جمعرات ,13 ستمبر ,2012
کچھ کریں یا صرف دعا کریں
چھوٹی سی مچھلی زامورا انسان کی آواز بڑی محبت سے سنتی ہے یہ آواز سننے کیلئے وہ کشتیوں کے ساتھ رہتی ہے ۔جب یہ کسی بڑی مچھلی کو کشتی پر حملہ کرنے کے لیے آتے ہوئے دیکھ لیتی ہے تو فورا ًاس کے کان میں گھس کردماغ میںکاٹنا شروع کر دیتی ہے۔بڑی مچھلی شدت تکلیف سے کشتی سے رخ موڑ کر ساحل کی طرف دوڑتی ہے تاکہ کسی پتھرپر اپنا سر ٹکرائے ۔زامورا کے اس وصف کے باعث ملاح اسے بہت چاہتے ہیں اور اسے کھلاتے رہتے ہیں۔اگر کسی شکاری کے جال میں پھنس جائے تو اسے چھوڑ دیتے ہیں۔
چیونٹی اپنے رزق کی تلاش میں بڑی سرگرم رہتی ہے اور گرمیوں میں سردیوں کے لیے بھی رزق جمع کرلیتی ہے۔گندم کے دانے کو اپنے ساتھ محفوظ رکھنے کے لیے یہ بڑے بڑے حیلوں سے کام لیتی ہے جب اسے گندم کے دانے کے اُگ پڑنے کا اندیشہ ہوتو فورا اس کے چار ٹکڑے کردیتی ہے دو پر اس لیے اکتفا نہیں کرتی کہ ہر ایک ٹکڑا اُگ پڑتا ہے۔کہا جاتاہے کہ چیونٹی کھاتی کچھ بھی نہیں اس لیے کہ اس کا پیٹ پیدا ہی نہیں کیا گیابلکہ جب یہ گندم کے دانے کے ٹکڑے کرتی ہے تو اس کی خوشبو ہی سے یہ اپنا رزق پالیتی ہے۔
مشرف کا نامہ اعمال لال مسجد اپریشن،دہشت گردی کی جنگ میں اتحاد،اکبر بگٹی کا قتل اور عدلیہ پر شب خون جیسی خرافات اور بیہودگیوںسے سیاہ نہ ہوتا تو وہ آج بھی شاید پاکستان اور پاکستانیوں کے سیاہ سفید کا مالک ہوتا۔جدہ جانیوالوں کی جلا وطنی کے دس سالہ معاہدے کی ایکسٹینشن ہوچکی ہوتی۔مشرف کو محترمہ بینظیر بھٹو سے خفیہ ملاقاتوں کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اور محترمہ کے شوہر نامدار وہیں ہوتے جہاں پر ان کو اہلیہ عظمیٰ نے رکھا ہوا تھا۔مشرف کی غیر مقبولیت نا معقولیت میں خود اس کی اپنی حماقتوں کا بڑا حصہ ہے۔ایک بڑی حماقت سب کچھ اپنے پروردہ سیاستدانوں کی صلاحیتوں پر یقین کرکے ملکی معاملات اور عوام کو درپیش مسائل سے لا تعلق ہوجانا تھا۔ان سیاستدانوں نے آخری ایک ڈیڑھ سال میں معیشت کو ڈبو دیا۔ مشرف ایک بار پھر نابکار سیاستدانوں کو ہر صورت آزماناچاہتا تھا لیکن اب ہوا بدل چکی تھی۔آرمی چیف مشرف کا تراشا ہوا ہی تھا۔ لیکن اس نے الیکشن کو مشرف کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننے دیا۔
مسلم لیگ ن کی قیادت پہلے تو الیکشن کے بائیکاٹ کے مخمصے میں پھنسی رہی جب تیار ہوئی تو دیگر صوبوں میں انتخابی مہم کا وہ سماں نہ بندھ سکا جو پنجاب میں تھا۔ پیپلز پارٹی نے انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی حشر بپا کردیا تھا۔ بینظیر بھٹو کے طوفانی دورے، جلسے اور خطابات تاریخ کا حصہ اورسیاسی پارٹیوں کے لئے انتخابی مہم کے حوالے سے سبق ہیں۔ اس دوران محترمہ کو قتل کردیا گیا تاہم وہ اپنی زندگی میں ہی بھرپور انتخابی سرگرمیوں سے اپنی پارٹی کی جیت کا سنگ بنیاد رکھ چکی تھیں۔ پیپلز پارٹی کی انتخابات کے دوران اور انتخابات کے بعد کئی ماہ بلکہ کئی سال تک مسلم لیگ ن کے ساتھ مفاہمت رہی۔ الیکشن میں اصل مقابلہ ان دو بڑی پارٹیوں کا ق لیگ کے ساتھ تھا جو مشرف کے نفرت انگیز اقدامات کے باعث عوامی نظروں سے گر چکی تھی۔ مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم ماٹھی رہی۔ اس لئے عوام نے پیپلز پارٹی پر زیادہ تر اعتماد کیا۔ زمامِ اقتدار آصف علی زرداری کی سرپرستی میں پیپلزپارٹی کے ہاتھ آئی تو عوام ہر نئی صبح طلوع ہونے پراپنے آنگن میں کہکشائیں اترنے کی امید لیکر اٹھتے‘ جلد ان کو احساس ہوگیا کہ جن کو مسیحا سمجھا ان کے ہاتھ میں خنجر ہے۔ امیدوں کے چراغ بجھنے کا سلسلہ وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف کے کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو ختم کرنے کے اعلان سے ہوا۔ اس کے بعد چل سو چل‘ ملک کو اندھیروں میں دھکیلنے والا وزیر وزیراعظم بن گیا۔ بجلی ناپید، گیس کی قلت پانی کی کمی،لاکھوں کارخانے بند،نصف کروڑ سے زائد مزدور بے روزگار، پاکستان کی بقا و سالمیت کے دشمن بھارت کے ساتھ دوستی،ڈرون حملوں پر خاموشی، دہشت گردی کی جنگ میں مزید جوش و خروش سے شرکت، مشرف کے تمام گناہ معاف کرنے کا عملی اظہار، عدلیہ کے فیصلے ماننے سے انکار، اس کی تضحیک و تذلیل ، فوج کو کارنر اور بد نام کرنے کے اقدامات اب جبکہ سپریم کورٹ لاپتہ افراد کا کیس سن رہی ہے اور حساس اداروں پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے زور دے رہی ہے عین اس موقع پر اقوام متحدہ کے وفد کو بلا لیا۔آج ادارے تباہ ہورہے ہیں۔ ملک و قوم ہر طرح کے بحران میں مبتلا ہے۔ریلوے، پی آئی اے، سٹیل ملز،این ایل سی، این آئی سی ایل، وزارت پٹرولیم اور کون کونسی سی وزارت ہے جو کرپشن میں ڈوبی ہوئی نہیں ہے۔اوپر سے بہت اوپر سے نیچے تک ہمالیائی کرپشن کی دیومالائی داستانیں مشہور ہیں۔ حکمران کرپشن کی گنگا میں اشنان کرتے ہوئے دھن دولت کے ہمالہ کھڑے رہے ہیں مسائل اور مصائب زدہ عوام بھوکوں مر رہے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بھی کہنا پڑا کہ بد عنوانی بہت بڑا خطرہ ہے۔ سرکار کے ہاں کرپشن کو دیوی سمجھے جانے کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ ایک وزیر نے کہا کہ کرپشن ہمارا حق ہے۔ ایک وزیر کے اکاﺅنٹ میں کوئی 18کروڑ روپے رکھ گیا وزیر صاحب لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کے بیٹے اور ایک وزیر پر منشیات فروشی کا الزام ہے۔ایک وزیر کرپشن کے الزام میں جیل میں رہا صدر صاحب اس کو بے گناہ قرار دیتے ہیں۔ کابینہ میں موجود کئی وزرا پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ وزیراعظم راجہ کو تو سپریم کورٹ بھی رینٹل منصوبے کی کرپشن میں ملوث قرار دے چکی ہے اور تو اور وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے احتساب بل کا مسودہ تیار کر لیا فرماتے ہیں احتساب بل ماضی کی کرپشن پر لاگو نہیں ہوگا یعنی ایک روز قبل کی لوٹ مار بھی معاف ہوگی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیک نیتی سے کی جانیوالی کرپشن جرم نہیں ہو گی۔ کیا اب ریپ‘ شراب نوشی‘ ڈکیتی چوری فراڈ اور قتل جیسی قبیح وارداتوں میں بھی نیک نیتی کا پہلو تلاش کر لیا جائے گا؟ کرپشن ایک طرف مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی نہیں جس طرح گزشتہ حکومت نے مکھی پر مکھی ماری یہ بھی مار رہے ہیں۔اُن کی سنئے تو کہتے ہیں اتنے ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل کی یہ کہتے ہیں بحران ورثے میں ملے ہم نے ساڑھے تین ہزار میگا واٹ مزید بجلی پیدا کی۔ وہ کہاں گئی؟ بلکہ جو پہلے سے موجود تھی وہ بھی عنقا ہو گئی۔
قوم نے آپ پر اعتبار کیا احسان کیا، اس کو کیا بدلہ دیا؟ ان سے وہ مچھلی بھلی جو انسان کو محض اس کی آواز سننے پر اپنا محسن سمجھتی ہے جو اپنے محسن کی حفاظت کی خاطر آخری حد تک چلی جاتی ہے۔ان سے زیادہ وہ چیونٹی منصوبہ ساز ہے جو اپنے مستقبل کی ضروریات اور خوراک کا بندوبست کرتی ہے اور اس کی حفاظت بھی سائنسی بنیاد پر کرتی ہے ہر سال خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ بارشوں میں لاکھوں ٹن گندم برباد ہوگئی۔فلاں جنس سٹور میں بڑی بڑی سڑ اورگل گئی۔
سب کچھ بھگتنے کے باوجود کچھ نہ کرنے والے عوام کیا اپنے مصائب کے ذمہ داروں کے لئے عنقا جیسے کام کی طرح اس جیسے انجام کی دعا نہ کریں؟ ہاں عنقا جیسے۔ عنقا کے بارے میں کہا جاتا ہے:
یہ ایک بہت بڑا پرندہ ہے ۔ہاتھی پر جھپٹ کر اسے یوں لے اڑتا ہے جیسے چیل چوزے کو لے اڑتی ہے۔
یہ پرندہ جب اڑتا ہے تو اس کی پرواز سے رعد کی مثل آواز پیدا ہوتی ہے ا ور یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے بادل گرج رہے ہیں۔لوگ اس سے بے حد پریشان تھے۔
حتیٰ کہ یہ ایک مرتبہ ایک دلہن پر جھپٹ کر اسے لے اڑا۔
لوگوں نے اپنے زمانے کے نبیؑ سے عرض کی کہ اس سے ہمیں نجات دلایئے
تو اللہ کے نبیؑ نے دعا کی اور اللہ نے اسے ایک ایسے جزیرے میں محدود کر دیا۔ جہاں کسی انسان کا گزر نہیں۔
No comments:
Post a Comment