غلاف کعبہ برائے فروخت
میرے سامنے اتوار 16 جون 2013ءکو راولپنڈی سے شائع ہونے والے ایک بڑے اخبار کا صفحہ 4 کھلا ہے۔ اس پر چھوٹے سے اشتہار کی موٹے الفاظ میں ہیڈ لائن ”غلاف کعبہ“ توجہ اپنی طرف مبذول کر لیتی ہے۔ اشتہار کی پوری عبارت یوں ہے۔ غلافِ کعبہ کے دو پیس تقریباً 4 کلو سونے کی تار سے بنے، ”ضرورتاً برائے فروخت“ ہدیہ 4 کروڑ۔۔۔ ان مختصر الفاظ پر مشتمل اشتہار کے آخر میں jghilaf@gmail.com ای میل ایڈریس دیا گیا ہے۔ یہ اشتہار لاہور ایڈیشن کے صفحہ 17 پر شائع ہوا ہے۔ میں نے اشتہار میں دئیے گئے ایڈریس پر مزید تفصیلات کے لئے میل کی تو مختصر سا جواب دیا گیا ”یہ کعبہ شریف کے اوپری، دائیں کونے کے دو حصے ہیں“ اس میل کے جواب میں، میں نے درخواست کی کہ آپ کے پاس یہ متبرک ٹکڑے کیسے آئے اور ان کو فروخت کرنے کی کیا مجبوری ہے؟ اس کا جواب کالم لکھنے تک موصول نہیں ہوا اور ان صاحب کیلئے جواب دینا کوئی ضروری اور مجبوری بھی نہیں ہے۔ ہر مسلمان کی آنکھوں کی ٹھنڈک خانہ کعبہ کے غلاف کی تاریخ اور اس کی تیاری پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ ”اخبار مکہ“ کے مصنف کے مطابق ۔۔۔ کعبة اللہ پر غلاف چڑھانے کی رسم بہت پرانی ہے خانہ کعبہ پر سب سے پہلے غلاف حضرت اسماعیل نے چڑھایا تھا۔ ظہو ر اسلام سے قبل بھی حضور اکرمﷺ کا خاندان مکہ مکرمہ میں بہت عزت واحترام سے دیکھا جاتا تھا‘ آپﷺکے جدامجد بھی تمام قبائل میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے‘ انہوں نے بڑی سمجھداری اور فراست سے کام لیتے ہوئے غلاف کعبہ کی تیاری کےلئے خصوصی بیت المال قائم کیا تاکہ تمام قبائل اپنی حیثیت کے مطابق غلاف کعبہ کی تیاری میں حصہ لے سکیں۔ فتح مکہ کی خوشی پر حضور اکرمﷺ نے یمن کا تیار کیا ہوا‘ سیاہ رنگ کا غلاف اسلامی تاریخ میں پہلی بار چڑھانے کا حکم دیا۔ آپﷺ کے عہد میں دس محرم کو نیا غلاف چڑھایا جاتا تھا‘ بعد میں یہ غلاف عیدالفطر کو اور دوسرا دس محرم کو چڑھایا جانے لگا۔ بعدازاں حج کے موقع پر غلاف کعبہ چڑھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ 9اور 10ہجری میں بھی آپﷺ نے حجتہ الوداع فرمایا تو غلاف چڑھایا گیا۔ اس زمانے سے آج تک ملت اسلامیہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ غلاف خوبصورت اور قیمتی کپڑے سے بنا کر اس پر چڑھاتے ہیں۔ حضور اکرمﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے دور میں مصری کپڑے کا قباطی غلاف چڑھایا کرتے تھے۔ سیدنا عمر فاروق پہلے پرانا غلاف اتار کر زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے لیکن بعد میں اسکے ٹکڑے حجاج اور غربا میں تقسیم کر دیئے جاتے۔ آج کل یہ ٹکڑے اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور اہم شخصیات کو تحفہ میں دیئے جاتے ہیں۔حضرت عثمان غنی اسلام کی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے پرانے غلاف پر غلاف چڑھایا اور سال میں دو مرتبہ کعبہ پر غلاف چڑھانے کی رسم ڈالی۔ بنو عباس نے اپنے 500 سالہ دور حکومت میں ہر سال بغداد سے غلاف بنوا کر مکہ مکرمہ روانہ کئے۔ عباسیوں نے اپنے دور حکومت میں غلاف کعبہ کی بنوائی میں خصوصی دلچسپی لی اور اسکو انتہائی خوبصورت بنایا۔ خلیفہ ہارون الرشید نے سال میں 2 مرتبہ اور مامون الرشید نے سال میں تین مرتبہ غلاف کعبہ کو تبدیل کرنے کا اہتما م کیا۔ مامون الرشید نے سفید رنگ کا غلاف چڑھایا تھا‘ خلیفہ الناصر عباس نے پہلے سبز رنگ کا غلاف بنوایا لیکن پھر اس نے سیاہ ریشم سے تیار کروایا‘ اسکے دور سے آج تک غلاف کعبہ کا رنگ سیاہ ہی چلا آرہا ہے البتہ اوپر زری کا کام ہوتا ہے۔140ھ سے غلاف پر لکھائی شروع ہوگئی جو آج تک جاری ہے ۔ 761 ہجری میں والی مصر سلطان حسن نے پہلی مرتبہ کعبہ کے بارے میں آیات قرآنی کو زری سے کاڑھنے کا حکم دیا۔ 810 ہجری میں غلاف کعبہ بڑے خوبصورت انداز میں جاذب نظر بنایا جانے لگا‘ جیسا کہ آج بھی نظر آتا ہے۔ محمود غزنوی نے ایک مرتبہ زرد رنگ کا غلاف بھیجا۔ سلمان دوم کے عہد حکومت تک غلاف مصر سے جاتا تھا‘ جب اس رسم میں جاہلانہ باتیں شامل کرلی گئیں تو سعودیہ عرب سے مصریوں کے اختلافات بڑھ گئے اور مصریوں کا تیار کردہ غلاف لینے سے انکار کر دیا گیا۔ شریف حسین والی مکہ کے تعلقات مصریوں سے 1923ء میں خراب ہوئے چنانچہ مصری حکومت نے غلاف جدہ سے واپس منگوا لئے۔1927ءمیں شاہ عبد العزیز السعود نے وزیر مال عبداللہ سلیمان المدن اور اپنے فرزند شہزادہ فیصل کو حکم دیا کہ وہ غلاف کعبہ کی تیاری کےلئے جلدازجلد ایک کارخانہ قائم کریں اور 1346 ہجری کےلئے غلاف کی تیاری شروع کر دیں چنانچہ انہوں نے فوری طور پر ایک کارخانہ قائم کرکے ہندوستانی کاریگروں کی نگرانی میں غلاف کی تیاری شروع کر دی اور یوں سعودیہ کے کارخانے میں تیار ہونیوالا یہ پہلا غلاف کعبہ تھا۔ مکہ میں قائم ہونیوالی اس فیکٹری کا نام ”دارالکسوہ“ ہے۔1962ء میں غلاف کی تیاری کی سعادت پاکستان کے حصے میں بھی آئی۔ (کہا جاتا ہے کہ فیصل آباد کے صنعتکاروں کی طرف سے بنائے گئے غلاف کا رنگ اتر گیا تھا) غلاف میں 150کلو سونے اور چاندی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں، اس میں خانہ کعبہ کے غلاف کے ٹکڑے کروڑوں میں فروخت کرنے والا لوگوں کی لعن طعن سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس کا ان صاحب کو ادراک ہے تبھی تو انہوں اشتہار میں اپنا فون نمبر اور ایڈریس نہیں دیا۔ انکی نیت کے بارے میں مکمل تفصیلات کے سامنے آنے تک کوئی حتمی رائے قائم کرنا مناسب نہیں۔ یہ صاحب تو غلافِ کعبہ کے دو ٹکڑے ہی فروخت کر رہے ہیں‘ بلاشبہ دینِ حنیف کی حفاظت کیلئے جہاں کفن بردوشوں کی کمی نہیں‘ وہیں وطن فروشوں، ملت فروشوں اور مزیدبراں قلم فروشوں کی بھی بہتات نظر آتی ہے۔ آباءتو بت شکن تھے‘ ملت ِ اسلامیہ نے اپنے اندر کعبہ شکن بھی دیکھے۔ عبداللہ بن زبیر نے خدا کے گھر میں پناہ لی تو حجاج بن یوسف نے خانہ کعبہ پر سنگ باری کرادی۔ حج کے ایام میں غلاف کعبہ کو آدھا اوپر اٹھا دیا جاتا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ بعض سادہ لوح لوگ غلاف سے لپٹ کر دھاگہ کاٹ کر تبرک کے طور پرمحفوظ کر لیتے تھے بعض بخشش کےلئے میت کی آنکھوں میں ڈالتے تھے۔ ایک طرف غلاف کعبہ سے عقیدت کی یہ انتہا ہے تو دوسری طرف آج ملت اسلامیہ کے ایک فرزند نے اسکے غلاف کی قیمت لگا دی ہے۔
No comments:
Post a Comment