About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, September 5, 2012

گورونانک کا ننکانہ


۔
     


ستمبر,4, 2012

بابا گورونانک کا ننکانہ    

سید شوکت علی شاہ کسی دور میں ننکانہ صاحب میں اسسٹنٹ کمشنر رہے۔ اپنی ابتدائی سروس کی یادیں تازہ کرنے اور دوستوں سے ملنے کے لئے وہ ننکانہ صاحب جاتے رہتے ہیں۔ اس بار لندن سے آئے ہوئے شاہ صاحب کے دوست راشد صاحب اور اے جی جوش کے صاحبزادے خالد تاج بھی ہم سفر تھے۔ اے جی جوش کو قاسمی صاحب ادیبوں کا گورنانک کہتے ہیں۔ ان کا ماہنامہ ادب دوست آج بھی خالد تاج کے زیر ادارت شائع ہو رہا ہے۔ راشد صاحب لندن میں مشرف کے پڑوسی ہیں وہ مشرف کی وطن واپسی کا عزم دہرا رہے تھے۔ حسب سابق میزبان چودھری محمد حسین تھے۔ 32 ایکڑ پر محیط جن کے چاول کے کارخانے بچیکی میں ہیں۔ دوپہر ساڑھے بارہ بجے ہم لوگ گورونانک کے گوردوارے پہنچ چکے تھے۔ لاہوری قافلے کو جی آیاں نوں کہنے والوں میں گوردوارے کی انتظامیہ کے دیا سنگھ‘ دیال سنگھ اور مستان سنگھ کے ساتھ چودھری محمد حسین ان کے صاحبزادے نوید حسین‘اخلاق حسین اور ننکانہ کی سیاست میں آگے بڑھتے ہوئے نوجوان مون خان بھی تھے۔ گوردوارہ کے منتظمین ہشاش بشاش تھے۔ سرداروں کے بارہ بجنے کی کیفیت مشہور ہے لیکن ہمیں اس فلسفے میں کوئی حقیقت نظر نہ آئی۔
گوردوارہ کی آمدنی کے ذرائع وسیع ترین ہیں۔ اس کے نام 2900 مربع اراضی ہے۔ کمرشل عمارات گوردوارہ کی آمدنی کا مزید ذریعہ ہےں۔ زائرین کے نذرانے بھی گوردوارہ کی آمدن میں شامل ہیں۔ ساری آمدن اوقاف کی چھلنی سے چھن کر گوردوارہ کے انتظامات کے لئے آئی ہے۔ انتظامیہ حکومت کی طرف سے گوردوارہ کے لئے کئے گئے انتظامات اور فراہم کی گئی سہولیات سے مطمئن ہے لیکن ہمیں کچھ معاملات دیکھ کر افسوس ہوا۔ جس گیسٹ روم میں بیٹھے تھے۔ اس کی کرسیاں تک ٹوٹی ہوئی تھیں۔ چائے بھی شاید انتظامیہ نے اپنی جیب سے پلائی۔ زائرین میں بڑی بڑی عالمی شخصیات بھی ہوتی ہیں۔ جن کی اسی کمرے میں سیوا کی جاتی ہے جس میں اے سی کی سہولت بھی نہیں ہے۔ اس گیسٹ روم سے متصل ایک وسیع لان ہے۔ جو ملنگنی کے جوئیں پڑے سر کے بالوں کی طرح اجڑا ہوا نظر آتا ہے۔ اتنی بڑی آمدن اور عالمی اہمیت کے حامل گوردوارے کی جو لش پش ہونی چاہئے وہ مفقود ہے۔ آصف ہاشمی اوقاف کی کمائی کی جیسے چاہیں دھنائی کریں۔ گوردوارہ کی ودھائی کا بھی خیال رکھیں۔ اچھے انتظام کی صورت میں نیک نامی اور بصورت دیگر بدنامی کس کی ہو گی؟
لاہور سے ہم لوگ چلے تو موضوع میڈیا اور میڈیا کی کرشماتی شخصیات کا تذکرہ رہا جو اپنا ریٹ اور اپنی ریٹنگ بڑھوانے کے لئے صرصر کو صبا اور بندے کو خدا لکھنے اور کہنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں۔ چودھری محمد حسین کے ڈیرے پر محفل جمی تو سیاست اور خصوصی طور پر ملکی حالات زیر بحث آئے۔ پانی کی کمی کے باعث ضلع ننکانہ صاحب میں 65 ہزار ایکڑ چاول کی فصل کاشت ہوسکی ہے۔ گذشتہ سال ایک لاکھ 5 ہزار ایکڑ پر ہوئی تھی۔ پانی کی کمی‘ نہروں میں پانی کم آنے‘ بجلی کی قلت اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے باعث ٹیوب ویلوں کی بندش کے باعث ہوئی۔ چاول ایکسپورٹر کئی سال سے مشکلات کا شکار ہیں۔ چاول کی قیمت پر نظر ڈالیں تو گذشتہ 6 سات سال سے تقریباً ایک ہی سطح پر ہے جبکہ اس کی پیداوار اور تیاری کے اخراجات میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ حکومت نے اس معاملے میں دلچسپی نہ لی تو چاول کی رہی سہی ایکسپورٹ بھی ختم ہو جائے گی۔