About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, April 25, 2013

بھٹو کی شخصیت اور آج کی سیاست


بھٹو کی شخصیت اور آج کی سیاست

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
04 اپریل 2013 0
انتخابی مہم میں فی الحال وہ جوش و خروش، ہنگامہ خیزی، رنگ و نور کی برسات، قوس قزح کی جھلمل اور کہکشاﺅں کی جگمگ جگمگ ہنوز مفقود اور محدود ہے جو انتخابات کے موقع پراس کا خاصہ ہوا کرتی تھی۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف جیسی بڑی پارٹیاں ابھی تک اپنے امیدوار ہی فائنل نہیں کر سکیں۔ الیکشن کمشن دہری شہریت اور جعلی ڈگریوں کے حوالے سے بڑا سرگرم ہے تو سپریم کورٹ اس سے بھی آگے ۔ دیگر کئی حوالوں سے 62 اور 63 کا اطلاق بھی ہونا ہے۔ امیدواروں کے سر پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ کاغذات نامزدگی جو کبھی ڈھول کی تھاپ اور منچلوں کی دھمال کے دوران جمع کرائے جاتے تھے اب وہ مسحور کن سماں دیکھنے میں نہیں آیا۔ جو امیدوار گروپوں کی شکل میں گئے لگتا تھا ان کے ہاتھ میں کاغذات نامزدگی نہیں خلع ، طلاق اور عاق کے کاغذات ہیں کئی تو ایسے مایوس پائے گئے کہ ان کے قدم پیچھے کھنچے چلے جا رہے تھے۔ مایوسیوں کا مرقع بنے ہوئے تھے ۔کسر صرف کسی کے کلمہ شہادت! کہنے کی محسوس ہو رہی تھی۔ سیاستدان اس کو فرض کفایہ نہیں فرض عین سمجھتے ہیں جو ادا تو کرنا ہی تھا۔ پارٹی لیڈروں نے بھی ایک دفعہ تو کھل دے دی کہ کاغذات جمع کراﺅ ٹکٹوں کا فیصلہ بعد میں ہوتا رہے گا۔ جو دہری شہریت کے وار، جعلی ڈگری کی یلغار اور آرٹیکل 62,63 کی تلوار سے بچ گیا وہی راج دلارا ہو گا....
 راج کرے گا خالصہ باقی رہے نہ کو
بڑے لیڈروں اور کئی دانشوروں کو فکر ہے کہ الیکشن کمشن اور عدلیہ یونہی فعال رہے تو بڑے بڑوں کی گڈی بغیر گاٹی اور پیچے سے کٹ جائے گی۔ بہت کم لوگ الیکشن کے لئے کوالیفائی کر سکیں گے۔ قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد دس بارہ سو ہے ایسا بھی نہیں ہے کہ 18 کروڑ میں سے مطلوبہ معیار پر پورا اترنے والے نہ مل سکیں۔ قانون دکھاوے کے لئے نہیں، اصلاح اور عمل کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ قانون بن گیا تو مصلحت، کوئی راہ نکالنے یا لچک دکھانے کا سوال نہیں اٹھنا چاہئے۔ اگر ہم بطور قوم و معاشرہ اس قدر ہلکے کردار کے مالک ہو گئے ہیں کہ آرٹیکل 62 اور 63 عذاب نظر آ رہا ہے تو پھر سیاستدان اسے ختم کر دیتے اگر یہ موجود ہے تو پھر یہ نہ دیکھیں اس کی زد میں کون آتا ہے۔ آج کی سیاسی لاٹ میں یقیناً ذوالفقار علی بھٹو کے پائے کا ایک بھی سیاستدان نہیں ہے۔ وہ بہت بڑے سیاسی نباض اور Legend تھے۔ ان کے تذکرے کے بغیر پاکستان کی سیاسی اور جغرافیائی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ اتفاق سے آج بھٹو صاحب کی برسی بھی ہے۔ ابھی تک وہ پاکستان کی واحد شخصیت ہیں جن کو پسند کرنے والے ان سے ٹوٹ کر محبت اور ناپسند کرنے والے انتہائی حدوں تک نفرت کرتے ہیں۔ 88ءسے 93ءتک کے چار انتخابات بھٹو کی محبت اور نفرت کی بنیاد پر لڑے گئے۔ بھٹو کا ایک سے بڑھ کر ایک کارنامہ قوم و ملک پر احسان کے سائے کی صورت میں موجود ہے۔ جنگی قیدیوں کی بحفاظت واپسی،( اس دور میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ قیدی جرنیلوں اور افسروں پر جنگی جرائم کے تحت مقدمات چلانے کا غوغا تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں جرمن اور جاپانی جرنیلوں کو ایسے ہی جرائم میں پھانسیاں دی گئیں اور فائرنگ سکواڈ کے سامنے ڈالا گیا تھا) ایٹمی پروگرام کی بنیاد، اسلامی سربراہی کانفرنس، مسئلہ قادیانیت کا مستقل حل، جمعہ کی چھٹی ، بیرون ممالک روزگار کے مواقع، متفقہ آئین کی تشکیل ایسے کارنامے بھٹو صاحب کی سیاسی بصیرت اور بصارت پر دال ہیں لیکن بہت سے زعما اور اکابرین کے قریب ان کارہائے نمایاں پر بھٹوصاحب کا پاکستان کے دولخت ہونے میں کردار بھاری ہے۔ بھٹو صاحب ایسی جادوئی اور طلسماتی شخصیت پر قتل کا الزام لگا تو وہ قانون کی گرفت سے نہ بچ سکے۔ یوں تو پاکستان پیپلز پارٹی المیات کی داستان بن چکی ہے لیکن اس کا سب سے بڑا المیہ بھٹو صاحب کا تختہ دار پر کھینچا جانا تھا وہ دن اور آج کا دن پیپلز پارٹی المیوں کے گرداب سے نہیں نکل سکی۔ آج تو اس پارٹی نے اپنے اعمال کردار و افعال سے اپنے لئے بحران ، دلدل اور بھنور تخلیق کئے ہیں خفیہ ایجنسیاں کہتی ہیں کہ زرداری دور میں 10 ارب ڈالر کی کرپشن ہوئی۔ دوسری پارٹیاں بھی گنگا نہائی ہوئی نہیں ہیں۔ ایک طرف تو ہم کرپشن کے خاتمے کرپٹ عناصر، لوٹوں اور لٹیروں کو لٹکانے کی بات کرتے ہیں، قانون کی حکمرانی پر زور دیتے ہیں، دوسری طرف جب ایسے لوگوں پر شکنجہ تنگ ہوتا ہے تو ان سے محبت کے جذبات امڈ آتے ہیں۔ انتخابی اور الیکشن کمشن کے قوانین سخت نظر آتے ہیں۔ بے رحم سکروٹنی پر دل بھر آتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ قانون کا اطلاق ہو ،جعلی ڈگری والے، ٹیکس چور، ڈاکو، لٹیرے اور بے ایمان لوگ گرفت میں ضرور آئیں لیکن میری پسند کی پارٹی اور اس کے نامزد امیدواروں پر ہاتھ ہلکا رکھا جائے۔ ان کے ایک دو قتل بھی معاف کر دئیے جائیں۔ بھٹو صاحب قانون کی زد میں آ کر پھانسی چڑھ گئے حالانکہ اس کیس میں بڑے سقم تھے۔ صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق اس کیس میں دلچسپی لے رہے تھے ،جج دباﺅ میں تھے۔ مولوی مشتاق جانبداری کا شاہکار تھے، بہت سے لوگ بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل کہتے ہیں۔ اسے برحق قرار دینے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ایک مبہم کیس میں پھانسی کا واضح فیصلہ سامنے آتا ہے ایک انسانی جان چلی جاتی ہے۔ انتخابی قوانین میں تو کوئی ابہام نہیں اور کسی کے جان سے چلے جانے کا بھی احتمال بھی نہیں تو پھر اس قانون کے اطلاق پر کسی کو جزبز نہیں ہونا چاہئے۔ جعلی ڈگری والے دھڑا دھڑ گرفتار ہو رہے ہیں۔ ان کو قید و جرمانے کی سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔ اچھا ہے جس قدر بھی تطہیر ہو جائے۔
 کئی کی جعلی ڈگری ثابت ہوئی وہ نااہل قرار پائے پھر الیکشن لڑ کر کامیاب ہوئے۔ یہ سب کیسے ہوا؟ اس کے ذمہ دار الیکشن کمشن کے کارندے محفوظ کیوں ہیں؟۔ جعلی ڈگری کوئی آسمان سے امیدواروں کے آنگن میں نہیںجا ٹپکی۔ یہ کس نے جاری کی، کس نے بنائی ان اداروں کے افسر اور اہلکار گرفت سے کیوں باہر ہیں؟
الیکشن کمشن شفاف انتخابات کے لئے پرعزم نظر آتا ہے۔ جدھر اس کے عزم میں کوئی ضعف محسوس ہوتا ہے منصفِ اعلیٰ اس کی لگامیں کھینچ لیتے ہیں۔ الیکشن کمشن کی فعالیت شاباش لیکن اپنے بانکپن میں وہ کبھی اوور بھی دکھائی دیتا ہے۔ سیاستدانوں کی طرح بیورو کریسی بھی بڑی محتاط ہے ،اب الیکشن کمشن نے وفاقی و صوبائی بیوروکریسی کو تبدیل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ نجم سیٹھی ”میں ہی میں ہوں“ کے زعم میں زیادہ ہی مبتلا ہیں۔ فرماتے ہیں تھانیدار سے سیکرٹری تک سب کو بدلوں گا۔ ایسا اندھیر مچانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ بیوروکریسی بدلیں گے، نئے آنے والے بھی اس عمل کو دہرائیں گے۔ بیوروکریسی ریاست کی وفادار ہے، کسی میر منگ اور چمڑنگ کی نہیں۔ فعال و غیر جانبدار نگرانوں، الیکشن کمشن اور عدلیہ کے ہوتے ہوئے کوئی افسر انتخابی عمل پر اثرانداز نہیں ہو سکتا۔اس لئے تبادلوں کا طوفان اٹھانے کی ضرورت نہیں۔

No comments:

Post a Comment