About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, September 23, 2012

ڈاکٹر خان سیاست میں؟


اتوار ,23 ستمبر ,2012
     
ڈاکٹر خان سیاست میں؟  

بڑی پارٹیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو قومی غیرت ان کے اندر کی مہمان دکھائی دیتی ہے جو کبھی کبھی آتی ہے ۔ غیرت مند قوموں کی قیادت کا غیرت مند ہونا بھی ضروری ہے۔ آج کی سیاسی قیادتیں کشمیر کاز سے بے وفائی کی مرتکب ہورہی ہیں۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ، ہماری قیادتیں اس کو شہ رگ توکیا اپنا انگ ماننے سے بھی گریزاں ہیں جبکہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ جماعت اسلامی اور اس جیسی دیگر تنظیم نما سیاسی جماعتوں کے جذبات میں شدت اور کلمات میں وہی حدت ہے جو قائداعظم کے خیالات میں تھی۔ باقی پارٹیاں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے دیرینہ موقف پر سمجھوتہ کر چکی ہیں۔ سفاک بھارتی فوجی درندوں کی طرف سے حریت پسندوں کی قبائیں نوچنے، عزت مآب خواتین کے آنچل اچکنے اور چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کئے جانے کے باوجود بھارت کے ساتھ تجارت تعلقات اور دوستی کا خبط پایا جاتا ہے۔ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کا عمل جاری ہے۔ خسارے کی تجارت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ کوئی سرحد کو مٹانے اور کوئی دونوں ممالک کو ویزہ فری بنانے کی نامراد حسرت دل میں لئے بیٹھا ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کو مسئلہ کشمیر کے حل سے کوئی مشروط نہیں کرتا۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دشمنی کی حد تک اختلافات کا اظہار کرتی ہے لیکن ہر پارٹی بھارت پر موجودہ حکمرانوں کی پالیسی کو احسن سمجھ کر اس پالیسی پر دل و جان سے فدا ہے ۔ البتہ حلق کے اوپر سے یہ ضرور کہہ دیتے ہیں” مسئلہ کشمیر مذاکرات اور پُر امن طریقے سے حل ہونا چاہیئے“ ۔ دشمن کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالنے اور اس کے راستے میں کہکشائیں بچھانے سے مسئلہ کشمیر قیامت تک حل نہیں ہو گا۔قیامت تک!
ڈاکٹر اے کیو خان پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا نام ہے۔بہت بڑا نام! ان کاہر پاکستانی کے دل میں بڑا حترام ہے وہ اکثر پاکستانیوں کے دل کے مندر کا دیوتا ہےں۔وہ سیاست کی وادی میں اترے ہیں،پاکستانی سیاست کی وادی بڑی خادار ہے ۔بہت اچھا تھا کہ وہ اس سیاست میں نہ ہی آتے جس کے بدن میں کہا جاتا ہے کہ پتھر کا دل ہے اور جس سیاست میںاصول ،اس نا معقول محاورے ” سیاست میں کوئی حرف ِ آخر نہیں ہوتا“کی آڑ میں بلبلے کی طرح ٹوٹتے ہیں۔ڈاکٹر خان سیاست میں داخل ہوئے ہیں تو بہت کچھ دیکھ کر اور سوچ سمجھ کر ہوئے ہوں گے۔ ان کی شخصیت سے کچھ لوگوں کو اختلاف ہو گا اب وہ سیاست میں بھی کچھ لوگوں کے لئے متنازعہ ہوں گے لیکن پاکستان کے دفاع کو ایٹم بم بنا کر ناقابل تسخیر بنا دینے میں ان کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ خدانے پاکستان کو ایٹمی طاقت سے سرفراز کرنے کے لئے ان کو چنا ۔پاکستانیوں کے نزدیک ڈاکٹر صاحب کا مقام بہت بلند ہے بڑے سے بڑے سیاستدان کے رتبے سے کہیں بلند۔پاکستان میں سیاست دان ایک دوسرے کے ساتھ جوکرتے ہیں‘ ڈاکٹر صاحب کو بھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو ہمارے دل دکھیں گے۔ پاکستانی سیاست کی پرخار وادی میں داخل ہونیوالا کوئی بھی مائی کا لال اپنا دامن بچا کر نہیں گزر سکتا۔ سیاست میں آنیوالے بڑے سے بڑے سپوت اور پوت کو کچھ لوگ پلکوں پر بٹھاتے ہیں تو کچھ نظروں سے گراتے بھی ہیں۔ بعض اپنے لیڈر کے احترام کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس لیڈر پر جائز تنقید ہو، اسے بھی برداشت نہیں کرتے۔ تنقید کا جواب دلیل سے نہیں ‘جذبات سے دیتے ہیں اور خرافات سے بھی گریز نہیں کرتے۔زبان بے نیام برہان بن جاتی ہے۔ جذبات ابلتے اور منہ شعلے اگلتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا ان کے علم و فضل کی وجہ سے پاکستان اور عالم اسلام میں بڑا احترام تھا۔ دنیا میں آج بھی ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں کئی لوگوں کی نظر میں وہ متنازعہ ہو چکے ہیں۔ اسکی واحد وجہ ان کا عوامی تحریک کے نام سے پارٹی تشکیل دے کر سیاست میں حصہ لینا تھا۔ عمران خان بلاشبہ پاکستان کے بڑے کھلاڑی اور بے مثال کپتان رہے۔ اس حیثیت سے ان کو عالمی شہرت اور پاکستان میں اعلیٰ مقام اور عوامی احترام ملا وہ سیاست میں آئے تو کچھ لوگوں کے نزدیک ان کی قومی ہیرو کی حیثیت گہنا گئی۔ کل کے کچھ پرستار آج ان کو ناہنجار اور نابکار قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اب ڈاکٹر عبدالقدیر خان تحریک تحفظ پاکستان کے نام سے پارٹی قائم کر کے سیاست کی وادی میں اترے ہیں۔ ڈاکٹر قدیر خان نے اپنے پہلے بیان میں پی پی پی ‘ن لیگ اور پی ٹی آئی کے قائدین کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی اس پر وہ بُرا مان گئے جس پر ان کے ترجمان بپھرے۔سٹپٹائے، بلبلائے اور تلملائے۔ آنکھیں شعلہ بار ہوئیں زبانیں انگار و تلوار ہوئیں۔ایک کے مقابلے میں دس سنا کر اپنے اپنے لیڈر کی بارگاہ میں سرخرو ہو گئے ۔ ڈاکٹر خان کےلئے ایسی کڑوی کسیلی سننا کوئی نیا تجربہ نہیں تاہم سیاست میں وارد ہونے کے بعد یہ مخالفین کی طرف سے ان کا پہلا استقبال ہے۔ ڈاکٹر صاحب سیاست میں ثابت قدم رہے تو آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
 پاکستانیوں کی اکثریت قومی غیرت کو ہرچیز پر مقدم سمجھتی ہے۔ ہمارے ملک کی بڑی یا چھوٹی پارٹیوں کی کشمیر پالیسی پر کوئی کمٹمنٹ نہیں ہے۔ جن کی کمٹمنٹ ہے ‘ وہ بھی انتخابی اتحاد میں کود کر اس سے لاتعلق سی ہو جاتی ہیں۔ ترقی و خوشحالی کی خواہش بجا لیکن سب سے پہلے وطن کا وجود تکمیل کا متقاضی ہے ۔ کشمیر کے پاکستان کا حصہ بنے بِنا پاکستان مکمل نہیں۔ جس کو اس کی تکمیل کی فکر نہیں وہ قائد و اقبال کے فکر و فلسفے سے انکاری ہے اس کو ہم سروں پر کیوں مسلط کریں؟ لیکن مجبوراً ایسا کرنا پڑتا ہے ، اسکے سوا کوئی چائس ہی نہیں ہوتا۔
 کشمیریوں کے قاتل اور پاکستان کے وجود کے دشمن سے دشمنی ہر محب وطن پاکستانی کے ایمان کا حصہ ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو محسن پاکستان کا درجہ پاکستان کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنے کے باعث ہی ملا۔جس کا جواز بھارت نے 1973ءمیں پوکھران میں ایٹمی دھماکہ کر کے پیدا کیا تھا۔اس دھماکے پر ہالینڈ میں بیٹھے ڈاکٹر اے کیو خان نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا عزم کیا اور پھر حالات کے سازگار ہونے پر انہوں نے اس عزم و ارادے کو عمل کے سانچے میں ڈھال دیا ۔ جتنا پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا پاکستان کے دشمنوں کی آنکھ میں کھٹکتا ہے اتنا ہی پاکستان کو اس معراج تک پہنچانے والا بھی دُکھتا ہے۔ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ ڈاکٹر اے کیو خان مسئلہ کشمیر پر کوئی سمجھوتہ کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیں گے۔ ترقی و خوشحالی کی منزل حاصل کرنے کےلئے قیامت تک کا عرصہ پڑا ہے جبکہ اپنے وجود کی تکمیل کی فوری ضرورت ہے۔ پاکستان کی سیاست میں نووارد مگر جہاندیدہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیا قوم کو یقین دلائیں گے کہ موقع ملتے ہی وہ سب سے پہلے وطن کا وجود مکمل کردکھائیں گے؟ ان سطور کی تحریر کے بعد ڈاکٹر صاحب سے رابطہ ہوا تو انہوں نے یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ انکاانتخابی سیاست میں حصہ لینے کا قطعاً قطعاً ارادہ نہیں۔ انہوں نے کوئی سیاسی پارٹی بھی نہیں بنائی۔ ہم لوگوں کو اپنا سیاسی کردار اصولی اور احسن طریقے سے ادا کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔ ہمارا پورا زور اسی پر ہے کہ عوام صالح لوگوں کو منتخب کریں۔ اگر سیاسی پارٹیاں موزوں امیدوار کھڑے نہیں کرتیں تو اپنے اندر سے اچھے لوگوں کو آزاد امیدوار کے طور پر سامنے لاکر منتخب کریں۔ (جاری ہے)

No comments:

Post a Comment