About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, September 27, 2012

ڈاکٹر اے کیو خان سیاست میں؟


27-9-2012


   
ڈاکٹر اے کیو خان سیاست میں؟




27 ستمبر 2012 0    

 تحریک تحفظ پاکستان کے چیف کوآرڈینیٹر چودھری خورشید زمان نے 17 ستمبر 2012ءکو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ڈاکٹر عبدالقدیر خان سیاسی پارٹی بنا کر ملک کے سیاسی ایوانوں ہلچل مچا دی ہے۔ آئندہ الیکشن میں ملک بھر میں اپنے امیدوار کھڑے کریں گے۔ اس سے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ ڈاکٹر خان انتخابی سیاست میں بھی حصہ لیں گے۔ اس تاثر کو اس خبر سے مزید تقویت ملی کہ تحریک تحفظ پاکستان اور مسلم لیگ ن حقیقی کے مابین اتحاد ہوا ہے۔ اسی صورتحال پیشِ نظر میڈیا میں ڈاکٹر صاحب کے سیاست میں آنے کے بارے میں مثبت اور منفی ردعمل سامنے آیا۔ ڈاکٹر صاحب کی سیاست میں آمد سے جن پارٹیوں کو اپنی سیاست کی کشتی بھنور میں پھنسنے اور دلدل میں دھنسنے کا خوف تھا‘ اسکے ترجمانوں کا آپے سے باہر ہونا فطری امر تھا۔ ڈاکٹر خان نے یہ وضاحت کرکے کہ ان کا انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں‘ مذکورہ پارٹیوں کا خوف کسی حد تک کم کر دیا لیکن یہ پارٹیاں مکمل طور پر مطمئن نہیں۔ 
ڈاکٹر خان کا کہنا ہے کہ 76 سال کی عمر اور صحت کے کچھ مسائل کی وجہ سے پاکستان کی مروجہ سیاست میں فعال کردار ادا نہیں کر سکتے۔ جلسے‘ جلوس اور اجتماعات کا انعقاد اور ان میں شرکت جس فعالیت کی متقاضی ہے‘ وہ میرے لئے ممکن نہیں۔ ویسے بھی سیکورٹی خدشات اپنی جگہ ہیں۔ آج ملک جن بحرانوں میں گھرا ہوا ہے‘ بیرونی طاقتیں پاکستان کو نقصان پہنچانے بلکہ جو اسے توڑنے کیلئے سرگرم ہیں‘ ان کو ملک کے اندر سے بھی نہ صرف مزاحمت کا سامنا نہیں بلکہ کچھ عناصر ان طاقتوں کی سازش میں‘ معاون بھی ہیں۔ اس پر ڈاکٹر صاحب بھی عام پاکستانی کی طرح دل گرفتہ ہیں۔ وہ ملک کو مسائل اور عوام کو مصائب سے نکالنے کی تدبیر کرتے ہیں۔ وہ آج کی ہر بڑی پارٹی سے مایوس ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کنٹرول حاصل کرنا اور پاکستان کو توڑنا چاہتا ہے۔ جو کام وہ طاقت سے نہیں کر سکا‘ اس کیلئے اس نے پاکستان سے ہی کچھ لوگوں کو ساتھ ملا لیا ہے۔ پاکستان کو توڑنے کی ابتدا بلوچستان سے کرنے کی ناپاک منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ایران کبھی پاکستان کیخلاف نہیں رہا‘ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کا ایران پر الزام بے بنیاد ہے۔ اس نے ایسا کرنا ہوتا تو کب کا کر چکا ہوتا۔ وہ پاکستان کا خیرخواہ‘ دوست اور پاکستان کو مضبوط کرنے اوردیکھنے کا خواہاں ہے۔آج پاکستان کو شدید ترین توانائی بحران کا سامنا ہے‘ ایران پاکستان کو اس بحران سے نکالنا چاہتا ہے جبکہ ہماری حکومت جن پر تکیہ کر رہی ہے‘ وہ پاکستان کو نہ صرف خطرات میں دھکیل رہا ہے بلکہ خود اسکی سلامتی و سا لمیت کیلئے خطرہ ہےں۔ ایران سے بجلی کیلئے لائن بچھانے کی ضرورت ہے‘ نہ تیل کی درآمد کیلئے بحری جہازوں کی‘ گیس کی فراہمی کیلئے ایران کی طرف سے تنصیبات مکمل ہیں‘ پاکستان میں پائپ لائنوں کا جال بچھا ہے‘ صرف درمیان میں کنکشن کی ضرورت ہے۔ یہ معمولی کام محض امریکہ کی مخالفت کے باعث نہیں ہو رہا۔ 
