توند بے سبب نہیں
اکتوبر4, 2012
پروردگار نے کائنات میں کوئی بھی چیز بے سبب پیدا نہیں کی۔ حتیٰ کہ سانپ بچھو جیسے زہریلے چرند و پرند کی کوئی نہ کوئی وجہ تخلیق ضرور ہے۔ اس سے اگر انسان آگاہ نہیں تو الگ بات ہے۔ جن لوگوں کو کسی جسمانی انگ سے معذوری کا سامنا ہوتا ہے ۔ اللہ ان کو کچھ نہ کچھ صحیح و سالم انسانوں سے بڑھ کر عطا کر دیتا ہے۔ ان کی ایک رگ یا حس زائد ہونے کا مقولہ بھی شاید اسی سبب ایجاد ہوا ۔
پولیس پورے پاکستان کی ایک جیسی ہے۔ کردار‘ یلغار‘ مار اور ڈکار‘ ہر حوالے سے ۔ اس کے اہلکاروں اور افسروں کی بڑھی ہوئیں اور بڑھائی جانے والی توندیں بھی یکساں ہیں لیکن پنجاب پولیس کے توندئیے کچھ عرصہ زیر عتاب رہے ہیں۔ توند کے باعث ان کو ڈیوٹیوں سے ہٹا دیا گیا تھا اب پھر واپس ”بٹھا “ دیا گیا ہے۔ شاید حکام پر توند کے فضائل عیاں ہو گئے ہیں۔ ایک تھانیدار اپنی توند کو سمیٹ کر ملزم کی پشت پر چوکڑی جما کر بیٹھتا تو وہ ناکردہ جرائم بھی قبول کرتا چلا جاتا تھا۔ قبولیت کے دوران ہی مجرم کی دھوتی یا شلوار گیلی ہو جاتی اور کبھی لتھڑ بھی جاتی تھی ۔ یہ وہی تھانیدار ہے جو ایک گا¶ں میں نمبردار کے ڈیرے پر بیٹھا تھا کہ مسلم شیخوں کا مُنڈا وہاں چلا آیا۔ اس نے تھانیدار کو سلام تو ضرور کیا ‘ ساتھ ہی سادگی میں پیٹ کی طرف حیرانگی سے دیکھتے ہوئے کہہ دیا ”یہ ڈھڈ ہے یا ڈھول“۔ تھانیدار نے گرج کر کہا ”اوئے گدھے کیا بکواس کی ہے“۔ بھولا نوجوان سمجھا شاید تھانیدار کے پلے اس کی بات نہیں پڑی ‘ اس نے اپنی طرف سے آسان لفظوں میں کہا ”جناب یہ توند ہے یا تندور ہے“۔ تھانیدار نے طیش میں آکر حوالدار سے کہا ”اس الو کے پٹھے کو ہتھکڑی لگا لو“.... یہ بات نوجوان کے باپ تک پہنچی تو فوراً ڈیرے پر چلا آیا ۔بیٹے سے پوچھا ”اوئے تو نے تھانیدار صاحب کو کیا کہا ہے؟“ بیٹے نے پیٹ معلی کے بارے میں جو کہا تھا دہرا دیا‘ باپ نے اپنی دانست میں معاملہ پر مٹی پا¶ فارمولا آزمانے کی کوشش کرتے ہوئے گرجدار آواز میں کہا” اوئے تو نے ڈِھڈ پر بَول کرنا تھا۔“ اس پر تھانیدار مزید تپا ۔اسے بھی ہتھکڑی لگوا ئی اور دونوں کو تھانے لے گیا۔ نوجوان کی دادی کو خبر ہوئی تو اس نے بیٹے اور پوتے کو چھڑانے کا قصد کیا۔ وہ پولیس کی ”دام کے بغیر کام حرام“ کی جبلت سے واقف تھی۔مائی کے پاس جو بھی جمع پونجی تھی ‘ اس سے دو کلو چھوہارے لئے اور پیدل تھانے پہنچ گئی۔ تھانیدار کی خدمت میں چھوہارے پیش کئے جو دو بھانت کے تھے۔اصل ‘ کڑک اور خشک ۔دوسرے نرم ‘پولے اور گیلے۔مائی کے مدعا بیان کرنے کے دوران تھانیدار چھوہارے کھا نے میں جُت گیا۔ تھانیدار بڑے مزے سے نرم نرم‘ گیلے گیلے اور پولے پولے چن چن کر کھا رہا تھا۔ اماں جی سے پوچھا ”یہ دو طرح کے کیوں ہیں؟۔“ بی اماں کا جواب تھا۔ ” پتر! 5 چھ کوس پیدل چل کر آئی ہوں منہ میں دانت نہیں ہیں‘ ایک ایک چھوہارا منہ میں ڈال کر بھنبھوڑنے کی کوشش کرتی رہی جو دس پندرہ منٹ منہ میں رہا وہ نرم پولا اور گیلا ہو گیا“۔ اس پر تھانیدار نے اپنی توند پر دوہتھڑ مارتے اور سر پیٹتے ہوئے توہینِ توند کے مجرموں اور مائی کوفوراً دفعان کرنے کا حکم صادر فرما دیا ۔پورے ملک میں احتجاج اور مظاہرے روزمرہ کا معمول ہیں۔ اب تو ان میں تشدد کا عنصر بھی غالب آگیا ہے۔ لوگ امریکہ کے خلاف مظاہرے کر رہے ہوں یا اسرائیل اور بھارت کے خلاف‘ خواہ ملازمین اپنی ترقیوں اور تنخواہوں میں اضافے کے لئے سڑکوں پر ہوں ان کے سامنے امریکہ ہوتا ہے نہ بھارت اور اسرائیل اور نہ ہی ان کو مسائل و مصائب کی دلدل میں دھکیلنے والے حکام‘ ایسے مظاہرین اپنا غصہ مظاہروں کو پرامن بنانے کے لئے تعینات پولیس پر نکالتے ہیں۔ کہیں مظاہرین پولیس کے آگے دوڑ لگاتے ہیں تو کہیں پولیس ڈنڈہ بردار جلوس کے آگے سر پٹ دوڑتی دکھائی دیتی ہے ۔ اگر پولیس جم اور ڈٹ جائے تو یقین مانیئے مظاہرین کو ایک قدم آگے بڑھانے کی ہمت نہ ہو۔تاج برطانیہ کی ہندوستان میں عملداری کے دوران کمی ذاتوںکو فوج میں بھرتی نہیں کیا جاتا تھا۔ آج ایسی کوئی قید نہیں بلکہ ہر منڈی کی جنس پر در وا ہیں۔ایک نئے انگریز کپتان نے اس کی وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ یہ تھُڑ دلے ہیں۔ کپتان نے کہا ”ایسا نہیں ہو سکتا! یقیناً ان میں سے کام کے بندے بھی نکل آئیں گے“۔ اس نے ایسے قبیل کے نو جوانوںکو اکٹھا کیا اور ان کو بتائے بغیر ایک دھماکہ کرا دیا۔ جس پر میدان خالی ہوگیا۔سب بھاگ گئے۔ تاہم ایک اپنی جگہ پر ثابت قدم تھا۔ کپتان نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا” ویل ڈن‘ شیر کا بچہ نکلا‘ بہادر‘ نڈر‘ ہمت و جرا¿ت والا‘ جب اسے تھپکی دی تو قدموں میں آگرا‘ وہ مر چکا تھا۔
توند والے مظاہروں کو کنٹرول کرنے میں بڑے کار آمد ہو سکتے ہیں۔ مظاہروں کو کنٹرول کرنے کے لئے ان کو جہاں ڈھیر کر دیا ۔ وہیں سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوں گے مظاہرین کے پیچھے بھاگنے سے عاجز اور جان بچا کر بھاگنے سے قاصر ۔ وہ اپنی جگہ پر جمے رہنے پر مجبور اور ہلنے جلنے سے معذور‘دیکھنے والوں کے گمان میں ڈٹے ہوئے ۔ اس سے مفت میں نیک نامی پولیس کے کھاتے میں....! پولیس حکام اس مخلوق کو ضائع نہ کریں۔ بلکہ ان کی تعداد ضرورت کے مطابق بڑھانے کی کوشش کی جائے مشتعل مظاہرین کو ڈرانے اور ان پر قابو پانے میں آسانی رہے گی۔ ایسے اہلکاروں پر مشتمل توند سکواڈ قائم کر دیا جائے تو مزید بہتر ہے۔ آگے ان کی مرضی جو اس ڈیوٹی کو جزا سمجھیں وہ یہی کرتے رہیں جو سزا جانیں وہ توند گھٹا کر من مرضی کی ڈیوٹی لے کر زندگی کی بیوٹی سے لطف اندوز ہوں۔
No comments:
Post a Comment