گذشتہ دور میں ملکی سیاست کے پس پردہ ایک بڑے کردار بریگیڈئر اعجاز شاہ کا تعلق بھی ضلع ننکانہ صاحب سے ہے۔ ان کے اثرورسوخ سے ننکانہ صاحب کی جون ہی بدل گئی ہے۔ کھلی اور کشادہ سڑکیں اور دیگر بہت سے ترقیاتی کام اور تحصیل کو ضلع بنا دینا اعجاز شاہ کے دائیں ہاتھ میں پکڑے جانے والے نامہ اعمال کا حصہ ہے۔ اب وہ خود سیاست کی وادی میں اترنے کا فیصلہ کر چکے ہیں دیکھئے یہ وادی ان کے لئے پرخار یا پُربہار کیسے ثابت ہوتی ہے۔ ان کے مقابلے میں متوقع امیدوار رائے منصب علی خان اور مہر سعید پڈھیار ہوں گے۔ رائے صاحب اس حلقے سے پانچ بار جیت چکے ہیں۔ مہر صاحب کا بھی حلقے میں بڑا اثر ہے 2008ءمیں وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیت گئے تھے۔
بریگیڈئر اعجاز شاہ کے ننکانہ میں کام دیکھتے ہوئے جنوبی پنجاب کی پسماندگی نظروں میں گھوم جاتی ہے۔ اس پسماندگی کو بنیاد بنا کر اسے صوبہ بنانے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے حضرات کی صدارت‘ وزارت عظمیٰ گورنر اور وزارت علیاءکے منصبوں پر پہنچنے والوں کی ایک طویل لسٹ ہے۔ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے مرکزی اور صوبائی وزراءکی انھی مچی ہوئی ہے۔ اعجاز شاہ ایک ضلع کو سنوار سکتا ہے تو جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے مقتدر حضرات نے اپنے علاقوں کی پسماندگی کیوں دور نہ کی؟
مہنگائی بیروزگاری‘ افراتفری‘ لاقانونیت اور بجلی و گیس کی قلت جیسے اہم موضوعات پر بھی بات ہوئی اس کو کرپشن اور بدانتظامی کا شاخسانہ سمجھا جاتا ہے۔ شوکت علی شاہ صاحب نے اپنی یادداشتیں تازہ کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ فیض کریم کا تذکرہ کیا۔ ان کی فیملی مظفر گڑھ سے آرہی تھی۔ بچوں نے سٹیشن پر گاڑی بھجوانے کو کہا تو والد نے سرکاری گاڑی بھجوانے سے انکار کر دیا۔ فیملی کو تانگے میں ڈی سی ہا¶س آنا پڑا۔ جہاں فیض کریم نے ان کو ریسیو کیا اور تانگے کا کرایہ ادا کیا ساتھ ہی اوورلوڈنگ پر تانگے کا چالان بھی کر دیا۔ یہی فیض کریم جب لاہور میں مجسٹریٹ تھے تو ڈی سی مصطفیٰ زیدی نے اپنے دفتر طلب کرکے اداکار محمد علی کا تعارف کرایا اور ان کے خلاف مقدمہ خارج کرنے کی ہدایت کی۔ اگلی پیشی پر فیض کریم نے علی صاحب کی ضمانت منسوخ کر دی جس پر وہ بھاگ کر ڈی سی کے پاس چلے گئے۔ ڈی سی نے بپتا سنی تو چیف سیکرٹری کے پاس جا کر اپنا یا فیض کریم کا تبادلہ کرنے کو کہا اس پر فیض کریم کا کیمل پور (اٹک) تبادلہ کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنا ٹرنک اور مصلہ اٹھایا اور چل دئیے۔ ملک کو مشکلات سے قائداعظم کی تقلید کرنے والے سیاست دان اور فیض کریم جیسا جذبہ رکھنے والے بیوروکریٹ ہی نکال سکتے ہیں۔ ہماری واپسی بچیکی سے براستہ شرقپور ہوئی بچیکی میں نالہ ڈیک کا پل سات آٹھ سال کی خواری کے بعد بن تو گیا دونوں اطراف کے کھڈے ابھی موجود ہیں۔ محکمہ کے لنڈوروں کو لُنڈیانوالہ اور صوفی دی کوٹھی کے درمیان تباہ کن کھڈے بھی نظر نہیں آتے۔ محکمہ ہائی وے نے فیصل آباد لاہور روڈ وایا شرقپور ایک خوبصورت شاہراہ تعمیر کر دی ہے۔ لیکن مانگٹانوالہ سے دھوکہ منڈی تک سڑک‘ سڑک نہیں ایک فریب نظر اور دھوکہ ہے۔ جو متعلقہ محکمہ کی کالی بھیڑوں کی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔

No comments:

Post a Comment