ڈاکٹر صاحب پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ نواز شریف ایٹمی دھماکے کرنے کے حق میں نہیں تھے‘ مجید نظامی صاحب کی ڈانٹ پر دھماکے کئے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نواز شریف کوکئی بار سیاسی معاملات شہباز شریف کے سپرد کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں‘ عمران خان کی سیاست سے بھی ان کو اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انکی پارٹی زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس سیٹیں لے سکے گی اور جس قسم کے لوگ انکے ہمراہی ہیں‘ وہ اپنے مفادات کو دیکھ کر اپنا سیاسی قبلہ بدلنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب انتخابی سیاست سے گریز کرتے ہوئے سیاست کو راست سمت میں لانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لیں‘ ایماندار لوگوں کا انتخاب کریں‘ اگر آپ کے حلقے سے پارٹیاں غلط لوگوں کو ٹکٹ دیتی ہیں تو آپ اپنا آزاد امیدوار کھڑا کرلیں۔ وکلائ‘ تاجروں‘ نوجوانوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ نوجوان طلبہ‘ تاجر‘ وکلاء‘ کسان اور دیگر طبقات اپنے ووٹ کو قومی امانت سمجھتے ہوئے اس کاہر صورت استعمال کریں۔ ہو سکتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں پانچ چھ لوگوں کی براہ راست حمایت کریں‘ جن کے کردار‘ اہلیت اور حب الوطنی سے ہم مطمئن ہوں گے۔ اگر پورے ملک سے 35 چالیس‘ محب وطن‘ دیانت دار جرا¿ت مند اور نڈر لوگ اسمبلی میں آکر متحد ہو جائیں تو حکومت کو ٹریک پر رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے مثال دی کہ متحدہ قومی موومنٹ 25 اور مولانا فضل الرحمان چھ سات سیٹوں کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر ایک طاقت اور حکومت کو اس کی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ 40 تو بہت بڑی طاقت ہونگے۔ محسن پاکستان کہتے ہیں کہ ہمارے تمام مسائل کا حل اسوہ¿ حسنہ میں موجود ہے۔ قائد اور اقبال کا فکر و فلسفہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ وہ نظامی صاحب کے ساتھ اپنی دوستی پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ خود اپنے اور نوجوانوں کیلئے مجید نظامی کے جرا¿ت اظہار کو قابل تقلید قرار دیتے ہیں۔ مجید نظامی کو ہر فوجی اور جمہوری آمر کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے تو باطل کے سامنے جھکنا سیکھا ہی نہیں۔ وہ کبھی ایوب‘ یحییٰ‘ ضیاءاور مشرف کی آمریت کے سامنے جھکے نہ بھٹوز اور نواز شریف کی جمہوریت کے پردے میں لپٹی آمریت سے دبے۔ آپ نے ہمیشہ کلمہ حق کہا اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کا حق ادا کر دیا۔ آج واقعی ہماری سیاست پر نحوست کے سائے ہیں‘ ان کو دور کرنے کیلئے ایک بے رحم اپریشن کی ضرورت ہے جس کا کوئی امکان ظاہر نظر نہیں آتا۔ ایسے میں پاکستان کی سیاست کو نحوست سے بچانے اور منحوسوں کے پنجہ¿ استبداد نجات دلانے کیلئے ڈاکٹر خان کا لائحہ عمل درست اور لائق تحسین ہے۔ قوم انکے ہاتھوں میں ہاتھ دے‘ وہ سیاست کو جس پاکیزہ سمت کی طرف لے جانے کیلئے سرگرم ہوئے ہیں‘ اسے احسن انجام تک پہنچانے کیلئے ان کا ساتھ دے۔ اس سے ڈاکٹر صاحب کا کوئی مفاد وابستہ ہے اور نہ ان کو کسی عہدے کی خواہش ہے۔ سوال ملک کی ترقی و خوشحالی‘ بقاءو سلامتی‘ قوم کی بھلائی اور نئی نسل کے روشن مستقبل کا ہے۔ ہر پاکستانی اپنی اپنی پارٹی سے وابستگی رکھتے ہوئے ڈاکٹرصاحب کے سیاست کو پاکیزہ اور معطر ماحول دینے کی کاوش اور خواہش کو عمل کے سانچے میں ڈھالنے میں ممد و معاون ہو سکتا ہے۔ آخر میں پاکستانیوں کی اکثریت کی رائے ‘خواہش یا آرزو محسنِ پاکستان تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو تنقید کا کم سے کم نشانہ بنائیں‘ کیونکہ جواب میں ان پارٹیوں کے ترجمان جھوٹ بولتے اور طوفان تولتے اخلاقیات کے تقاضوں کو سرے سے نظر انداز کرتے ہوئے بدزبانی کرتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب سے محبت کرنے والوں کے دل گھائل ہوتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment