About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, October 11, 2012

بے پَر



بے پَر

وہ گلستاں تو نااہلی کے فیصلے کی ل ±و سے ہی جھلس گیا جس میں سید یوسف رضا گیلانی کا نشیمن تھا۔ ایوان صدر اور وزیراعظم راجہ کو موضوع بحث بنا کر اب انہوں نے خود اس پر بجلیاں گرا دی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی نے صدر زرداری کے استثنیٰ پر اپنی وزارت عظمیٰ نچھاور کرتے ہوئے وفاداری کا ہمالہ ان کے قدموں میں ڈھیر کر دیا اور توقع یہ لگا لی کہ وہ اپنی اسی قربانی کے انعام میں وزارت عظمیٰ کے اختیارات بدستور استعمال کرتے رہیںگے۔ صدر کے استثنیٰ پر قربان ہو جانا‘ گیلانی کا بڑا احسان تھا لیکن ان کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھانا بہت بڑا احسان تھا۔ بہت ہی بڑا احسان! مگر جب امیدیں بر نہیں آتیں تو دل جلتے اور دل کے ارمان پگھلتے ہیں۔ یہی کچھ گیلانی مخدوم کے ساتھ ہوا۔ شاہ محمود قریشی سے وزارت خارجہ چھنی تو وہ بغیر وزارت اور اپنے خرچے پر کئی ماہ پیپلز پارٹی کے ڈسپوزل پر رہے۔ گیلانی 19جون 2012ئ کو وزارت عظمیٰ سے ہٹے تو وزیراعظم ہا¶س سے سیدھے ایوان صدر منتقل ہو گئے۔ آج مجموعی اثاثوں کی مالیت کے لحاظ سے موسیٰ پاک کے گدی نشین گیلانی خاندان کا شمار ملک کے چند امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے۔ 2008ئ کے الیکشن سے قبل مالی حالات مختلف تھے۔ ان کی حکومت کے دوران سابق وزرائے اعظم کے لئے خصوصی مراعات کا قانون بھی بن چکا ہے۔ جس کے وہ خود بھی حقدار ہیں۔ پھر ان کو ایوان صدر میں قیام پذیر ہونے کی کیا ضرورت تھی؟کیااس خواہش کے ساتھ بیٹھ گئے کہ سابقہ اختیارات استعمال کریں کرتے رہیں گے؟ وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے بعد بھی وہ چند اجلاسوں میں نئے وزیراعظم کے شانہ بشانہ تھے پھر رفتہ رفتہ چراغ الفت بجھتے چلے گئے اور بات گیلانی صاحب کے اس بیان پر پہنچ گئی کہ ”میرے کچھ پر عدلیہ اور کچھ بیورو کریسی نے کاٹے۔ اب میں اپنے پروں اور اڑوں گا“ اگلے دن ذرا سا غصے میں دکھائی اور سنائی دئیے کہ ایوان صدر کے دروازے سے میرے بیٹے کو گرفتار کیا۔ حکومت بے بس دکھائی دی۔ دہری شہریت پر رونے والے پارلیمنٹیرین کو میرے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے پر رونا چاہئے تھا“ وغیرہ وغیرہ۔ گیلانی صاحب نے پر کٹنے کی بات کی یہ نہیں بتایا کہ پر باز کے کٹے یا شہباز کے؟ چلئے پر کٹنے کا انکشاف کیا،کیا ناک سلامت ہے؟ البتہ برائلر کے کٹے پر اس کی پرواز میں مخل ہو سکتے ہیں نہ سلامت ہونے پر اس کی پرواز میں بلندی پیدا کر سکتے ہیں۔ اپنی پارٹی بنا کر گیلانی راجہ پرویز اشرف یا دوسرے پارٹی رہنما قیامت تک صدارت اور وزارت عظمیٰ کے منصب تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ پارٹی اور پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے وفاداری کا انعام ہے کہ فاروق لغاری اور رفیق تارڑ صدر پاکستان ،گیلانی اور راجہ وزیراعظم بنے۔ منموہن کانگریس کا وفادار اور کانگریس کی قائد کے اعتماد کے اوپر پورا اترا تو اسے دوسری ٹرم کے لئے بھی وزیراعظم بنا دیا گیا۔ وزیر اطلاعات کائرہ کہتے ہیں کہ پارٹی کے اندر اختلافات معمول کا حصہ ہیں۔ گذشتہ سال گیلانی نے اپنی کابینہ ”کوتر سو“سے مختصر کرکے 22 کی تو کائرہ اور راجہ پرویز اشرف کو نظرانداز کر دیا گیا لیکن وہ ثمر بارشاخ سے پیوستہ رہے۔ پارٹی کے دفاع میں ہر جگہ پیش پیش تھے تاآنکہ صدر زرداری نے ایک کو وزیر اطلاعات کا قلمدان لوٹا دیا تو دوسرے کو وزیراعظم بنا دیا۔
یوسف رضا گیلانی خود کو نئے تقاضوں کے مطابق حالات میں ڈھال لیتے تو ان کا سیاسی مستقبل تابناک تھا۔ جواب تاریک اور اندوہناک ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ آج منموہن کی جتنی عمر ہے گیلانی اس عمر کو پہنچے تک پانچ سال کی نااہلی کاٹ کر بھی کم از کم تین مرتبہ وزیراعظم بن سکتے تھے۔ منموہن کی تاریخ پیدائش 26 ستمبر 1932ئ اور گیلانی کی 9جون 1952ئ ہے۔ لیکن اپنے بیٹے کی 25 منٹ کی باعزت حراست سے ج ±ز ب ±ز ہوکر معاملے کو اس انداز میں اچھالاکہ نہ صرف ایوان صدر سے بلکہ ایوان صدر کے مکینوں کے دل سے بھی کوچ کر گئے۔ جیلوں میں پڑے قیدی بھی کسی گیلانی کے موسیٰ رضا ہیں۔ اپنے موسیٰ کی لمحاتی حراست پر گیلانی کی دل گرفتگی اور برافروختگی بلا جواز ہے۔ گیلانی کے پر کسی اور نے نہیں خود انہوں نے اپنی زبان سے کاٹے ہیں۔ البتہ معاملہ اب بھی دو انتہا¶ں تک نہیں پہنچا۔ ابھی پیپلز پارٹی کے حلقوں میں گیلانی صاحب کا احترام موجود ہے۔ ان سے متعلق بات بڑے محتاط انداز اور دبے دبے الفاظ میں ہو رہی ہے۔ گیلانی صاحب کے ایک دو ایسے مزید بیانات آئے تو ان کا پارٹی کے حلقوں میں وہی مقام ہو گا جس پر آج صفدر عباسی ناہید خان اور بابر اعوان جیسے رہنما ہیں۔ اگر وہ پارٹی بدلتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ اگلے چند ماہ میں ریکوریاں ہونے لگیں اور ان کو نئے محلات سے دستکش ہو کر ایک بار پھر ملتان والا آدھا گھر فروخت کرنا پڑے۔ گیلانی صاحب اتنے بھی ناسمجھ نہیں کہ پارٹی کو خیرباد کہہ دیں۔ جو سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ملتانی مجاور کے ہاتھ میں سوا چار سال تک 18کروڑ پاکستانیوں کی تقدیر تھما دی تھی ان کے لئے گیلانی کے بیانات پتھر سے کم نہیں اور شاید انہیں ”یوٹو بروٹس“ بھی یاد آتا ہو۔ یقیناً اس سے ان کے دل پر چوٹ پڑی ہے اور ع
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
تاہم معاملات ابھی بگاڑ کی ابتدائی سطح پر ہیں جن کو آسانی سے سدھارا جا سکتا ہے۔ گیلانی صاحب اور ان کے خاندان کا مستقبل پیپلز پارٹی میں جتنا اور جیسا بھی ہے محفوظ ہے....ع
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں


No comments:

Post a Comment