About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, July 31, 2013

توانائی بحران اور بھارت کا ایثار

توانائی بحران اور بھارت کا ایثار

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
13 جون 2013 0



گذشتہ حکومت کی نااہلی‘ بدنظمی‘ لالچ اور سب سے بڑھ کر کرپشن کے ہر سو بکھیرے ہوئے کانٹے موجودہ حکومت کو پلکوں سے چننا پڑیں گے۔ اس حکومت نے بھی اپنے پیشرو¶ں جیسا رویہ اپنائے رکھا تو ان کا انجام جو ہو گا سو ہو گا‘ اس میں ملک و قوم کی بھی بدقسمتی ہو گی۔ نواز لیگ کو اقتدار میں آئے ہوئے ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ ہوا ہے۔ اس دوران گو انکی مستقبل کی کارکردگی کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی لیکن بجٹ‘ اقتصادی سروے‘ قومی اقتصادی کونسل کے فیصلوں اور توانائی بحران سے نمٹنے کی ابتدائی کوششوں کو دیکھتے ہوئے بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ قومی اقتصادی کونسل کے فیصلوں میں بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے 5.2 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ قومی اقتصادی کونسل کے فیصلوں سے کالا باغ ڈیم کا ذکر غائب ہے۔
اسی انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کے جاری کردہ منشور میں بھی کالاباغ ڈیم کا ذکر نظر نہیںآتا۔ اقتصادی سروے میں بجلی مرحلہ وار 6 روپے یونٹ مہنگی کرنے کی نوید سنائی گئی ہے جبکہ بجلی بحران میں سرِمو کمی نہیں آئی۔
سپریم کورٹ نے پورے ملک اور ہر ادارے میں لوڈشیڈنگ کا یکساں اطلاق کرنے کا حکم دیا۔اس پر نگرانوں نے عمل کیا نہ آج کے مہر بانوں نے۔ عمل ہوجاتا ملک میں کہیں بھی 6 گھنٹے سے زیادہ لوڈشیڈنگ نہ ہوتی۔ اس حکم پر عمل کےلئے کونسے پاور پراجیکٹ درآمد کرنے کی ضرورت ہے؟
کل نواز شریف لوڈشیڈنگ کیخلاف‘ تلملاتے‘ شہباز شریف مظاہروں کی قیادت کرتے نظر آتے تھے ،آج انکی حکومت کیخلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ماضی کی طرح مظاہرین اسی جوش سے باہر نکلے جب پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی تھی۔ اب بہت کچھ بدل گیا ہے‘ مرکز اور پنجاب میں ن لیگ کا اقتدار اورپولیس راج ہے پولیس اب گھروں میں گھس کر خواتین کو بھی تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے ۔شیروں کی پولیس نے ابتدا شیر علی کے شہر سے کی ہے ۔
 عوام کو تسلی دینے کے بجائے بجلی کے وزیر عوام پر اپنے بیانات سے پر بجلی گرارہے ہیں، ایک سانس میںچھ سال میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی بات کرتے ہیں دوسرے ہی سانس میں ڈیڈ لائن دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ کل تمام سی این جی سٹیشن مالکان کو چور قرار دیا‘ جواب میں ایسوسی ایشن نے بھی نہلے پہ دہلا مارا تو آج فرما دیا‘ سی این جی سٹیشنز کو جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ گزشتہ روز شیر پنجاب سے بھارت سے آئے ہوئے وفد نے ملاقات کی جس میں بجلی و گیس کے شعبہ میں تعاون پر اتفاق کیا گیا۔ بھارت پاکستان کو امرتسر سے لاہور تک ٹرانسمیشن لائن اور جلو تک گیس پائپ لائن بچھا کر بجلی و گیس فراہم کریگا۔ بھارت پاکستان پر کتنا فریفتہ ہے۔۔۔ ؟
اسکے ہاں بھی ہماری طرح بجلی کی قلت کی کےخلاف مظاہرے ہوتے ہیں۔ گیس وہ ایران اور ترکمانستان سے پاکستان کے ذریعے درآمد کرنے کے معاہدے کر رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر قبضہ، 7 لاکھ سفاک سپاہ کے ذریعے کشمیریوں کے خون سے ہولی‘ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں‘ لائن آف کنٹرول پر گولہ باری اور دوسری طرف اپنا پیٹ کاٹ کر گیس و بجلی کی فراہمی کی صورت میں ایثار بے شمار!چہ معنی؟ کاروباری شیروں کی نظر سے نہیں ایک پاکستانی کے دل کی دھڑکن کو سنیں تو یقیناً یہ ضرب المثل سنائی دیگی ”بنئے کا بیٹا کچھ دیکھ کر گرتا ہے“۔
 بھارت سے بجلی اور گیس کی درآمد کے معاہدے مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں پائے تکمیل تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ بھارت کے ساتھ پائیدار تعلقات‘ تجارت اور دوستی بھی اس مسئلہ کی موجودگی میں جاری نہیں رہ سکتی۔ تجارت ہو رہی ہے‘ دوستی بھی جاری ہے لیکن اسکی حقیقت کچے دھاگے سے زیادہ نہیں‘ قائد کے جعلی جانشینوں کے بجائے اصل پیروکار جب بھی اقتدار میں آئے وہ کشمیر کو وہی حیثیت دلائیں جو قائداعظم چاہتے تھے۔ قائد کی رحلت کے بعد آج تک کے حکمرانوں نے ایسا کیا ہوتا تو کشمیر تنازع طے ہو چکا ہوتا۔
معذرت سے کہنا پڑتا ہے کہ نئے حکمرانوں کی طرف سے بجلی بحران سے فوری نجات پانے کی کمٹمنٹ ظاہر نہیں ہو رہی۔ حالانکہ بجلی بحران پی پی پی کی حکومت کو لے ڈوبا اور ن لیگ کی کامیابی کا باعث بنا۔ یہ شاید آخری سال میں عوام کو مطمئن کرنے کیلئے شعبدہ بازی کی پلاننگ کر رہے ہوں۔
بجلی کا بحران عام آدمی کیلئے کسی طوفان اور عفریت سے کم نہیں لیکن حکمرانوں کی طرف سے اس کو ہمالہ سر کر لینے کے مترادف باور کرانا نیک نیتی نہیں ہے۔ ضرورت سے بھی زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اسکی راہ میں رکاوٹ سابق اور موجودہ حکمرانوں کے قریب 5 سو ارب روپے کے گردشی قرضے ہیں جن پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دو ماہ میں قابو پانے کا یقین دلایا ہے۔ ویسے بھی شیر پنجاب کے مطابق 207 ارب روپے کا خسارہ بجلی چوری کی وجہ سے ہے۔ اس پر قابو نہ پانا نااہلی ہو گی۔
 426 ارب روپے کے وفاقی اور صوبائی حکومتیں و ادارے نادہندہ ہیں۔ یہ ریکوری کر لیں تو گردشی قرضے ختم اور ہر پاور پلانٹ کا پہیہ چلنے لگے گا۔ پھر 6 سال کا چکمہ کیوں؟ یہ تاخیری حربے اور ہتھکنڈے کہیں یو پی ایس اور جنریٹر مافیا کی خدمات کا شاخسانہ تو نہیں؟

No comments:

Post a Comment