 روپے پارکنگ فیس لی جاتی ہے۔ اس رقم سے شاید ذمہ دار ایک اور سوسائٹی بنانا چاہتے ہوں۔
ماڈل ٹاﺅن موڑ سٹیشن پر شاہدرہ کی طرف جانے والوں کا رش زیادہ دوسری طرف کم تھا۔ پورے راﺅنڈ کا پروگرام تھا یہاں سے گجومتہ پھر شاہدرہ اور واپس کلمہ چوک۔۔۔ سٹیشن پر پہنچتے ہی جو بس آئی اس میں اڑھائی سو کے قریب انسان پیک تھے۔ ایک دو کو سٹیشن پر موجود گارڈ نے اتارا اور اتنے ہی گھس اورگھسڑ گئے۔ اس کے بعد دوسری بس 20 منٹ کے وقفے سے آئی۔ دو منٹ رُکی، مزید سواری کی گنجائش نہیں تھی ہارن دیا اور چل دی۔ دوسری طرف ہر دو تین منٹ بعد بس آتی اور جاتی رہی۔ البتہ 20 منٹ کے بعد بس ہر منٹ پر آ نے لگی، چوتھی بس میں گھسنے کا موقع مل گیا۔ جیم پیک، رش، گھڑمس، سانس لینا بھی دشوار، مہم جوئی میں ایسا ہوتا ہی ہے۔ گجومتہ آخری سٹیشن تک دو اترے تو چار سوار ہو گئے۔ ایک بس سے مسافر اترے تو چند ایک کے سوا مفت سفر کے مزے لینے والے دوسری کی طرف لپکے۔ دوسرے پلیٹ فارم پر جانا آسان نہیں تھا۔ پلیٹ فارم پر جانے کیلئے واک تھرو گیٹ سے ایک ایک کو گزرنا ہوتا ہے۔ دو منٹ بعد اڑھائی تین سو بندے آئیں گے تو ہزار بارہ سو کی لائن تو مستقل لگی رہے گی۔ ایسا ہی یہاں تھا۔ سوچا پچھلے سٹیشن پر چلے جائیں۔ دُلو خورد پر بھی لائن لگی تھی لیکن مختصر سی، پچاس ساٹھ لوگ ہوں گے۔ انتظامیہ بڑی مستعدی سے وقفے وقفے سے لائن حاضر، مفت بَروں کو پلیٹ فارم میں ایک ایک کو جدید واک تھرو گیٹ سے گزار رہی تھی۔ چونکہ دوسرا ہی سٹیشن تھا اس لئے رش نہ ہونے کے برابر تھا۔ گجومتہ سے سیٹ بائی سیٹ مسافروں کو بٹھا کر بس روانہ کی جاتی تھی اس کے بعد آنے والے دو تین سٹیشنوں سے پھر رش، گھڑمس اور جیم پیک۔ شاہدرہ جانے کا ارادہ ترک کر کے قینچی پر اترنے کا فیصلہ کیا۔ اترنے کیلئے منیر نیازی کے بقول دو نہیں تین دریاﺅں کا سامنا تھا۔ گیٹ پر پہنچنا، بس سے نکلنا اور پلیٹ فارم تک پہنچنے تک تین دریا آتے تھے۔ اس سٹیشن پر سواریوں کو اتارنے اور چڑھانے والا مددگار موجود نہیں تھا۔ چڑھنے والے قوتِ بازو اور پیٹ سے بس میں جگہ بنانے کیلئے کوشاں، اُترنے والا کیسے اُترے؟ پلیٹ فارم کی طرف کھلنے والے گیٹ بھی نازک اندام جو مسافروں کے ساتھ زیادہ زور آزمائی نہیں کرتے، تھوڑا سا کھسک کر راستہ دے دیتے ہیں ،جڑوں سے البتہ نہیں اکھڑتے۔ مفت سفر کا تجربہ تلخ، دلچسپ اور یادگار رہا۔ چار گھنٹے بعد گھر پہنچے تو جسم کے انگ انگ کی وہی حالت تھی جو مفت سفر کرنے والوں نے کچھ بسوں اور ان سے منسلک تنصیبات کی کر دی ہے۔
