صدمات پر کڑھنے‘ غیروں کی بارات پر اچھلنے والی قوم
ملالہ پر حملے کا پوری دنیا میں عوامی اور حکمرانی‘ دونوں سطحوں پر شدید ردعمل ہوا۔ حملے کی کسی نے حمایت نہیں کی۔ جن کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں وہ بھی طالبان کی طرح نہیں بولے۔ ان کا موقف ہے کہ یہ کارروائی ان قوتوں کی پلاننگ‘ منصوبہ بندی یا سازش ہے جو شمالی وزیرستان میں آپریشن کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس دوسرے حلقے کی رائے ہے کہ جب طالبان خود ذمہ داری قبول کر رہے تو پھر کسی سازش کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب رحمان ملک نے طالبان ترجمان احسان اللہ کے سر کی قیمت بھی مقرر کر دی ہے اس کے ساتھ ہی ملالہ کے لئے تمغہ شجاعت کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ طالبان ترجمان میڈیا سے گھنٹوں گفتگو کرتے ہیں۔ جبکہ اسامہ کا ٹھکانہ صرف ایک خفیہ چند لمحاتی کال سے ڈھونڈ نکالا گیا تھا۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ طالبان کی ایک ہی تنظیم ہے یا یہ گروپوں میں بٹے ہیں۔ ان کا افغان طالبان سے بھی کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ کرنل امام اور خالد خواجہ تو طالبان کے بڑے حامی اور ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ وہ دونوں طالبان کے کس گروپ کے ہاتھوں مار دئیے گئے؟ ملالہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے طالبان کی اب ایک اور وضاحت سامنے آئی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ملالہ کو تعلیم کی وجہ سے نشانہ نہیں بنایا گیا۔ وہ امریکہ کی حامی اور طالبان کی مخالف تھی۔ وہ امریکہ کے لئے جاسوسی کرتی تھی۔ جنگ میں دشمن کا ساتھ دینے والوں کو ہلاک کرنا جائز ہے۔ ملالہ پر حملے کی مذمت بلاشبہ ہر کسی نے کی لیکن اس کے ساتھ میڈیا میں اس واقعہ کی اس سطح پر پذیرائی اور کچھ حلقوں کی طرف سے پرجوش حمایت پر یہ سوال بھی اٹھایا جاتا رہا ہے کہ کیا لال مسجد اور دہشت گردی کی جنگ میں مرنے والی اور ملالہ کے ساتھ زخمی ہونے والی بچیاں قوم کی بیٹیاں نہیں؟ عافیہ صدیقی کے لئے ایسے جذبات کیوں نہیں؟ اب شاید ملالہ کو تمغہ ملنے پر بھی تنقید ہو۔ جہاں ہمیں حقائق سے چشم پوشی نہیںق کرنی چاہئے۔ ردعمل‘ حمایت‘ مخالفت یا مخاصمت فرد یا شخص کی اہمیت کے مطابق ہوتی ہے۔ بے نظیر بھٹو قتل ہوئیں۔ کتنے پاکستانی ہیں جو محترمہ کے ساتھ اسی جگہ جاں بحق ہونے والوں کے نام جانتے ہیں؟ چلئے کسی ایک کا نام ہی بتا دیجئے؟ سوائے ان کے لواحقین عزیزوں دوستوں یا پارٹی والوں کے کسی کو بھی معلوم نہیں۔ اجتماعی قتل جیسے روزانہ پرتشدد واقعات ہوتے ہیں لیکن لاہور میں ایک سیاسی خاندان کی بیٹی کے گارڈوں کے بیکری ملازم پر تشدد کی طرح کتنے واقعات اچھلتے ہیں؟ ہر لڑکی ملالہ نہیں ہو سکتی۔ اسے برطانیہ لے جانے پر بھی لے دے ہو رہی ہے۔ اگر عوامی نمائندے سرکاری خرچ پر علاج کے لئے بیرون ممالک جا سکتے ہیں تو ملالہ کے جانے پر بھی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ اعلان کیا گیا ہے کہ ملالہ کا علاج سرکاری خرچے پر ہو گا۔ اس سے قبل صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری اور شہباز پاکستان میاں محمد شہباز شریف ملالہ کے علاج کے اخراجات اپنی جیب سے اٹھانے کا الگ الگ اعلان فرما چکے ہیں برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال سے بل آنے پر حکومت یہ بل دونوں صاحبان کو بھجوا دے۔ ایک کے پیسے ہسپتال کو بھجوا دئیے جائیں دوسرے کی رقم سے دہشت گردی کی جنگ اور لال مسجد میں شہید ہونے والی بچیوں کی اسلام آباد میں یادگار تعمیر کر دی جائے۔ ملک میں دہشت گردی‘ مہنگائی اور لاقانونیت جیسی خرابات کی بھرمار سے قوم صدمات سے دوچار تھی کہ سری لنکا میں ہونے والے ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں پاکستان نے بھارت کو مات کرکے گویا سومنات کا مندر گرا لیا جس سے قوم کے چہرے کھل اٹھے۔ تمام دکھ درد دور ہوئے اور جشن منایا گیا۔ چند ماہ قبل راجیش کھنہ کا انتقال ہوا تو کیبلائی ہوئی قوم افسردہ تھی۔ اب لوگوں کے چہرے سیف علی اور کرینہ کپور کی شادی پر کھل اٹھے ہیں۔ ملالہ کا صدمہ کافور ہو رہا ہے۔ سنا تھا سیف علی خان نے شادی کے لئے کرینہ کپور کے مسلمان ہونے کی شرط رکھی تھی۔ بندھن کے بعد دونوں کی جو تصویر سامنے آئی اس میں پٹودی ریاست کے نواب بالکونی میں کھڑے ہو کر اپنے پرستاروں کو ہاتھ باندھ کر نمستے کر رہے ہیں۔ 32 سالہ ناری نے 42 سالہ دو بچوں کے باپ سے شادی کے لئے بھی کوئی شرط نہ رکھی ہوئی ہو؟ اور سنئے علمائے کرام نے بغیر نکاح کے شادی کو غیر شرعی قرار دیا ہے۔ بہرحال اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہندو نام اختیار کرکے بھارتی فلموں میں کامیابی کے پھریرے لہرانے والے دلیپ کمار اور راج کمار جیسے اداکار ہماری آنکھوں کا تارا ہیں۔ سیف علی نے نیا دھرم اختیار کر لیا تو نو پرابلم! نام تو مسلمانوں جیسا ہے۔ صدمات پر کڑھنا اور غیروں کی بارات پر خوشی سے ا ±ڑنا کودنا‘ ناچنا اور اچھلنا کوئی ہم سے سیکھے۔ چلئے اگلے وار تک مسکراہٹیں تو ہمارے لبوں پر آئیں۔
No comments:
Post a Comment