اتوار ,30 ستمبر ,2012
سازش؟.... پس آئینہ
شرف زرداری دور کے وزرائے خارجہ کی کارکردگی قوم کے سامنے ہے۔ ان وزرائے خارجہ میں آج کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نسبتاً باصلاحیت ہیں۔ حکومتی موقف کو ساتھ لیکر چلنا کابینہ کے ہر رکن کی ذمہ داری ہے۔ حنا کو بھی ایسا کرنا پڑتا ہے اس کے ساتھ ساتھ بحیثیت وزیر خارجہ ان کے بیانات عموماً عوامی امنگوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔ حنا کو شاہ محمود قریشی کی جگہ وزیر خارجہ بنایا گیا تو اس وقت کی میڈیا رپورٹس میں کہاجارہا تھا کہ حنا کی تعیناتی میں فوج کی مشاورت یا حمایت شامل ہے۔آج حنا ربانی کھر کو گھٹیا سکینڈلز میں گھسیٹا جارہا ہے۔ایک بنگلہ دیشی اخبار بلٹز نے چند روز قبل حنا ربانی کھر کے بلاول بھٹو زرداری سے معاشقے کی ایسی خبر شائع کی جس کے مندرجات خود اس کے من گھڑت ہونے کی چغلی کھاتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے:”پاکستانی خاتون وزیر خارجہ اور بلاول زرداری بھاگ کرجلد ہی سوئٹزر لینڈ میں شادی کرنےوالے ہیں۔ یورپ کی ایک بہت ہی اعلیٰ خفیہ ادارے نے اپنی مصدقہ رپورٹ میں پاکستان کی کم عمر خوبرو وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور پاکستانی صدر زرداری کے اکلوتے نوجوان بیٹے بلاول کے درمیان پلنے والے رومانس کا تفصیل اور ویڈیوز کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ بلاول بھٹو پاکستان کے سب سے بڑی پارٹی پی پی پی کے صدر بھی ہیں اور مقتولہ بے نظیر بھٹو کے اکلوتے بیٹے اور سوئٹزر لینڈ میں چھپائی گئی ان کی اربوں ڈالر کی خفیہ دولت کے قانونی وارث بھی ہیں۔ بلاول زرداری نے جب سے اپنے والد اور پاکستانی صدر زرداری کو یہ فیصلہ سنایا ہے کہ وہ حنا ربانی کھر سے شادی کرنے جا رہے ہیں تب سے وہ شاک میں ہیں اور باپ بیٹے کے درمیان سرد جنگ عروج پر پہنچ چکی ہے۔ عین اسی دوران حنا ربانی کھر نے اپنے ارب پتی شوہر فیروز گلزار کو بتا دیا ہے کہ وہ بلاول سے عشق کرتی ہیں اور ان سے شادی کرنا چاہ رہی ہیں اس لئے وہ انہیں طلاق دےدیں۔ حنا ربانی کھر کی اس شوہر سے دو بیٹیاں ہیں جن کے نام انایا اور دینا ہیں۔ حنا ربانی کھر 19نومبر 1977ءکو پیدا ہوئی تھیں اور انکے والد مشہور اور متنازعہ سیاستدان ”غلام مصطفی کھر“ ہیں۔ یہ بھی اپنی بیویوں کےلئے مشہور رہے ہیں اور ان کی رومانوی داستانیں دلچسپی سے سنائی جاتی ہیں۔ خفیہ ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حنا ربانی کھر اور بلاول کے درمیاں تعلقات کا انکشاف اس وقت ہوا جب ایوان صدر اسلام آباد میں صدرزرداری نے اپنی آنکھوں سے دونوں کو تنہائی میں دیکھ لیا۔ حناربانی ایوان صدر آئی تھیں جبکہ بلاول وہیں پر مقیم ہیں۔ اس کے بعد صدر زرداری نے دونوں کے موبائل کا ریکارڈ نکلوایا تو ہوشربا انکشافات سامنے آئے تھے۔“ بیان کا تضاد ملاحظہ فرمائیے حنا ربانی کو غلام مصطفیٰ کھر کی بیٹی کہا گیا ہے حالانکہ ان کے والد نور ربانی کھر ہیں۔
پاکستانی سوشل میڈیا میں یہ خود ساختہ سکینڈل سامنے آیا تو اس وقت حنا ربانی کھر امریکہ میں تھیں۔ آج کے فاسٹ میڈیا دور میں کوئی بھی خبر چند لمحات میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے۔ حنا ربانی کو اس وقت اس کی تردید کردینی چاہئے تھی۔ اب انکی طرف سے تو تردید آگئی بلاول فیملی کی طرف سے تادمِ تحریر خاموشی ہے۔ یہ پاکستان کے دو معزز خاندانوں کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ وضاحت میں تاخیر سے لوگ سنی سنائی اور اڑی اڑائی باتوں کو ہی حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔یہ سکینڈل کیوں منظر عام پر آیا؟ ہوسکتا ہے کہ حنا ربانی کھر کے حاسدوں کی کارستانی ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی فریق اس سے اپنے مقاصد حاصل کرناچاہتا ہو۔ اس کی ایک مثال گزشتہ سال فروری 2011ءکے شروع کا ایک سکینڈل ہے۔ جس میں صدر آصف علی زرداری کی پاکستانی نژاد امریکی خاتون سے شادی کی خبریں شائع ہوئیں۔ ایک قیاس ملاحظہ فرمائیے۔”تنویر زمانی کو کل تک کوئی نہیں جانتا تھا لیکن اب وہ اِدھر آئی ا±دھر شہرت کے آسمان پر چھائی، کوئی اسے حسن کا غرور اور کوئی دلبری کا نازکہہ رہا ہے، کوئی دل کے تاروں کو چھیڑنے والا نغمہ زمانی کی عمر 40 سال، امریکی شہریت کی حامل‘ گ±نوں کی پوری، مالی حالت مضبوط‘ کسی کے بھی احساسات و جذبات تک خریدنے کے قابل‘ اردو اور انگلش خطاب پر یکساں عبور حاصل‘ لہجے کی لے‘ آواز کے سروں اور ناز و ادا سے محفل پر سحر طاری کر دے۔ پیشہ ڈاکٹری اور برطانیہ سے عالمی سیاست میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کی دعویدار.... صدر پاکستان آصف علی زرداری سے شادی کی افواہ نے انٹرنیٹ اور میڈیا میں طوفان برپا کر دیا۔“ کچھ عرصہ بعد سکینڈل کا ہمالہ کھودا گیا تو نیچے سے تنویر زمانی کی خود کو نمایاں کرنے کی آرزو برآمد ہوئی۔ بلاول اور حنا کے مبینہ معاشقے کے سکینڈل کو کس نے کس نیت اور مفاد کیلئے بُنا اس کے پیچھے کوئی سازش ہے یا خواہش اس کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ ایک برطانوی اخبار نے اسے پاک فوج کو بدنام کرنے اور آئی ایس آئی پر وار کیلئے استعمال کیا ہے۔ ڈیلی ٹیلیگراف نے لکھا ہے ”ربانی کھر اور ان کے شوہر نے ان دعوﺅںکو ناقابل یقین اور بکواس قرار دے کر مسترد کر دیا ہے لیکن افواہیں پاکستان میں عام ہو چکی ہیں اور اب اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں انہیں کسی سازش کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔ پی پی پی کی سینئر شخصیات نے جمعرات کو کہا کہ یہ آئی ایس آئی کی سازش ہے جس نے حنا ربانی کھر کی شہرت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی کیونکہ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان میں گم ہو جانے والے ہزاروں لوگوں کی اقوام متحدہ کی جانب سے تحقیقات کیلئے کردارادا کیا جو فوج کی قید میں تھے۔ پی پی پی کے ایک عہدہ دار نے ٹیلیگراف سے کہا کہ آئی ایس آئی توقع کر رہی ہے کہ لوگوں کی گمشدگی کے بارے میں اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ فوج اور انٹیلی جنس کے اعلیٰ عہدہ داروں پر الزام لگا کر ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کرسکتا ہے جبکہ اس گروپ کو آمد کی سہولت فراہم کرنے کا الزام کھر پر ہے۔ ڈیلی ٹیلی گراف پر ہی کیا موقوف پورا مغربی میڈیا اور مغرب آئی ایس آئی کو بد نام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ڈالر نچھاور کرنے والوں نے تو ایک مرتبہ آئی ایس آئی کو وزیر داخلہ رحمن ملک کے ماتحت بھی کرادیا تھا۔ وہی رحمن ملک جن کی ”دیانت اور صداقت“ پر سپریم کورٹ نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ اقوام متحدہ کا وفد جاتے جاتے لاپتہ افراد کے حوالے سے حساس اداروں پر ملبہ ڈال گیا۔ اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ کے سربراہ الیوردی نے 20 ستمبر 2012 کو اسلام آباد میں پورے پاکستان کے دورے کے دوران مختلف حلقوں اور شخصیات سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ بلوچستان میں 14ہزار افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات ملیں۔ حکام سو سے بھی کم کی تصدیق کرتے ہیں۔ لواحقین نے ایجنسیوں پر الزام لگایا ہے اس گروپ نے سفارش کی تھی کہ کسی کو لاپتہ کرنے کا حکم نہ ماننے کا قانون ہونا چاہئے انٹیلی جنس اور سیکورٹی حکام کو جوابدہ بناناچاہئے۔ ہو سکتا ہے ایجنسیاں قومی سلامتی کیلئے خطرہ بننے والے کچھ لوگوں کو اٹھالیتی ہوں لیکن اس پر ہر برائی کا الزام لگا دینا بد باطنی ہے۔ ٹیلیگراف نے پیپلزپارٹی کے اہم رہنماﺅں کی طرف سے بلاول حنا معاشقے کی تخلیق کا الزام آئی ایس آئی پر لگا دیا لیکن ان رہنماﺅں کے نام نہیں بتائے جس طرح بنگلہ دیش بلٹز نے معاشقے کے حوالے سے بے پرکی اڑائی اسی طرح برطانوی اخبار نے بھی اپنے اندر موجود آئی ایس آئی کے خلاف خبث پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں کا بغیر نام لئے بیان کرکے نکال دیا۔ لہٰذا قوم محتاط رہے ہم کسی کے کردارکی پاکیزگی کی وکالت نہیں کرتے تاہم شواہد ایسا راستہ
نہیں دکھاتے جن سے الزام کی صداقت ثابت ہوتی ہو۔
نہیں دکھاتے جن سے الزام کی صداقت ثابت ہوتی ہو۔
No comments:
Post a Comment