میٹرو سسٹم کو بہترین قرار دیا جا سکتا ہے، بس سٹیشن پر پہنچنے اور روانہ ہونے سے قبل ٹرین کی طرح ہارن دیتی ہے۔ اس کی آمد اور روانگی سے قبل نسوانی آواز میں لاﺅڈ سپیکر پر ریلوے سٹیشن اور ائر پورٹوں کی طرح اعلان ہوتا ہے۔ بس کے اندر بھی آنے والے سٹیشن کا اعلان کیا جاتاہے۔ اندر دو جگہ پر ٹی وی سکرین پر بس کی پوزیشن دکھائی جاتی ہے۔ سٹیشنوں پر صفائی کیلئے خاکروب تو ہیں ہی وردی پوش خواتین بھی جنگلوں اور شیشوں کی صفائی پر مامور ہیں۔ ٹکٹنگ کے بجائے ٹوکن سسٹم اچھوتا تجربہ ہے ۔ ہمارءدفتر کے ساتھی جناب کرم علی نے مفت سہولت ختم ہونے کے بعد سفر کیا ،ان کے مطابق اب پہلے جیسا رش نہیں ،ٹوکن لے کر سوار ہوتے ہیں ۔یہ ٹوکن اترتے وقت جمع کرانا ہوتا ہے ۔پلیٹ فارم پر ٹوکن ہولڈر ہی داخل ہو سکتا ہے۔ پلیٹ فارم پر مسافروں کی لائن بنانے اور ان کو بس میں اُس کی باری پر بٹھانے والاپولیس مین موجود ہے، بس کے اندر بھی ڈسپلن کے لئے گارڈ تعینات ہے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا ایک ماہ کیلئے مفت سفر کافیصلہ بہتر تھا۔ اس پر محض ایک ہفتہ عمل ہوا۔ رعایت اپنی” آئینی مدت “کے تین ہفتے قبل ختم کر کے 20 روپے ”فلیٹ ریٹ“ کرایہ مقرر کردیا گیا۔ یہ حکومت پنجاب کا بروقت اور بہترین فیصلہ ہے ۔اس کے بعد سے لوگ سکون سے سفر کر رہے ہیں۔
کراچی، لاہور، راولپنڈی جیسے شہروں میں ٹریفک کے مسائل واقعی بہت گھمبیر ہیں۔ بنکاک کبھی اس سے بھی سنگین مسائل سے دوچار تھا، آٹھ گھنٹے گاڑیاں پھنسی رہتیں۔ کراچی ، لاہور فیصل آباد جیسے شہروں میں حکومتی کاوش سے ٹریفک کے مسائل کم ضرور ہوئے ہیں ختم نہیں۔ لاہور میں پاکستان ریلویز کو شاہدرہ سے کوٹ لکھپت تک شٹل ٹرین چلانے کی ہدایت کی گئی ہے یہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا انتخابی و سیاسی فیصلہ ہی سہی اس سے لوگوں کو ریلیف ضرور ملے گا۔ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی چلو پوائنٹ سکورنگ کیلئے ہی سہی عوام کو کوئی سہولت تو دے رہی ہیں۔ شٹل ٹرین کی چند دنوں میں رواں دواں ہونے کی نوید سنائی گئی ہے۔ میٹرو بس اور شٹل ٹرین سے بھی ٹریفک کے مسائل ختم نہیں ہوں گے۔ وقتی طور پر کم ضرور ہو جائیں گے ان سے بیس 25سال کیلئے نجات پانے کیلئے بنکاک کو رول ماڈل بنانا ہو گا۔ آج وہاں کہیں سے بھی چند منٹ میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک بلا رکاوٹ رسائی ہو جاتی ہے۔ قبل ازیں رش کے باعث لوگوں کی فلائٹیں چھوٹ جاتیں اور ملازم دفاتر تک چھٹی کے وقت پہنچا کرتے تھے۔ تھائی حکومت نے ایلی ویٹر روڈ بنا دئیے۔ سڑک کے اوپر سڑک یعنی دو منزلہ سڑک اور اس کے اوپر ٹرین چلا دی۔ ایسا ہی ہمارے ہاں کراچی، لاہور جیسے شہروں میں ہو تو لوگ سکھ کا سانس لیں گے۔ یہ مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں اور اس کے سوا اب کوئی چارہ بھی نہیں ۔ اگر ہمیں وقت کا احساس اور اس کی قدر ہے تو ایسا کرنا پڑے گا۔

No comments:

Post a Comment