About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, September 11, 2012

ایک امریکہ کا اور ایک پاکستان کا سانحہ نائن الیون


منگل ,11 ستمبر ,2012
     
ایک امریکہ کا اور ایک پاکستان کا سانحہ نائن الیون    

امریکی نائن الیون کے وقوع پذیر ہونے کے بعد نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنڈے کی تکمیل کی طرف پیش رفت ہوئی۔امریکی 9/11 کے سانحے نے کئی سانحات کو جنم دیا۔جو اس سانحے میں مارے گئے ان کے لواحقین کی دنیا اُجڑ گئی۔پھر اس سانحے کے جواز میں جوسانحات پرپا کئے گئے ان میں معصوم بچوں خواتین اور بوڑھوں سمیت لاکھوں مسلمان موت کی واد ی میں پہنچا دےئے گئے۔ یہ سارے ورلڈٹریڈسنٹر میں11 ستمبر 2001ءمیں مارے جانے والوں کی طرح بے گنا ہ تھے۔ ٹوّن ٹاورز کی تباہی اسامہ بن لادن کا امریکی معیشت ڈبونے کا منصوبہ تھا یا امریکہ کانیو ورلڈ آرڈر کو عملی جامہ پہنانے کا لائحہ عمل تھایا یہ یہودیوں کی مسلم امہ کے خلاف مغرب کو بھڑکانے کی سازش تھی،اس حوالے سے حقائق ایک معمہ بنے ہوئے ہیں۔ البتہ 9/11 کے بعد مسلمانوں کو اس کا خمیازہ شدید مالی اور جانی نقصان کی صورت میں ضرور بھگتنا پڑا۔
پاکستان کا 9/11 ،گیارہ ستمبر 1948ءکو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا انتقال تھا ، جس کو ایک طبقہ قائد کا قتل بھی قرار دیتا ہے۔اس دن قائد طبعی موت کی آغوش چلے گئے یا ان کا قتل کیا گیا اس بحث کو الگ رکھتے ہیں ، تاہم اس روز پاکستان لاوارث اور پاکستانی یتیم ہوگئے ۔پاکستانی نائن الیون کے بعدنظریاتی ریاست پاکستان کو قائدؒ و اقبالؒ کے فکرو فلسفے کے مطابق چلانے والی قیادت مفقود تھی۔ جس کے باعث کی ملک و قوم کے لئے ترقی وخوشحالی کی راہیں محدود اورمسدودہوگئیں۔ پاکستان کے9/11 کے بعد ہمیں میر کارواں ملا، منزل ملی نہ منزل کا نشاں ملا۔پاکستان کے9/11 سے جو دکھ پاکستانیوں کو ملے وہ امریکہ کے 9/11 کے سانحے اور اس سانحے کے جواز میں برپا کئے جانے والے سانحات سے کہیں بڑھ کرہیں۔آج ہم جن ظلمتوں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں ، اس کا بنیادی سبب بھی پاکستان کا 9/11 ہے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین بنیادی اور بڑا تنازع کشمیر کے ایک بڑے حصے پر بھارت کا قبضہ ہے ۔ تقسیمِ ہند کے اصول و ضوابط کے مطابق پاکستان کا حصہ ہے۔قائدِ اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور بھارت کے قبضہ سے چھڑانے کے لئے قائم مقام آرمی چیف جنرل گریسی کو فوجی طاقت کے استعمال کا حکم دیا تھا۔گریسی کا حملے سے گریز ، مجاہدین کی کشمیر پر یلغاراور بھارت کا اقوامِ متحدہ جاکر کشمیریوں کے حقِ خود اردیت کو تسلیم کرنا اور اس سے مکر جانا ‘تاریخ کا حصّہ ہے۔قائد کی رحلت پر مسئلہ کشمیر جہاں تھا آج بھی وہیں ہے۔یہ مسئلہ حل ہو گیا ہوتا تو نہ 65ءکی جنگ کی نوبت آتی اور نہ ہی آگے جا کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ پیش آتا۔ بھارت اس مسئلہ کے حل کے لئے مذاکرات کے نام پر پاکستان کی سیاسی قیادت کو بیوقوف بنا تا آرہا ہے، وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور اس نے اپنے آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کو اپنا صوبہ ڈکلیئر کر دیا ہے تو اس کے ہاں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟۔ بھارتی وزیر خارجہ کرشنا پاکستان آکر ایک ہی راگنی گاتے، سناتے اور دہراتے رہے کہ ”ایک ہی ملاقات میں مسائل حل نہیں ہو سکتے، تنازعات مرحلہ وار طے ہو ں گے“ اس کی سیوا میں مصروف زرداری‘ راجہ، ربّانی‘ شہباز شریف اور دیگر قائدین میں سے کسی نے نہیں پوچھا‘ مہاراج ! یہ پہلی ملاقات نہیں ہے کشمیر پر سینکڑوں بار مذاکرات ہو چکے ہیں ۔ کسی نے یہ بھی باور نہ کرایا‘لالہ کرشنا! اگر تنازعات مرحلہ وار ہی طے کرنے ہیں تو آغاز بنیادی اور بڑے تنازعے ”کشمیر اشو“ سے کریں۔ قائدِ اعظم کی وفات حسرتِ آیات کے ساتھ ہی قوم باد سموم و صر صر کے تھپیڑوں کے ر حم و کرم پرتھی۔مسئلہ کشمیر کے حل میں سرِ مو پیش رفت نہ ہوسکی۔ والی ئِ حےدرآباد دکن امےر عثمان علی اپنی رےاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر کے چکے تھے ۔ بھارت اسے اپنا حصہ بنانا چاہتا تھا لیکن قائدِ اعظم کی موجودگی میں اس پر جارحیت کی جر ات نہ کرسکاجبکہ 11ستمبر کو حضرت قائداعظم کی وفات کے بعد بھارت نے 13ستمبر کو حےدرآباد دکن پر حملہ کر کے 18ستمبرکو اس پرقبضہ کرلےا۔قائد کی جیب کے کھوٹے سکے اسے ٹھنڈے پیٹوںہضم کر گئے۔
قائد جن پر اعتبار کرتے تھے انہوں ثابت کیا کہ وہ کھوٹے سکے اور احسان فراموش تھے ۔ دو واقعات سامنے یاد آتے ہیں دل کٹ کے رہ جاتا ہے۔ (1) 11 ستمبر 1948 ءکو بےمار قائد کو کوئٹہ سے کراچی لاےا گےا۔ تو کوئی بھی حکومتی افسر، وزیر وغیرہ ان کے استقبال کے لئے ائرپورٹ پر موجود نہیں تھا۔ پھر ان کو ماڑی پور ہوئی اڈے سے گورنر ہا¶س تک پہنچانے کے لئے جو ایمبولنس دی گئی وہ آدھے راستے میں خراب ہو گئی اور قائد لاوارثوں کی طرح فٹ پاتھ پر پڑے رہے۔ 
(2)۔ اےوب خان کے بھائی سردار بہادر خان، لےاقت علی خان کی کابےنہ مےں وزےر تھے ، وہ کہتے ہےں” بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا انتقال ہو چکا تھا۔ مےت کراچی مےں ان کی سرکاری رہائش گاہ مےں رکھی تھی ۔ پورا ملک صدمے اور غم سے نڈھال تھا۔ مگر اسی شام بھارتی وفد کے اعزاز مےں وزےراعظم کی طرف سے اےک اعلیٰ سطحی ڈنر کا اہتمام کےا جارہا تھا۔ جو پہلے سے طے شدہ تھا۔ ڈنر کی عمارت اس بلڈنگ کے بالکل سامنے تھی جہاں قوم کے باپ کی لاش کفن مےں لپٹی پڑی تھی ۔ قائد اعظم کے انتقال کی خبر سب کو تھی لےکن وہ ڈنر منسوخ نہ کےا گےا ۔ اگلے روز اخبارات مےں روتی ہوئی قوم کی خبر کے ساتھ ساتھ ڈنر کی خبر بھی شائع ہوئی“۔
قائد چند سال مزید زندہ رہتے یا پاکستان کو قائد جیسا ایک بھی راہبر ملا ہوتا تو آج پاکستان یقینا ایشیائی ٹائیگر ہوتا ہم غیروں کے رحم و کرم پر نہ ہوتے ۔ ہماری پالیسیاں واشنگٹن کی بجائے اسلام آباد میں بنتیں۔
پاکستان کی شہ رگ دشمن کے قبضے سے چھڑائی جا چکی ہوتی۔کالا باغ بن گیا ہوتا ۔ ہمارے دریا نہ بکتے ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بجائے جونا گڑھ ، مناوادر اور حیدر آباد دکن پاکستان کا حصہ ہوتے۔بھارت میں موجود مسلمانوں کو ہندو شرپسند نشانہِ ستم بنانے کی جرات نہ کرتے۔یہ سب ہمیں پاکستان کے سانحہ نائن الیون کی وجہ سے دیکھنا اور بھگتنا پڑا۔

No comments:

Post a Comment