کہانی ختم!
کمیشن تشکیل دینے کا مقصد تو سچ سامنے لانا ہی ہوتا ہے دل بہلانا نہیں۔ لیکن جن لوگوں نے یہ کمیشن تشکیل دیا ان کے ارادے شک و شبہ سے بالاتر کبھی نہیں رہے۔ وزیراعظم گیلانی اس کمیشن کی طرف سے امریکیوں کو ویزوں کے اجرا کے سوال پر اسمبلی میں بے قابو ہو گئے۔ ایک موقع پر فرمایا اسامہ کو ویزہ کس نے دیا؟ حسین حقانی ہی نہیں پوری دنیا یہ سوال پوچھ رہی ہے کہ اسامہ کا نیٹ ورک کس نے بنایا یا بننے دیا؟ امریکہ میں دس لاکھ پاکستانی کیا وہی کام کرتے ہیں جو 6 ہزار امریکی پاکستان آکر کرتے رہے؟اور شائد اب بھی کر رہے ہیں۔
امریکہ‘ انڈیا‘ برطانیہ اور اسرائیل سمیت کسی بھی ملک میں قومی سلامتی سے متعلق حکومت ،اپوزیشن میڈیااور ایجنسیاں یکساں موقف اپناتی ہیں۔حتیٰ کہ فلسطینیوں اور کشمیریوں پر مظالم پر بھی اسرائیل اور بھارتی حکومتیں،اپوزیشن، میڈیا و ایجنسیاں بے اصولی اور انسانیت سوزی میں بھی یکجا ہیں۔ ہمارے ہاں باوا آدم نرالا ہے جو سوال پوری دنیا پاکستان شرمندہ کرنے کےلئے پوچھ رہی ہے۔ہمارے میڈیا کوپاکستان کے دفاع میں اس کا بھر پور جواب دینا چاہئے لیکن اس میں موجود کچھ لوگ گیلانی اور حقانی کی زبان بولتے ہوئے یہ سوال دہرا رہے ہیں؛ اسامہ پاکستان کیسے آئے اور 9 سال کس کے تعاون سے چھپے رہے‘ ان کا روئے سخن جس طرف ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔چونکہ امریکہ بھی یہی سوال کرتا ہے اس لئے مراعاتی طبقہ اپنی اپنی لائن سیدھی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ حقانی جیسا ہی شخص پاکستان میں سیٹھی کے نام سے موجود ہے۔ ان کا سوال بھی یہی ہے ۔وہ انکشافات کے در کھول رہے ہیں۔ ”نواز شریف نے 99ءمیں طالبان حکومت کو سمجھانے اور اسامہ بن لادن سے جان چھڑانے پر زور دیا“۔ چونکہ شجاع پاشا موجودہ حکمرانوں کیلئے ناپسندیدہ ہیں اس لئے سیٹھی نے فرما دیا کہ ” ایک موقع پر پاشا ان کو اچھے اور جرا¿ت مند لگتے تھے لیکن میرے سچ بولنے پر مجھے ملک دشمن قرار دینے لگے اور 4 ماہ تک مجھے ملک سے باہر رہنا پڑا“۔ ایسے بیانات سے انہوں نے اپنا عہدہ مزید پکا کر لیا۔ شجاع پاشا نے ایبٹ آباد کمیشن کو امریکہ کا اصل چہرہ دکھانے کی کوشش کی۔ ”امریکہ بہت مغرور ہے اسکے تکبر کی کوئی مثال نہیں ملتی ایک امریکی انٹیلی جنس افسر نے کہا تھا پاکستانی اتنے سستے ہیں انہیں ایک ویزا، امریکہ کا دورہ یا ایک کھانے کے عوض خریدا جا سکتا ہے اور حتیٰ کہ کسی کو بھی“۔
یہ امریکہ کے مراعات یافتہ طبقات اور اپنے مستقبل کو روشن بنانے کےلئے امریکہ کو خوابوں کی سرزمین سمجھنے والوں کیلئے لمحہءفکریہ ہے۔ اس امریکی سے کیا گلہ جس نے کہا تھا کہ پیسے کے بدلے پاکستانی اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں۔
اسامہ کو پاکستان میں کس نے پناہ دی۔ ایبٹ آباد آپریشن کو زمینی مدد حاصل تھی یہ دو سوالات بڑے اہم ہیں۔ فوج اور آئی ایس آئی اسامہ کے ٹھکانے سے یقینالاعلم تھی۔ اس نے اسامہ کو لاکر بسایا ہوتا تو ایبٹ آباد آپریشن میں قطعی کامیاب نہ ہوتا۔ جہاں تک زمین مدد کا تعلق ہے کمیشن نے خود کہا ہے کہ آپریشن کو زمینی مدد حاصل تھی۔کس کی؟ اس حوالے سے کمیشن خاموش ہے تاہم صدر آصف علی زرداری کے آپریشن کے دوسرے روز اسکی حمایت میں واشنگٹن پوسٹ میں آرٹیکل کا شائع ہونا، وزیراعظم گیلانی کا اسے عظیم کامیابی قرار دینا ،لندن میں مقیم پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن یہ کہنا کہ آپریشن ہمارے تعاون سے ہوا ہے اور پھر اوباما کا تعاون پر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کرنا، تحقیق و تجسس کے بہت سے در کھول دیتا ہے۔ کمیشن کی رپورٹ کا یہ اقتباس تو زمینی امداد کے حوالے سے کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔
اسامہ بن لادن کی قیام گاہ سے دوچار گھر کے فاصلے پرایک مکان میں فوج کے حاضر سروس میجر، عامر عزیز رہائش پذیر تھے۔ کمیشن کی رپورٹ میں میجر صاحب کی گواہی بڑی اہم ہے میجر عامر نے تصدیق کی کہ یو ایس ایڈ نے پڑوس میں ایک دفتر کرائے پر لے رکھا تھا اور شکیل آفریدی کچھ خواتین کے ہمراہ وہاں آتا جاتا رہتا تھا۔ میجر صاحب کے بیان کے مطابق فوج کے ایک ریٹائرڈ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل سعید اقبال دو تین بار انکے گھر آئے۔ کرنل سعید کے پاس کم و بیش تین چار کروڑ روپے مالیت کی ایک انتہائی مہنگی گاڑی تھی۔ ایک بار وہ میجر عزیز کے گھر کی چھت پر بھی گیا اور اپنے انتہائی مہنگے کیمرے سے تصویریں بناتا رہا۔ کرنل سعید کا ایک بیٹا جنرل مشرف کا اے ڈی سی رہا۔ بعدازاں وہ مشرف کے پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر کام کرنے لگا۔ کرنل سعید اقبال نے ایک سیکورٹی ایجنسی بنا رکھی تھی جس میں آئی ایس آئی کے سابق اہلکار بھرتی کئے گئے تھے۔ واقعے کے فوراً بعد کرنل (ر) سعید اقبال نے اپنی جائیداد فروخت کرنے کی کوشش کی اور پھر ملک سے باہر چلا گیا۔
ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کا چوری ہو کر یا فروخت ہو کر الجزیرہ تک پہنچ جانا بھی ایک معمہ ہے۔ اس کو حل کرنا مشکل نہیں۔ جس اینکر صحافی یا وہ کوئی بھی ہے یہ خبر دی کہ 15 ہزار ڈالر میں رپورٹ بیچی گئی اس کو پولیس کے حوالے کر دیں وہ ایک ایک بات بتا دیگا۔ بہرحال ماضی کی طرح نظر آتا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے جزا و سزا کا عمل کبھی تکمیل تک نہیں پہنچے گا۔ ایبٹ آباد آپریشن اور کمیشن کی کہانی ختم سمجھیے۔ دوسری طرف توقیر صادق کیس کہیں رکتا دکھائی نہیں دیتا۔ پی پی پی کی آدھی قیادت اس کیس میں باقی، دوسرے کرپشن کیسوں میں فارغ ہو جائیگی۔ پی پی پی کی بطور پارٹی کہانی بھی ختم۔ سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس الطاف حسین کے پیچھے پڑ گئی ہے۔ منی لانڈرنگ کیس میں 14 سال اور قتل کی دھمکیاں دینے اور دہشت پھیلانے پر عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ عمران فاروق کیس اسکے علاوہ ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کا نعرہ ہے” منزل نہیں رہنما چاہئے “ متحدہ کے سر پر قائد نہ رہا تو جو اسکی واحد ضرورت ہے تو متحدہ کا وجود کس لئے؟ کیونکہ منزل تو کوئی ہے نہیں۔ قائد کے بغیر متحدہ کی کہانی بھی ختم اور مسلم لیگ نے ڈلیور نہ کیا اور عوام پر مہنگائی کا ستم ڈھاتی رہی تو اسکی کہانی بھی ختم سمجھیں تاہم اسکے پاس اپنی کہانی چلاتے رہنے کا ابھی وقت ہے۔ حالات اسکے ہاتھ میں ہیں۔ مشرف پر غداری‘ بےنظیر‘ بگٹی قتل کیس چل رہے ہیں۔ لال مسجد کیس بھی کھل گیا ہے معاملات منطقی انجام کو پہنچے تو مشرف کہانی بھی ختم۔
No comments:
Post a Comment