About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, April 25, 2013

انتخابات کا انعقاد یقینی


انتخابات کا انعقاد یقینی

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
14 فروری 2013 0
حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے میں چار ہفتے رہ گئے۔ ہنوز انتخابات کا شیڈول دیا گیا نہ نگران سیٹ اپ کے حوالے سے حکومت اپوزیشن اتفاق رائے سامنے آیا۔ انتخابات ہوں گے، نہیں ہوں گے، ہوئے تو کون جیتے گا؟ ایسے ابہام سے معمور سوالات زبان زدعام ہیں۔ جمہوریت کی کلی کومسلنے میں آمر حکمران اور جمہوری سیاستدان برابر کے شریک رہے ہیں۔ آج کی جمہوریت کو اگر پھول قرار دیا جائے تو اس کو چلانے والوں کو بھنورا قرار دئیے بنا کوئی چارہ نہیں، جو پھول کا رس چوس لیتا ہے ۔ جمہوریت میں بذاتِ خود کوئی خامی نہیں مگر جن کے یہ بس پڑی ہے انہوں نے اسکی شکل بگاڑ دی۔ ماضی میں ایسے معاملات ہوتے تو عام اور خواص فوج کی طرف دیکھا کرتے تھے۔ اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو جمہوریت کا حلیہ بگاڑنے والوں سے تنگ آ کر آمریت کو آوازیں دے رہے ہیں لیکن فوج اس طرف آنے پر تیار نہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ جنرل کیانی نے اپنے کام سے کام رکھا، فوج کا جو اصل کردار ہے اسکی طرف توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی، خود کو سیاست میں الجھایا نہیں۔ میمو گیٹ جیسی سُبکی بھی طوہاً و کرہاً پی گئے۔ میمو سکینڈل کے مرکزی کردار حسین حقانی پاکستان سے واپسی کا وعدہ کر کے گئے تھے اب صریح انکاری ہیں، کہتے ہیں ان کی جان کو خطرہ ہے۔ ان کو پہلے ایوان صدر، پھر وزیراعظم ہاﺅس نے پناہ دی۔ جنرل شجاع پاشا کیلئے ان کو کہیں سے بھی اُٹھوا لینا مشکل نہیں تھا لیکن ایسا نہیں ہُوا، اب تو وہ بھی ریٹائر ہو گئے۔ حقانی صاحب کیلئے ایوان صدر اور وزیراعظم ہاﺅس کے دروازے کبھی بند نہیں ہوئے پھر ان کو خطرہ کس سے ہے؟ ان کی ٹال مٹول سے میمو سکینڈل کی حقیقت کوئی راز نہیں رہ جاتی۔ جنرل کیانی اس سب کو دل میں تورکھا، دل پر نہیں لیا۔
دوسری رائے یہ ہے کہ ملک تاریکیوں کی پستی میں گر گیا۔ مہنگائی، بے روزگاری، اداروں کی بربادی، اقربا پروری، رشوت، لاقانونیت، بجلی و گیس کی قلت، نیز کونسا بحران ہے جس میں ملک و قوم مبتلا نہیں۔ ان تمام بحرانوں کی بنیاد محض کرپشن ہے، اوپر سے نیچے تک کرپشن، لاکھوں، کروڑوں، اربوں، کھربوں کی لوٹ مار، بدعنوانی اور بے ایمانی، جو جمہوریت کے نام پر ہو رہی ہے۔ ایسے میں فوج کی خاموشی معنی خیز ہے۔ دوسری رائے کے حامل افراد جنرل کیانی پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ پہلی رائے کے حامل ان کو پیشہ ور فوجی اور عسکریت میں ماہر، جغرافیائی سرحدوں کا محافظ اور مجاہدِ اعظم قرار دیتے ہیں دوسری رائے والے طعنہ زن رہتے ہیں، مذاق اڑاتے اور بُرے ناموں سے پکار کر دل کا اُبال نکالتے ہیں۔ کئی نے جنرل باجی کا نام دے رکھا ہے۔ ایک جرنیل نے محض نیشنل سکیورٹی کونسل کی بات کی تو وزیراعظم محمد نواز شریف اس پر دھاڑے، آنکھیں دکھائیں اور استعفیٰ طلب کر لیا، وہ خاموشی سے گھر چلے گئے تو ان کو جنرل زنانی کہا گیا۔ نواز شریف نے جب یہی کلیہ اپنے آخری آرمی چیف پر آزماتے ہوئے مونچھوں کو ان کے بغیر ہی تاﺅ دیا تو وہ جنرل طوفانی بن کر ان پر چڑھ دوڑے۔ ناموں سے یاد آیا ایک صوبائی وزیر کو استانی شاہ کہا جاتا تھا انہوں نے شاید اپنے حلقے کی ہرکُڑی کو استانی لگوا دیا تھا۔ ویسے ذوالفقار علی بھٹو اپنے آرمی چیف کو جنرل منکی کہا کرتے تھے۔ ایک بار اس فرمانبردار جرنیل نے بھٹو صاحب کا اچانک سامنا ہونے پر جلتا سگریٹ پتلون کی جیب میں ڈال لیا۔ بھٹو صاحب نے ان کی مونچھوں کی چلمن سے جھانکتی ہوئی دھویں کی لکیر دیکھی یا جیب سے، برملا فرمایا :
General you are burning whole army
اور پھر، اور پھر ---- موقع ملتے ہی اس جرنیل نے اُس جمہوریت کا پودا اکھاڑ دیا جسے کچھ لوگ شجر سایہ دار اور کچھ کھجور کے درخت سے تشبیہ دیا کرتے تھے جس کا بھوک میں پھل اور تپتی دھوپ میں سایہ دور ہوتا ہے۔ اس جرنیل کو کوڑے کھانے اور جیلوں کی صعوبتیں سہنے والے جیالے ان کی آنکھوں کے عدم توازن کے باعث اپنے دل کا غبار نکالنے کیلئے” کانا “ بھی کہا کرتے تھے۔ ان دنوں ایک لطیفہ مشہور ہوا ،جنرل صاحب نے کسی دوست سے پوچھا کہ کیا واقعی میری آنکھیں ہیما مالنی سے ملتی ہیں تو خوشامد سے دور دوست نے جواب دیا، جناب! یہ تو آپس میں بھی نہیں ملتیں۔ آمدم برسر مطلب، آج کی فوجی قیادت نے بھی شاید ایوب، ضیا اور مشرف جیسی اقتدار میں آنے کی خواہش کو پال رکھا ہو ۔اس آتش آرزو پرپانی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری یہ کہ کر پھیر دیتے ہیں کہ کوئی غیر آئینی اقدام برداشت نہیں کیا جائے گا اور پھر 3 نومبر کا وہ فیصلہ بھی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے ،جو جسٹس افتحار محمد چودھری کی سربراہی میں پانچ ججوں نے حالتِ محصوری میں دیا جس میں جنرل مشرف کی ایمرجنسی کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔اس فیصلے پر وقت کا پانسا پلٹتے ہی عمل بھی ہوا تھا۔
میرا جن احباب سے واسطہ پڑتا ہے ان میں سے کوئی بھی انتخابات کے انعقاد کو یقینی قرار نہیں دیتا۔ اینکر، تجزیہ نگار اور عام لوگ بھی انتخابات کے انعقاد سے مایوس نظر آتے ہیں لیکن مجھے انتخابات کا بروقت انعقاد دو اور دو چار کی طرح کلیئرکٹ نظر آتا ہے۔ کوئی حالات کی ناسازگاری کا جواز تلاش کرے یا پہلے احتساب، اصلاحات اور پھر انتخابات کا راگ الاپے، کسی کی دال نہیں گلنے والی۔ اس کا سب سے بڑا سبب چیف جسٹس کی تمام تر معاملات آئین اور قانون کے مطابق جاری رکھنے کی کمٹمنٹ ہے۔ ان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے طاہرالقادری کی الیکشن کمشن کے خلاف رٹ بغیر سنے بد نیتی پر مبنی قرار دے کر خارج کردی کہ اس کا مقصد انتخابات کو موخر کرانا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم بھی انتخابات کا بروقت انعقاد چاہتے اور اسکی تیاریوں کیلئے سرگرم ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دونوں حضرات مصلحت نام کی کسی چڑیا سے واقف نہیں ہیں۔ دونوں ہی نہ کسی بڑے سے بڑے ادارے اور بھاری بھرکم شخصیات سے خائف ہیں نہ ان کے” کانے“ یعنی ممنونِ احسان ہیں۔ ایک محترم جرنیل کو جنرل باجی کہنے والے ان کی مجبوری کو سمجھیں، ان کو اکسا کر وہ کیوں ان پر آرٹیکل6 لاگو کرانا چاہتے ہیں؟

No comments:

Post a Comment